[ جسے پیا چاہے وہی سہاگن

حفیظ نعمانی

اس میں کون شک کرسکتاہے کہ 2014کا الیکشن تنہا ایک شخص یعنی شری نریندرمودی نے لڑا اور انہوں نے ہی کامیاب امیدواروں کی اتنی بڑی فوج کھڑی کردی جس کے متعلق سب نے سوچنا بھی بند کردیا تھا ۔ نام بی جے پی کا ضرور رہا جھنڈابھی اسی کا لہراتا رہا اور کبھی کبھی دوسرے لیڈر بھی کہیں شوبوائے کی طرح کی نظر آئے لیکن الیکشن کی کامیابی کے لئے بے مثال محنت اور بزرگ صحافی کلدیپ نیر کے مطابق 5لاکھ کروڑ روپئے کا انتظام صرف مودی جی کا کارنامہ ہے

اس میں بی جے پی کا کوئی چندہ نہیں ہے اس لئے آدھی مہم کے بعد بی جے پی کو ووٹ دوتوصرف نام لئے کہاگیا اور نہ اصل نعرہاب کی بار مودی سرکارتھا جس کے بعد کسی کاکوئی دخل نہیں رہ جاتا تھا ۔
ہرالیکشن کے بعد کامیاب پارٹی کے لئے وزیروں کا انتخاب ایک اہم مسئلہ ہوتاہے اس میں دیکھا جاتاہے کہ کسی صوبہ سے کتنے جیتے او ران میں کون کون ایسا ہے جسے وزیر بنایا جائے؟پھر علاقوں کا دباچلتاہے برادریوں کے متعلق فیصلہ کرنا پڑتاہے کہ کس برادری نے کتنا ساتھ دیا اس کے کتنے وزیر بنائے جائیں ؟پھرپورا بورڈ بیٹھتا ہے تب خدا خدا کر کے کابینہ مکمل ہوتی ہے۔ لیکن موجود ہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ سلیکشن بورڈ میں کسی کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اپنی رائے دے سکے ٹیم کے کپتان نے ہی کیا جو کچھ کیا اور انہوں نے ہی اپنی ٹیم کا انتخاب کر لیا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ انہوں نے انتخاب کے وقت کیا پیمانہ رکھا؟مثال کے طور پر محترمہ نجمہ ہپت اللہ صاحبہ کو وزیربنا کر اقلیتی امور کی وزارت ان کے سپرد کی گئی ۔ یہ وہی پرانا ہتھیار ہے جو مسلمانوں کے قتل کے لئے باربار استعمال ہوچکاہے اور سب سے پہلے شری لال بہادرشاستری نے کریم بھائی چھاگلہ کو وزیرتعلیم بنا کر اس کا استعمال کیا تھا ۔ ہر چندکہ وہ جو چاہتے تھے وہ کرتونہ سکے لیکن اتنا کرگئے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آج تک اپنے زخموں پر مرہم لگا رہی ہے۔
اس بار چھوٹے پردے کی بہت مقبول اداکارہ اسمرتی ایرانی کو وزیرتعلیم بنایا گیا ہے جن کی اپنی تعلیمی حیثیت صرف اتنی ہے جتنی تعلیم کے بعد ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں چپراسی بھی نہیں رکھاجاتا۔ وزیرتعلیم کی تعلیمی قابلیت پر جب کانگریس نے منھ کھولاتو علم وفضل کے پہاڑ مس اوما بھارتی اور شری مختارعباس نقوی پھٹ پڑے کہ مسز سونیا گاندھی اوراندراگاندھی کی ڈگریاں دکھا۔ یہ توان دورقیبوں کا معاملہ تھا ۔ ہم کانگریسی نہیں ہیں بس ایک چھوٹے درجہ کے اخبار نویس کہے جاسکتے ہیں۔ ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مودی جی نے انہیں کیاسوچ کر وہ وزارت دی ہے جو اٹل جی نے شری مرلی منوہر جوشی کو دی تھی اس لئے کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تعلیم سے جڑے ہوئے اور تعلیم گاہوں کے حالات سے واقف تھے؟۔ان دونوں کے علاوہ بھی بعض حضرات کی تعلیم بہت کم ہے او رسیاسی تربیت تو بس اتنی ہے کہ انہیں ٹکٹ ملا اور وہ ہر ہر مودی کی مالا جپتے جپتے کامیاب ہوگئے اورمودی جی نے انہیں وزیربنادیا ۔ ایسی وزارت جو انہیں دو دن بھی ہضم نہیں ہوئی اور وہ دفعہ370کولے بیٹھے جب کہ انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ بی جے پی الیکشن میں دفعہ370کو ختم کرنے کی مہم چلا یا کرتی تھی ۔ عالی جناب وزیرصاحب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس دفعہ کو بار بار خصی کیا گیا ہے او راب اس میں بس وہ بچا ہے جو دفعہ371میں ہے جس کی بنا پر ہماچل پردیش میں کوئی دوسری ریاست کا آدمی زمین نہیں خریدسکتا۔ کاش کوئی منتری جی کو دفعہ370کی تاریخ پڑھادے تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس دفعہ کی وجہ سے کشمیر میں گورنر نہیں صدرریاست کا ہوگا جو راجہ کرن سنگھ تھے اور رہے اوروہاں کا وزیراعلی وزیراعظم کہا جائے گا جیسے اس دفعہ کے تحت پہلے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ بنے اس کے بعد بخشی غلام محمد اور اس کے بعد پھر کوئی تیسرا بنابعد میں مسٹرفاروق عبداللہ کے بہنوئی نے حکومت کی لالچ میں وزیراعلی بننا منظور کرلیا اور یہ دفعہ ہماچل کی دفعہ371بن کر رہ گئی شایداسی لئے آرایس ایس کو بولناپڑا کہ چپ رہو جلدی نہ کرو۔
ہم نے بات شروع کی تھی محترمہ نجمہ ہپت اللہ ۔مودی جی اگرمسلمانوں کو اپنے سے قریب کرنا چاہتے ہیں تو یہ محکمہ محترمہ سے واپس لے کرکسی شریف ہندو کو دے دیں ۔ نجمہ صاحبہ اپنے نصب نامہ میں نہ جانے کون کون سے ستارے ٹانکے ہوئے ہیں۔ انہیں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی کس درجہ میں نسبت دی جاتی ہے ۔لیکن ان کی وہ عمر جس میں ذہن کی تربیت ہوتی ہے وہ سب کانگریس میں گذری ہے یہی وجہ ہے کہ وہ شری چھاگلا کے نقش قدم پرچلنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ اصل اقلیت توپارسی ہیں۔اس بات کا اعلان ہے کہ وہ سوکروڑ ہندوں کی یہ شکایت دورکردیں گی کہ کانگریس مسلمانوں کی منھ بھرائی کررہی ہے ۔ وہ اقلیتوں کی فہرست سے مسلمانوں کا قصہ ہی ختم کئے دے رہی ہیں اورانہیں اقلیت بتارہی ہیں جو مسزاندراکے شوہر فیروز گاندھی تھے ۔ راجیوگاندھی کے والد ار راہل کے داداجن کے والد کی الہ آباد میں شراب کی سب سے بڑی دوکان تھی ۔ وہ پارسی جو مسٹرجناح کے داماد ہیں اور جن کی اکثریت ممبئی میں رہتی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا کمزور حیثیت کا پارسی ہو جو روز رات کے کھانے میں سور کا گوشت نہ کھاتا ہو اور دارونہ پیتا ہو ۔
نجمہ صاحبہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ کر اپنے سب پتے کھول دئے کہ یہ وزارت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے دائرے میں سبھی اقلیتی آتی ہیں خاص طور پر پارسی جن کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہو ں نے یہ بھی کہا کہ ضرور نہیں ہے کہ سچرکمیشن کی تمام سفارشات پرعمل ہو ۔ انہوں نے ریزرویشن کو بھی یہ کہہ کر مستردکردیا کہ مذہب کی بنیادپر ریزرویشن نہیں دیا جاتا۔بات صرف اتنی سی ہے کہ وہ پوری ہندوحکومت کو للکاررہی ہیں کہ آ کوئی مجھ سے زیادہ مسلمانوں کی حق تلفی کر کے دکھا۔ اور امید یہ ہے کہ وہ چھاگلا سے کچھ زیادہ ہی نمبر لے جائیں گی اس لئے کہ چھاگلہ کو وقت نہیں ملا اورنجمہ کے پاس بہت وقت ہے۔

A

اپنا تبصرہ لکھیں