ذہن سازی

Farhan Minhaj..نائن الیون نے دنیا کی تاریخ بدل دی ۔ نہ صرف دنیا کی تاریخ بدلی بلکہ اسلامی تاریخ میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ نائن الیون سے پہلے القاعدہ نامی تنظیم موضوع بحث تھی جس کا مقصد امریکی مفادات پر دنیا بھر میں حملہ گردانا جاتا تھا ۔ اس کے سربراہ اسامہ بن لادن افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کی پناہ میں تھے ۔ 11ستمبر کو جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکراتے ہیں اور سینکٹروں لوگ عمارت کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہوجاتے ہیں جس میں دنیا بھر کے افرا شامل تھے ۔ دنیا میں کہرام سا مچ جاتا ہے سب حیران ہوتے ہیں کہ سپر پاور کو کس نے للکارہ ۔ امریکہ اس کی تحقیقات کرتا ہے اور الزام القاعدہ پر لگایا جاتا ہے اور ایک ٹیلی فون ٹیپ منظر عام پر آتی ہے جس میں اسامہ بن لادن اس کی مبارک باد دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔ اور اسے اسلام کی فتح سے گردانتے ہیں ۔
یہاں قابل توجہ اور افسوس ناک بات جو ہوئی وہ یہ تھی کہ اسلامی دنیا اس پر خاموش رہی کسی نے کوئی رائے نہیں دی ۔ اور اسلامی ممالک کے باشندے جو کہ امریکہ سے نالاں تھے ان کی کونسلنگ امریکہ مخالف ہوچکی تھی وہ بھی اسے اسلام کی فتح سمجھنے لگے ۔ اسی طرح مغربی ممالک کے لوگوں نے جب القاعدہ کا ملوث دیکھا تو ان کے دلوں میں بھی اسلام کے خلاف نفرت کا مادہ پھوٹنے لگا ۔ اگر یہاں اسلامی ریاستیں اپنا کردار ادا کرتیں اور اس عمل کی بھرپور مخالفت کرتیں اس لیے نہیں کہ امریکہ خوش ہو اس لیے کہ اس عمل سے اسلام پر دھشت گردی اور قتل و غارت کا الزام آرہا ہے ۔ کہتیں بے گناہ لوگوں کے قتل کی اجازت اسلام نہیں دیتا نادشمن کے تجارتی منڈی پر خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت دیتا ہے ان پر الزام ثابت ہوگیا تو یہ ہمارے بھی مجرم ہیں ہم انہیں سزا دیں گے ۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا ۔
دوسری طرف طالبان نے امریکی دشمنی کو ہی مقدم رکھا اور اسامہ بن لادن کو بنا تحقیق کیے ہی تحفظ دینے کا فیصلہ کرلیا اور پھر و ہ ہواجو دنیا نے دیکھا ۔ امریکہ افغانستان میں چڑھ دوڑا ۔ پاکستان کو اپنے اڈے دینے پڑے اور پوری اسلامی دنیا خاموش تماشائی بنی تباہی کا منظر دیکھتی رہی ۔ امریکہ کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا پھر ایک نا رکنے والا خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کا اٹھانا پڑا ۔ اکستانیوں کو ہی پاکستانیوں کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ معصوم لوگوں کے قتل کو اسلامی حکم کے مطابق پیش کیا جانے لگا ۔ اور دنیا بھر ہونے والے ہر واقعے کو اسلامی دھشت گردی سے تشبیح دی جانے لگی ۔ امریکہ مخالف نفرت اس میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوئی اور پوری دنیا میں اسلام اور دھشت گردی کو ایک ساتھ دیکھا جانے لگا ۔ ان حالات میں علماء اکرام نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھے ۔ میڈیا بھی خاموش رہا اور ہر واقعے کو اس طرح پیش کیاجاتا رہا کہ یہ قتل یہ شب خون اسلام کی سربلندی کے لیے ہو ۔ علامہ سرفراز نعیمی نے ایک تقریب میں خود کش حملے کو حرام قرار دیا اور دوسرے دن انہیں شہید کردیا گیا ۔ مغرب میں مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہونے لگا انہیں مجبوراََ اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی اور ان کا ذہن بھی اس پر قائل ہونے لگا کہ اسلام پر تشدد مذہب ہے ۔ اس وقت اس امر کی شدید ضرورت تھی کوئی آواز ایسی بلند ہو کہ اسلام سلامتی سے ہے ۔ اسلام ہر قسم کی دھشت گردی کو روکنے آیا ہے اور ہمارے پیغمبر ﷺ رحمت بن کر آئے ۔ اور آپ نے برداشت اور حقوق کی بات کی آپ نے انسانیت کو مقدم سمجھا آپ نے عورتوں کو حقوق دلوائے اور غلاموں کو ان کے جائز حقوق دلائے ۔
جہاں اسلام کے نام پر دھشت گردی کے لیے برین واشنگ کی جارہی تھی وہاں ضرورت تھی کہ ذہن سازی کی جائے کہ اسلام دین امن ہے ۔ اسلام بے گناہ لوگوں کے قتل کی مذمت کرتا ہے ۔ اسلا م میں خوکش حملوں کی کوئی جگہ نہیں ۔ اسلام میں جہاد کا مطلب نیکی کی کوشش کرنا ہے اور نیکی کے فروغ کے لیے کوشاں رہنا ہے ۔ اسلام میں قتال کی شرائط ہیں ۔ اسلام میں غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ اسلام برداشت اور صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ اسلام غیر مسلموں کی عباد ت گاہوں پر حملے سے منع کرتا ہے ۔ اسلام اسلحے کی نہیں کردار کی بات کرتا ہے ۔ اسلام رحمت اور سلامتی والا دین ہے ۔
گزشتہ روز اسی ضرورت کو دیکھتے ہوئے معروف اسلامی اسکالر اور سیاست دان علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے لندن میں نصاب امن کے عنوان سے اپنی تصانیف کی تقریب رونمائی کی ۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں نوجوان نسل کی امن اوربرداشت اور اسلام میں دھشت گردی کی ممانعت کے حوالے سے ذہن سازی کو فوکس کیا ہے ۔ دنیا بھر کے میڈیا اور نوجوانوں میں اس نصاب اور کاوش کو بہت پذیرائی ملی ہے ۔ انہوں نے اپنے نصاب میں دھشت کردی پر اپنا معروف فتوی ۔ اسلام کا نام لیکر معصوم شہریوں کو قتل کرنے والوں کے لیے خوارج کی اصطلاح کا عام کرنا ۔ اسلامی ممالک میں غیر مسلموں کے کیا حقوق ہیں اور غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو کس طرح رہنا چاہیے ۔جہاد اور قتال کی وضاحت اور آقا کریم کائنات میں سب سے زیادہ امن کو فروغ دینے والے اور سراپا امن ہیں۔ ایسے اسباب جس کو بنیاد بنا کر برین واشنگ کی جاتی ہے ان کا خاتمہ جیسے عنوانات کو ڈسکس کیا ہے ۔
جہاں اسلام دشمن قوتیں ہمارے کمزور ذہنوں اور عقائد کو استعمال کر کے برین واشنگ کر رہی ہیں اور دھشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں وہاں نوجوان نسل اور آئندہ نسلو ں کی نصاب امن کے ذریعے ذہن سازی کرنا ایک خوش آئند قدم ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ااور اس سے دھشت گردی کی جنگ نظریاتی سرحدوں پر بھی ممکن ہوگی ۔ داعش پاکستان کے لیے مستقبل قریب کا سب سے بڑا خطرہ ہے اس سے مقابلے کے لیے نظریاتی سرحد کا مضبوط ہونا ضروری ہے تاکہ داعش جیسی انسانیت دشمن گروہ کو فیول نا مل سکے ۔ اور انہیں نظریاتی طور پر شکست خوردہ کیا جاسکے ۔ علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تصنیف نصاب امن وقت کی عین ضرورت تھا اور امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی ادارے ا س نصاب کا جائزہ لیکر داعش جیسی انسانیت دشمن گروہوں کے لیے اس نصاب کونظریاتی جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی
فرحان منہاج
44101-0594094-1
03003156203

اپنا تبصرہ لکھیں