خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ حرف گیری ۔۔۔۔

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ حرف گیری ۔۔۔۔
تحریر: اطہر علی ہاشمی
www.bhatkallys.com/ur/author/athar-hashmi/
کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے صحیح املا میں ابہام ہوجاتا ہے، مثلاً ’جز‘ یا ’جزو‘۔ ساتھی پوچھ بیٹھیں تو ہم خود اُلجھ جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ’جز‘ ہو یا ’جزو‘ دونوں ہی صحیح ہیں… یہ فارسی کے الفاظ ہیں۔ ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ’جز‘ جزو کا مخفف ہے، فارسی اور اُردو میں جب مضاف ہوتا ہے تو وائو کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ’جز‘ کا مطلب ہے: غیر، سوائے، بدون، بغیر، بیشتر اس جگہ بجز مستعمل ہے، اس معنیٰ میںاضافت کے ساتھ مستعمل نہیں۔ اردو میں 16صفحوں کو بھی جز کہتے ہیں۔ پریس وغیرہ میں ’جز بندی‘ کا استعمال عام ہے۔ ایک شعر ہے:

ہوائے وصل و آبِ اشک و سوزِ ہجر و گردِ غم
یہ ہے ایک ایک جز ہم عاشقوں کے چار عُنصر کا
خاصا مشکل شعر ہے۔ جزدان اور جزودان جس میں قرآن کریم لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، اور کچھ گھرانوں میں لپٹا ہی رکھا رہتا ہے۔ اس سے ایک اور لفظ ’جزرس‘ بمعنی ذہین، کفایت شعار، کنجوس بھی ہے۔ جزو کا ایک مطلب ریزہ ، پارہ وغیرہ بھی ہے۔ غذا کے بخوبی ہضم ہوکر خون میں شامل ہوجانے کو جزوِ بدن ہوجانا کہتے ہیں۔ داغؔ کا شعر ہے:

کیا غم سے پھولتا نہیں انسان چارہ گر
جو استخواں گھلا وہیں جزوِ بدن ہوا
(استخواں کا تلفظ’ استخاں‘)
ایک لفظ ’جمعیت‘ ہے جو جمع سے ہے، تاہم ایک لفظ ’جمیع‘ ہے جس میں میم کے بعد ’ی‘ آتی ہے۔ جمعیت (ع) کا مطلب ہے آدمیوں کا گروہ (مونث)۔ علاوہ ازیں فراہمی، اکٹھا ہونا، جمگھٹا وغیرہ ۔ جمیع صفت ہے، کل، سب، مجموع وغیرہ۔ دونوں ہی عربی کے الفاظ ہیں، مصدر جمع ہے۔ اس سے دیگر الفاظ بنتے ہیں مثلاً دل جمعی یعنی اطمینان، تسکین۔ جمعیتِ خاطر یعنی تسلی، تشفی۔ تسلی وغیرہ کے لیے اردو میں کہا جاتا ہے ’’خاطر جمع رکھیے‘‘۔
پاکستان میں جمہور اور جمہوریت کا چرچا برسوں سے ہے۔ علامہ اقبالؒ بھی کہہ اٹھے تھے کہ:

سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو
نہ تو ایسا زمانہ آسکا اور نہ ہی نقوشِ کہن مٹائے گئے۔ اس سے قطع نظر دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہور عربی کا لفظ ہے اور عربی میں اس کا مطلب ہے: ریت کا ڈھیر۔ پاکستان میں جمہور کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ حکمران بھی ان معنوں سے واقف ہیں۔ علامہ اقبال نے تو مسلمان کو راکھ کا ڈھیر قرار دیا تھا۔ بہرحال جمہور کا اصطلاحی معنی ہے: آدمیوں کا بھاری گروہ، تمام، سب وغیرہ۔

اپنا تبصرہ لکھیں