اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ذہین شاطر اور بہادر تھا لیکن تسلط وتصرف کے
لیے وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وسائل کی کمی اس کی راہ میں بہت بڑی
رکاوٹ تھی۔ جب جذبے اٹل اور کرنے کی خواہش میں جان ہو تو کر گزرنا مشکل
نہیں رہتا۔ کرنا ہدف سے جڑا رہتا ہے۔ اس کا ہدف معمولی اور عام نوعیت کا
نہ تھا۔ محنت مزدوری سے تو پیٹ کا جہنم بھی نہیں بھر پاتا۔ وہ اس کا
قائل بھی نہ تھا اور ناہی محدود دائرے کا قیدی ہونا اسے کبھی خوش آیا
تھا۔ دائروں کے قیدی زندگی کے بڑے گرانڈ میں کھیل نہیں پاتے ہیں۔ چوری
محدود وسائل پیدا کرتی ہے جب کہ ڈاکہ وسائل ہی زیادہ میسر نہیں کرتا
بلکہ اس میں جرآت بہادری اور سینہ زوری کے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔
گھنٹوں غور کرنے کے بعد اس پر کھلا کہ اٹھتے ہی ڈاکے کی راہ اختیار
کرنا ممکن نہیں۔ اسے آغاز چھوٹی موٹی چوری ہی سے کرنا پڑے گا۔
شروع شروع میں چھوٹا موٹا شور ہوا لیکن جب چوریوں کی تعداد بڑھی تو
علاقے میں بیچینی پھیل گئی۔ انتظامی ادارے بھی تشویش کا شکار ہو گیے۔
ہم پیشہ و ہم مشرب تو میسر آ ہی گیے تھے اب انتظامیہ کو ہاتھ میں کرنا
ضروری ہو گیا تھا۔ اس کام میں بھی اسے کچھ زیادہ تردد نہ کرنا پڑا۔
انتظامیہ خصوصا گرفت کرنے والے اداروں کو اس سے لوگوں کی تلاش رہتی
ہے۔ اس سے لوگوں کا کیا چھوٹے مجرموں پر ڈال کر معاشرے میں انصاف کا
بول بالا کیا جا سکتا ہے۔
اب وہ کافی مضبوط ہو گیا تھا۔ وہ دن دیہاڑے جہاں اور جس کے ہاں بھی
چاہتا ڈاکہ ڈالتا۔ وہ علاقے میں خوف کی علامت کے درجے پر فائز ہو چکا
تھا۔ چودھری کا دھندا ماند پڑنے لگا۔ انتظامیہ نے بھی اس کے کاموں پر
گرفت کا آغاز کر دیا تھا۔ چودھری حیران تھا کہ اس کے آدمی موقع پر ہی
کیوں پکڑے جانے لگے ہیں۔ اس کے پاس انتظامیہ کو ٹھپ کرنے کا کوئی رستہ
ہی باقی نہ رہا تھا۔ بھتہ خور انتظامیہ نے چودھری پر اتنا احسان ضرور
کیا کہ وہ لکھت پڑھت میں چودھری کا ذکر تک نہ کرتے۔ کاموں کو بھی جرات
نہ ہوتی کہ وہ چودھری کا نام تک زبان پر لائیں۔ ہاں یہ ضرور ٹھان لیتے
کہ وہ جیل سے باہر آ کر محودے زوراور کے گروپ میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ
غداری نہ تھی چودھری کے بااعتماد کامے اندر خانے محودے زوراور کے گروپ
میں شامل ہو چکے تھے۔ ہر چھوٹی بڑی خبر ان ہی کے ذریعے زوراور تک
پہنچتی تھی۔ اسی بنا پر انتظامیہ انہیں موقعہواردات پر پکڑ لیتی تھی۔
پبلک میں آ جانے کے باعث چودھری بیبس ہو جاتا اور اپنے بندوں کے لیے
کچھ نہ کر پاتا۔
چودھری علاقے میں اپنا نام و مقام کھو چکا تھا۔ بااعتماد کارکن درپردہ
اس کے نہ رہے تھے۔ دھندے کے لوگ زوراور کے ساتھ مل چکے تھے۔ انتظامیہ
میں وہ بہادر شاہ ظفر سے زیادہ نہ رہا تھا۔ لوگوں میں بھی اس کی شہرت
خراب ہو گئی تھی۔ اس نے زوراور کو مروانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ کوشش
اسے بڑی مہنگی پڑی۔ دوسری طرف زوراور نے بااثر لوگوں کو اپنا کرنے کی
مہم تیز کرنے کے ساتھ کم زور طبقوں کے لیے روٹی کے دروازے کھول دیے۔ اس
نے سب سے بڑھ کر کام یہ کیا کہ علاقے میں ڈاکوں کی تعداد کو محدود کر
دیا۔ ڈاکہ صرف منحرف لوگوں کے ہاں ہی پڑتا۔ ہاں آس پاس کے تین علاقے جن
پر وہ تصرف وتسلط کا ارادہ رکھتا تھا۔ پر چوری اور ڈاکے کا دروازہ کھول
دیا۔ وہاں کی انتظامیہ اور چودھریوں کے خاص بندے اس کے بندے تھے۔
اس کے پاس وسائل کی کمی نہ رہی تھی دوسرا اب وہ علاقے کا معتبر اور
معزز ترین شخص تھا۔ ایک کمزور ناکام اور بدنام شخص کو چودھراہٹ کا حق
نہ رہا تھا۔ یہ بھی کہ چودھری کو مروا کر اس کے وسائل پر قبضہ کرنا
مشکل نہ رہا تھا اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اسے ابھی بہت کچھ
کرنا تھا۔ اس کے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہ تھا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے
میں چودھری کو فارغ کرکے ناصرف فارغ کیا بلکہ اس کے جملہ وسائل کو
اپنے قبضہ میں لے لیا۔ کام کے مردوں کو چلم برداری سونپ دی۔ خوب صورت
لڑکیاں خواب گاہ میں پنچا دی گئیں۔ عورتوں پر ترس کھاتے ہوئے اپنے
کاموں کو جنسی معاملات کے لیے سونپ دیں۔ اب محدا زوراور وہ نہ رہا
تھا لوگ اسے ملک محمود زوراور کے نام سے پہچاننے لگے۔
پہچان کی تبدیلی نے اس کے اعتماد کو جلا بخشی۔ اب وہ کسی واردات میں
خود نہ شامل ہوتا بلکہ اس کے کامے یہ کام انجام دینے لگے۔ اب وہ ڈیرے میں
بیٹھ کر آئے گیے کے ساتھ معاملات کرتا۔ اقتدار کی حصولی کے بعد اس نے
یہی سیکھا کہ اعتماد اقتدار کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ جب کسی پر معمولی
سا بھی شبہ گزرتا تو وہ وقت ضائع کیے بغیر اس کا اور اپنا مخالف
تلاشتا۔ مناسب شخص میسر آنے پر اسے غدار اور غیر کی مخبر زندگی سے
آزادی دلا دیتا۔ دوسرے کو انصاف کے نام پر سر عام لٹکا دیتا۔ مرتے شخص
میں بھی اتنی جرآت نہ ہوتی کہ ملک صاحب کا نام زبان تک لے آئے۔
اس نے علاقے میں چوری چکاری کی ضرورت کو طلاق دے دی۔ اس کی ضرورت ہی کیا
تھی۔ زمین سامان کی حیثیت ہی کیا لوگ اس کے ہتھ بدھے غلام تھے۔ وہ اس
کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ مذہبی حلقوں کا پیٹ اور منہ خالی رکھنا جرم
سمجھتا تھا۔ انہیں منہ مانگا ان کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر میسر آتا تھا۔
وہ بڑا ادب نواز تھا۔ قصیدہ خواں شعرا کو نوازتا رہتا تھا۔ وہ اس پر خوش
تھے۔ اس نے ارد گرد کے علاقوں میں اندھیر مچا دیا۔ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی
الگ علاقوں کے چودھریوں کی عزت کو مٹی میں ملانے کے لیے ہر حیلہ
اورحربہ اختیار کر دیا۔
قبیلہ سلاح خوش حالی اور امن پسندی کے لیے معروف چلا آتا تھا۔ اس قبیلے
کا چودھری بڑی شے بنتا تھا۔ چھوٹے قبیلوں پر تسلط حاصل کرنا مشکل نہ
تھا لیکن قبیلہ سلاح ذرا ٹیڑھی کھیر تھا۔ اس نے قبیلہ ثالیفہ کو غیرت
دلائی کہ سلاح والے ان کے علاقوں پر قابض چلے آتے ہیں اور وہ اپنے
علاقے واپس نہیں لے رہے۔ قبیلہ اوخ اور قبیلہ تنوخ والوں کو بھی مختلف
حربیاختیار کرکے سردار سلاح کے خلاف کر دیا۔
اول اول ان چار قبیلہ کے سرداروں میں سرد جنگ چلی اور یہ پورے دو سال
چلی۔ ان چاروں کے مابین تلخی اشتعال کے دروازے پر آ پہنچی۔ اب بس آگ
دکھانے کی ضرورت تھی۔ ملک زوراور نے موقع دیکھ کر ضرب لگا ہی دی۔ پھر
کیا چاروں قبیلے آپس میں بھڑ گیے۔ ملک زوراور نے غیرجانب داری کا اعلان
کر دیا۔ چاروں قبیلے قیامت سے دوچار تھے۔ کئی دن قیامت خیزی رہی۔ بلاشبہ
تینوں قبیلے بڑی دلیری سے لڑے لیکن قبلہ سلاح کو زیر کرنے میں ناکام
رہے۔ ہاں البتہ قبلیہ سلاح بھی معاشی بیماریوں کا شکار ہو گیا۔ اس آویزش
میں بہت سارے بیگناہ موت کے گھاٹ اتر گیے۔ سرداروں کے مفادات میں
زیادہ تر لوگ ہی کام آتے ہیں۔ امن ہو تو لوگ سردار کے لیے کماتیہیں۔ جنگ
ہو تو لوگ سردار کے مفاد کی لڑائی میں زندگی سے ہاتھ دھوتے ہیں
چاروں قبیلوں میں بدامنی پھیل گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی موت زندگی
کی دشمن بنی رہی۔ انسانی تقاضوں کے پیش نظر ملک زوراور نے ایک ایک
کرکے چاروں قبیلوں پر تسلط حاصل کر لیا۔ امن قائم کرنے اور زندگی کی
بحالی میں کئی ماہ لگ گیے۔ وہ ان کے سرداروں کے خون سے ہاتھ رنگ کر
تاریخ میں اپنے کردار کو بدنما نہیں کرنا چاہتا تھا۔ انہیں بہ طور جنگی
مجرم عدالت کے سپرد کر دیا۔ ہر علاقے سے ایک ایک منصف لیا گیا۔ چند
دنوں کی کاروائی کے بعد ان چاروں کو موت کی سزا سنائی گئی۔
تین چار سال بعد ہی لوگ ماضی میں برپا ہونے والی قیامت کو بھول گیے۔
ملک زوراور نے امن کی بحالی کے لیے ہر ناجائز قدم اٹھایا۔ پانچ علاقے
ایک علاقہ ہو گیے۔ وہ بہت بڑی قوت قوت واحدہ بن گیے تھے۔ باغیوں اور
سرکشوں کے سوا کسی کے ہاں ڈاکہ نہ ڈلواتا تھا۔ ہاں ان کے آس پاس کے
سبھی قبیلے ڈاکوں کی زد میں آگیے۔ کسی میں بولنے اور آواز اٹھانے کی ہمت
نہ تھی۔
ملک زوراور اٹھتا بیٹھتا ان پر بھی قبضہ جمانے کی سوچتا رہتا۔ کسی کے
فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو پاتی کہ کب کیا ہونے والا ہے۔ وہ قبیلوں کے
سرداروں کو دعوتیں دیتا۔ ان سے بڑی محبت اور خلوص سے پیش آتا۔ انہیں عزت
اور احترام سے نوازتا۔
ویر جی علاقے کے لوگوں کی بیحسی اور غلامی کو دیکھ کر آزردہ ہوتے۔ وہ
شخصی آزادی کو ترقی کے لیے لازمہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو اپنے
خیالات کے حصار میں لینا شروع کر دیا تھا۔ نئی سوچ پروان چڑھنے لگی۔
لوگ ان کی بڑی عزت کرتے اور احترام دینے تھے۔ وہ اپنے لقمے بھوکوں کے
سپرد کر دیتے۔ انہیں ہمیشہ لوگوں کے دکھ درد کی چنتا رہتی۔ ان کا موقف
تھا انسان کو دوسرے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اکثر کہتے
حرام لقموں کو منہ میں رکھنے کی بجائے بھوکے رہنا ہزار درجہ بہتر ہے۔
وہ انسان کے خالق کی ہر لمحہ تعریف کرتے۔ جب کسی دکھی کو دیکھتے تو اسے
حوصلہ دیتے۔ فرماتے فکر نہ کرو مالک تمہیں تم سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ
کوئی ناکوئی سبب ضرور پیدا کر دے گا۔ انہیں مل کر روح میں سکون اتر
جاتا۔ آنکھیں ٹھندک سے بھر جاتیں۔
ان کے پاس لوگوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ اس ایریا کے سربراہ کو ویر جی کی
مقبولیت کھٹکنے لگی۔ اسے گمان گزرا کہ ویر جی یہ سب اقتدار پر قابض
ہونے کے لیے کر رہے ہیں۔ ویر جی تو دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ انہیں اس
جھوٹے اقتدار سے کیا غرض تھی۔ مال و دولت ان کے کام کی چیزیں نہ تھیں۔
یہی عنصر لوگوں کو ان کے قریب لا رہا تھا۔ اقتداری طبقے کو ویر جی
کانٹے کی طرح چھبنے لگے۔ وہ ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے۔ ہر روز دو
چار شکائتیں ملک زوراور کے پاس پہنچنے لگیں۔ ملک زوراور کے کان کھڑے
ہوئے۔ اس کے ذاتی مخبر نے بھی ویر جی کی عوام میں مقبولیت کو بیان کیا۔
ایک بار وہ خود بھیس بدل کر آیا۔ ویر جی کی عزت احترام اور عوام کی ان
سے محبت نے اسے بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔
اس نے سوچا ویر جی کی بڑھتی مقبولیت اس کے اقتدار کے لیے کسی وقت بھی
خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس نے ہر طبقہ کے مذہبی علما کا اجلاس طلب
کیا۔ ان کی دل کھول کر خدمت کی۔ ان کے منہ میں ضرورت سے زیادہ رکھ دیا۔
ہر مذہبی لیڈر نے ویر جی کی نقل وحرکات کو مذہب دشمنی قرار دے دیا اور
اس کی موت کو وقت کی اہم ضرورت کا نام دے دیا۔
آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح ویر جی کو موت کے حوالے کر دیا۔ وقت کا
سرمد چلا تو گیا لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ
منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے علاقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں
پڑ گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔
شاعر اور مورخ اس کے کارناموں کو درج کرنے میں مصروف ہو گیے۔ اگر کسی
نے اس کی سیاہ کاریوں کا تذکرہ کیا تو علامتوں استعاروں اور اشاروں
کنائیوں میں کیا۔ ہاں رحمان بابا سے بھی موجود تھے۔ ملک زوراور نے اور
علاقے بھی تسلط میں لے لیے۔ عیش کی گزار کر وقت کی دھول میں گم ہو گیا۔
درسی کتب میں ملک زوراور کے کارنامے داخل ہو گیے۔ ویر جی کی شہادت
علامتوں استعاروں اور رحمان بابا ایسے لوگوں کے باعث صاحبان دل کی
آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ٹھہری۔ ملک زوراور کبھی بھی تنازعہ کے
دروازے سے باہر نہ نکل پایا۔ ملک زورا ور کی فتوحات سے انکار ممکن نہیں
لیکن یہ کیسی کامیابیاں ہیں جو دیانت کے قتل کے گواہ ویرجی کے وجود
کو بیوجود نہیں کر سکیں۔ لوگ آج بھی ویر جی کا نام سن کر ادب سے سر
جھکا لیتے ہیں۔
ملک دروازے سے باہر نکلنے کی جب بھی کوشش کرتا ہے ویر جی سامنے آ
کھزے ہوتے ہیں اور وہ خوف کی چادر لپیٹ کر واپس مڑ جاتا ہے۔