ذکر اہل بیت اور شہادتِ اِمام حسین ں

۰Selected by Aqil Qadir
Hazrat Imam Hussain.....اللہ رب العزت نے اہل بیت اطہار کے ذکر کو اپنے کلامِ مقدس قرآن مجید کا حصہ بنایا ہے۔ چنانچہ سورہ احزاب میں ارشاد فرمایا: ’’اے ازواج پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مثل نہیں ہو۔‘‘ اس سیاقِ کلام میں اسی آیت کریمہ سے متصل یہ آیت نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوا: ’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ا کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کردے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے۔‘‘
اہل بیت سے کون مراد ہے اس پر قابل توجہ تین معروف اقوال ہیں۔ ایک قول جو حضرت عکرمہ ص اور حضرت عبد اللہ ابن عباس ص سے مروی ہے اور جسے تمام ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں اہل بیت سے مراد ازواجِ رسول اہیں کیونکہ اس میں خطاب ازواجِ مطہرات ہی سے کیا گیا ہے۔ دوسرا قول جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا ہے اور جس کی تائید ام المومنین حضرت سلمہ رضی اﷲ عنہا، حضرت انس بن مالک ص، حضرت ابو سعید الخدری اور متعدد دیگر صحابہ ث کرتے ہیں کے مطابق یہ آیت کریمہ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت علی المرتضیٰ ص، سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ اور حسنین کریمین علیہما السلام یعنی پنج تن پاک کی شان میں وارد ہوئی ہے۔ رواۃ کے اعتبار سے یہ دوسرا قول زیادہ جامع ہے۔ اس میں دونوں اقوال کو جمع کیا گیا ہے وہ اس طرح کہ اس آیت کریمہ کا مصداق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عیال، اولاد، ذریت پاک یعنی سیدنا امام حسنؓ، امام حسینؓ، فاطمۃ الزہراؓ، علی المرتضیٰؓ اور جملہ ازواج مطہرات ہیں۔
یہاں بعض اہل علم کے حوالے سے یہ نکتہ قابل غور ہے کہ ان کا فطری، طبعی یا قلبی رجحان اہل بیت کی محبت سے خالی ہونے کی بنا پر وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں پہلے والی روایت بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اہل بیت کی محبت سے محرومی یا بغض کی وجہ سے وہ سیاق و سباق اور عبارتِ قرآن پر غور نہیں کرتے اور بغیر سوچے سمجھے یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ یہاں مراد صرف ازواج مطہرات ہیں اور ان ہی سے خطاب کیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک دائرۂ اہل بیت میں حضور ا حسنین کریمین، حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراؓ شامل نہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کا انداز اور صیغہ خطاب مختلف ہے۔ سورۃ احزاب کی آیت نمبر ۳۸ میں خطاب اہل بیت سے ہے۔ اس پر ان لوگوں کو غور و فکر کی ضرورت سے جو محبت اہل بیت سے محرومی کے باعث اہل بیت کو اہل بیت سے نکالنے کی سعی کرتے ہیں اور وہ اسے صرف ازواج مطہرات تک محدود کردیتے ہیں۔ اگر خطاب میں صیغہ کُنْتُنَّ آجائے تو مخاطب کوئی مرد نہیں ہوتا اور اگر کُنْتُم آجائے تو اس سے اگرچہ مراد مرد ہوتے ہیں لیکن اگر مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہوں تو اَغلبیت کی وجہ سے کُنْتُم کہہ دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صیغہ مذکر کا استعمال ہوا ہے اور وہاں اس خطاب میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ مثلاً فرضیت نماز، ایتائے زکوٰۃ، ذاکرین (ذکر کرنے والوں) کا ذکر آئے تو اس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی مراد ہوتی ہیں۔ جب صیغہ مؤنث کا ہو تو وہ صرف عورتوں کے لئے خاص ہے اور اگر مرد بھی شامل کرنا مقصود ہوں تو صیغہ میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ لہٰذا اہل بیت سے صرف اَزواجِ مطہرات مراد لینا قرآنی اسلوب اور انداز سے لاعلمی کے مترادف ہے۔
صیغۂ تذکیر و تانیث کے باب میں قرآن کا انداز تخاطب موقع محل اور التفات کی تبدیلی کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً سورہ احزاب کی آیت نمبر ۳۳ میں اہل بیت کو گناہ کے میل کچیل سے پاک و صاف کرنے کا ذکر کیا گیا تو ارشاد فرمایا: ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ( اے رسول ا کے) اہلیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کردے۔‘‘ اس سے پہلے تک خطاب طبقہ اناث سے ہونے کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ تانیث کے صیغے میں خطاب فرما رہا تھا لیکن یہاں آکر انداز خطاب بدل گیا اور عَنْکُنَّ کی جگہ عَنْکُمْ اور یُطَہِّرُکُنَّ کی بجائے یُطَہِّرُکُمْ تَطْہِیْرًا ارشاد فرمایا کہ اللہ چاہتا ہے کہ اہل بیت تم سب بشمول اناث و ذکور مطہر بن جاؤ اور ناپاکی گرد سے بھی تمہارا دامن آلودہ نہ ہو۔ اس طرح کی کئی مثالیں قرآن مجید میں ہیں جن سے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات نہیں بلکہ بیٹے اور شوہر بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ بیویوں کا شمار تو اس لئے اہل بیت میں ہے کہ وہ رشتۂ ازواج میں بندھی ہوتی ہیں۔ یہاں ایک بنیادی فرق قابل توجہ ہے کہ عام افراد امت کے لئے تو حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کسی کی وفات ہوجائے تو اس کی بیوی عدت کے بعد کسی اور کے ساتھ شادی کرسکتی ہے لیکن ازواج پیغمبر (ا) کو اس سے مستشنیٰ کر کے امہات المومنین یعنی مومنوں کی ماؤں کے درجے پر فائز کردیا گیا وہ حضور ا کے وصال کے بعد کسی اور سے رشتۂ مناکحت استوار نہیں کرسکتیں اور ان کا نکاح کسی اور سے حرام قرار دے دیا گیا۔ ازواج پیغمبر کا بارِ دگر نکاح دو وجہتوں سے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ایک تو یہ کہ فرمان خداوندی وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّہٰتُہُمْ کی رُو سے وہ مومنوں کی مائیں قرار پائیں دوسرا یہ کہ حضورنبی اکرم ا موت نے محض چھوا اور گزر گئی اور آپ ا ابد الاباد تک حیات ہیں۔ جب آپ ا ممات نہیں تو ازدواج سے رشتہ نکاح کیسے منقطع ہوسکتا ہے۔
حضرت زید بن ارقم ص سے پوچھا گیا کہ اہل بیت کون ہیں اور کیا حضور کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ یہ بات بڑی توجہ طلب ہے اور اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ ازواجِ مطہرات تو اہل بیت میں شامل ہیں ہی کچھ اور بھی اہل بیت ہیں جن سے مراد وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن پر آپ ا کے وصال کے بعد صدقہ حرام کردیا گیا۔ راوی حدیث نے یہ وضاحت فرمائی کہ جن پر صدقہ حرام کردیا گیا وہ اولادِ علیؓ، آل فاطمۃ الزہراؓ، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ امام مسلم نے ’’صحیح‘‘ میں زید بن ارقمؓ کے علاوہ دیگر رواۃ کا بھی ذکر کیا ان میں یزید بن حیان، سعید بن مسروق اور بکار بن ریان بھی شامل ہیں۔
جس مجلس میں حضور ں نے اپنے اہل بیت سے حسن سلوک کا حکم دیا اس میں سیدنا علی المرتضیٰ ص کی ولایت کا اعلان بھی فرمایا تھا۔ چونکہ حضرت علی ص حضور ا کے اصل عصبہ اور نسب ہیں ان کا اہل بیت میں ہونا بدرجۂ اولیٰ ہے۔ اسی طرح آپ کے دونوں شہزادے حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما اور ان کی والدہ سیدۂ کائنات کے اہل بیت ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہوسکتیں۔
حافظ ابن کثیر جو علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں، نے بھی تفسیر قرآن بالقرآن سے اس بات کی تائید کردی ہے۔ عالم عرب بمع حرمین شریفین اگر کسی تفسیر پر سب سے زیادہ اعتمادکرتے ہیں تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس مقام پر ایک بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ اس قول کے راوی حضرت عکرمہ ص، حضرت ابن عباس ص اور حضرت سعید ابن جبیر ص ہیں، اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ آیت کا شان نزول صرف ازواج مطہرات ہیں۔ شان نزول کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے مگر اس کے اندر اور بھی بہت سارے احکام موقع محل کی مناسبت سے آجاتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اس سے یہ مراد لے کر باقی افراد کو اہل بیت سے خارج قرار دے دیا ہے تو اس میں بڑی قباحت ہے جس کی اصلاح کرلینی چاہئے۔ امام مسلم، امام ترمذی اور امام نسائی نے بہت سی احادیث سے اس کی وضاحت کردی کہ جب آیۂ تطہیر نازل ہوئی تو لوگوں کی غلط فہمی اور ابہام کو دور کرنے کے لئے کہ اہل بیت کون ہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا یہ معمول بنالیا کہ ہر صبح جب نمازِ فجر کے لئے گھر سے نکلتے تو سیدہ فاطمۃ الزہرا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر یا أہل البیت کہہ کر آواز دیتے اور آیت تطہیر کی تلاوت کرتے گزر جاتے۔
اس کی تائید حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر جہاں آقا ں تشریف فرما تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حاضر ہوئیں ان کے ساتھ شیر خدا سیدنا علی ص بھی تھے اور پھر امام حسن ص اور امام حسین ص بھی آگئے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا حضور ں نے حضرت علی ص کو اپنے قریب کرلیا اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بھی اور دونوں کو اپنے سامنے بٹھالیا۔ پھر امام حسن ص اور امام حسین ص کو اپنی گود میں بٹھالیا اور آقا ں نے اپنی چادر ان پر ڈالی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمانے لگے۔ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ یہ آیت میرے گھر میں اتری اس پر تمام ائمہ تفسیر اور ائمہ حدیث کا اتفاق ہے۔
یہاں ایک خاص نکتہ توجہ طلب ہے کہ اس آیت کے نزول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کا گھر کیوں منتخب کیا جبکہ حضورنبی اکرم ا کی محبوب ترین زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا تھیں؟ اس کاجواب یہ ہے کہ افعال اللہ میں سے کوئی فعل خالی از حکمت نہیں۔ راقم کی دانست میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کو اس آنے والے وقت کا گواہ بنایا جا رہا تھا جس میں امام حسین ص کی شہادت ہونے والی تھی۔ آقا ں اپنی نگاہِ نبوت سے دیکھ رہے تھے کہ جب یہ واقعہ ظہور پذیر ہوگا اس وقت زوجہ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے سوا دیگر تمام ازواج مطہرات کا وصال ہوچکا ہوگا۔
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: ایک دن آقا ں میرے گھر میں تشریف فرما تھے اور حسین ص آپ کی گود میں تھے۔ آپ ا انہیں چوم اور کھلا رہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت جبرائیل ں آئے انہوں نے ایک شیشی لاکردی جس میں مٹی تھی اور اس کا رنگ سرخ تھا۔ آپ ا نے جبرائیل سے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ عرض کرنے لگے: ’’یا رسول اللہ! یہ مٹی زمین کربلا کی ہے یہاں ایک باغی اور دغاباز گروہ آپ کے اس شہزادے حسین ص کو شہید کردے گا۔‘‘ آپ ا نے وہ شیشی مجھے دے دی اور فرمایا: ’’ام سلمہ! اس مٹی کو سنبھال کر رکھنا، اس مٹی کا رنگ خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین میدان کربلا میں شہید کردیا گیا ہے۔‘‘ حضرت ام سلمہ ص بیان کرتی ہیں کہ میں نے خواب میں آقا ں کو دیکھا آپ ا کا چہرہ مبارک گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا آپ کے دست اقدس میں ایک شیشی تھی جس میں خون بھرا ہواتھا۔ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! یہ خون کیساہے؟‘‘ آپ ا نے فرمایا: ’’میں مقتل حسین ص سے آرہا ہوں یہ خون میری بیٹے حسین ص اور ان کے اصحاب کا ہے جنہوں نے میرے سامنے جام شہادت نوش کیا۔ بدبخت یزیدی ان کا خون خاک پر گرانا چاہتے تھے لیکن میں ان کے خون کا ہر قطرہ شیشی میں جمع کرتا جاتا تھا۔
زوجۂ رسول احضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کا خواب محض خواب و خیال نہ تھا بلکہ حق تھا۔ شہادت حسین ص کی جو خبر خواب میں مخبر صادق ا نے دی وہ مبنی بر حقیقت تھی۔ اس نوعیت کا خواب صحابی رسول حضرت عبد اللہ ابن عباس ص نے بھی دیکھا اور انہیں میدان کربلا میں حضرت امام حسین ص کی شہادت کے بارے میں مطلع فرمایا۔ یہ بات احادیث سے تواتر سے ثابت ہے کہ جب دس محرم الحرام کے دن شہدائے کربلا یکے بعد دیگرے شہید ہو رہے تھے تو وہاں آقا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شہادتِ حسین ص اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کا یہ منظر مشاہدہ فرما رہے تھے اس و قت سیدۂ کائنات رضی اﷲ عنہا، شیر خدا ص اور دیگر نفوسِ قدسیہ کی ارواح مقدسہ وہاں موجود تھیں۔
یزید کی جابرانہ حکومت کے خلاف فیصلۂ حسین ص میں غلطی کا کوئی امکان نہیں اور یہ کہنا کہ تھوڑی تعداد اور کمزور قوت کے ساتھ یزیدی قوت کے ساتھ ٹکر لینا جائز نہیں تھا ہرگزدرست نہیں۔ ایسا شک کرنا بھی غارت گر ایمان ہوسکتا ہے۔ امام حسین ص نے جو فیصلہ کیا وہی حق تھا۔ ان کا فیصلہ ظاہری قوانین پر پورا نہیں اترتا تو قانون بدل سکتا ہے، حکم بدل سکتا ہے مگر فیصلۂ حسین ص میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ حسین ص جس سمت ہوجائیں احکام شریعت کا رخ بھی ادھر ہوجاتا ہے۔
ان کی شان تطہیر اور حفاظت عن الرجس کے بارے میں عظیم تابعی حضرت قتادۃ اور حضرت مجاہد رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہیں ہر قسم کے سوء برائی اور بری سوچ سے پاک کردیا گیا تھا۔ پس ان کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہیں کی جاسکتی اور جو کوئی ایسا کرے وہ قرآن کا منکر اور ایمان سے خارج ہے۔ آیت مباہلہ کے باب میں اہل بیت کو حضور ں نے اپنا نفس اپنی جان مراد لیا ہے۔ جمیع کتب احادیث کے مطابق نجران سے نصاریٰ کا جو وفد آیا تھا وہ ایک روایت کے مطابق سات افراد پر مشتمل تھا۔ جبکہ ابن اسحاق کی روایت میں ان کی تعداد بارہ بیان کی گئی ہے۔ جو ان کے عیسائی بارہ اشراف لے کر آئے تھے۔ روایات میں ان کے نام بھی درج ہیں۔
جب ان بڑے عیسائی زعماء میں مناظرہ اور مباحثہ کی سکت اور ہمت جواب دے گئی تو انہوں نے شکست کے آثار سامنے دیکھ کر مباہلے کی دعوت دی جو آپ ا نے قبول کرلی اور اس کے لئے اگلی صبح کا وقت مقرر ہوگیا۔ آقا ا نے اگلی صبح شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ اپنی لخت جگر فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا، امام حسین ص اور امام حسین ص چاروں کو پہلو بہ پہلو اپنی آغوش میں لے کر آیت مباہلہ کے کلمات ادا فرمائے۔ جب ان کے سردار کی نظر آقا ا اور آپ کے دامن میں چھپے نفوس قدسیہ پر پڑی تو وہ لرزہ براندام ہوکر کہنے لگا: ’’ان کے مقابلے میں نہ آنا۔ خدا کی قسم اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری بستی اور خاندان کا کوئی بڑی سے بڑی طاقت والا شخص بھی زندہ نہیں بچے گا اور قیامت تک تمہارا کوئی نشان بھی باقی نہیں بچے گا۔ وہ سب راہ فرار اختیار کرگئے تو آپ ا نے فرمایا: ’’اگر وہ مباہلہ کے لئے مقابلے میں آجاتے تو نجران کی بستی آگ سے بھر جاتی جس میں اس کے مکین خس و خاشاک کی طرح بھسم ہوجاتے۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما اس مقام پر آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں اَنْفُسَنَا سے مراد رسول اللہ ا کی اپنی ذاتِ اقدس اور حضرت علی المرتضیٰ ص جن کو حضور ا نے اپنا نفس قرار دیا، ہیں۔ اَبْنَاء سے امام حسن ص اور امام حسین ص اور نِسَاءُ نَا سے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہما مراد ہے۔
شہادتِ امام حسین ص کو شہادت عظمیٰ قرار دینے کے حوالے سے بعض ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ شہادتیں تو بہت سے انبیاء اور اولو العزم جلیل القدر لوگوں کی بھی ہوئیں کیا وجہ ہے کہ ان کو یہ شہرت اور بقائے دوام نصیب نہیں ہوئی جتنی شہادت امام حسین ص کو ہوئی۔ معرفت سے عاری بعض ناپختہ ذہن لوگ ذکر شہادت امام حسین ص کو اہل تشیع کا عمل قرار دیتے ہیں حتی کہ ذکر شہادتِ حسین ص کی کثرت کی وجہ سے تحریک منہاج القرآن پر بھی زبانِ طعن دراز کی جاتی ہے۔ لہٰذا اس تصور کو ذہن سے نکال دینا چاہئے، یہ فتنہ اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ مسئلہ سنیت اور شیعیت کا نہیں۔ شہادتِ حسین ص کو فرامین مصطفی ا کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس پر تفریق کی عمارت کھڑی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ عنوان شہادتِ حسین ص کا ہے لیکن اس کا مضمون شہادتِ مصطفی ا سے عبارت ہے عنوان کربلا کے تحت ذکر حسین ص عین ذکر مصطفی ا بن جاتا ہے۔ ذکر مصطفی ا کی رفعت و مداومت کی ہمسری کا دعویٰ ذکر خدا کے علاوہ اور کوئی ذکر نہیں کرسکتا کہ اس پر خود قرآن کی آیات بینات شاہد عادل ہیں۔
قافلہ حسین ص پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے اور جس طرح ایک شہزادے سید زین العابدین کے سوا کوئی مرد باقی نہ بچا اور خانوادۂ اہل بیت نے جس شان کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا اور خود امام عالی مقام نے زیر خنجر جس شان شجاعت اور تزک و احتشام سے اپنی جان جاں آفریں کے حوالے کی اس نے قیامت تک آقا ں کے اسوۂ مبارکہ اور دین مبین کو زندہ جاوید کردیا جبکہ یزید کا نام ابد الاباد تک ایک غلیظ گالی بن کر رہ گیا۔ شہادت حسین ص میں آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ اگر دوبارہ اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو اسوۂ حسینی پر عمل کرنا ہی ضروری و لابدی ہوجاتا ہے۔

Back to Conversion Tool

اپنا تبصرہ لکھیں