ترکوں پر الزامات کی غلط بوچھاڑ

زیب محسود کا انتخاب ۔

تحریر: ڈاکٹر خلیل طوقار ترکی

ترکوں پر الزامات کی غلط بوچھاڑآج کل مغربی طاقتیں ترکی اور ترکوں کو زبردستی یہ منوانے کی کوشش کررہی ہیں کہ تم لوگوں نے آرمنیوں کا قتل عام کیا ہے بلکہ اُن کی نسل کشی کی ہے۔ ہمارے صدر سے لے کر تمام ذمہ دار اداروں کے سربراہوں تک یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہماری آرکائیوز کھلے ہوئے ہیں جو بھی چاہے آکر تحقیق کرے اور اس کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی اور وہ آزادی سے کام کرے گا۔
مزید بر آن تاریخ دان اور دانشور خواہ وہ آرمنین ہوں یا ترک یا یورپین یا امریکن ہم سب مل کرمشترکہ ہیئتیں قائم کرکے تحقیقات کرائیں اور اس کے بعد جو فیصلہ ہوگا ہم اسی فیصلےکو ماننے پر تیار ہیں۔ مگرمغرب والوں کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ یا سائنس کا مسئلہ نہیں ہے، اب یہ احساسات کے دائرے میں شامل ہوگیا ہے اور ہم آرمینی لوگوں کے احساسات کو گزند پہنچنے نہیں دیں گے۔ اس لئے تم ترکوں کو یہ ماننا چاہئے کہ تم لوگوں نے آرمینیوں کو قتل کیا ہے بلکہ ان کی نسل کشی کی ہے بس۔ ہم کو کوئی بھی اعتراض نہیں سننا ہے اور اگر تم لوگوں نے اس نسل کشی کا انکار کیا تو یورپ میں جب بھی آؤگے، تم لوگوں پر مقدمہ درج کرایا جائے گا۔
چند دن پہلے کیتھولک عیسائیوں کے لیڈر پوپ آف روم نے فرمایا کہ ترکوں نے آرمینیوں کی نسل کشی کی تھی۔ جیسے کیتھولک کلیسا کے ہاتھ کروڑوں بے چاروں کے خون سے رنگے نہیں ہوئے ہیں۔ خواہ وہ بے چارے دوسرے فرقوں کے یورپین عیسائی ہوں یا جادوگری کے ملزم کیتھولک ہوں، خواہ وہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے مقامی لوگ ہوں خواہ ایشیا اور افریقہ کے مسلمان!
روس کے صدر نے کہا کہ ترکوں نے آرمینی لوگوں کی نسل کشی کی ہے۔ جیسے روسوں کے ہاتھ ترکستان سے لے کر چرکیسیا یا داغستان تک کے کروڑوں مسلمانوں کے خون سے رنگے نہیں ہوئے ہیں!
فرانسیسی کافی عرصے سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ ترکوں نے آرمینیوں کی نسل کشی کی ہے۔ جیسے فرانسیسیوں کے ہاتھ ویتنام سے لے کر الجزائر تک کے کروڑوں مظلوموں کے خون سے نہیں رنگے ہوئے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سے دو روز قبل جرمنی کے صدر نے فرمایا کہ ہٹلر نے جب دیکھا کہ ترکوں کی جانب سے آرمینوں کی نسل کشی پر دنیا میں کوئی احتجاج نہیں ہؤا اور ترکوں کو اس کی سزا نہیں ملی تو اس کو اطمینان یہ ہؤا کہ میں بھی یہودیوں کی نسل کشی کرسکتا ہوں۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔
مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن یہ لوگ انسان کے حسِ مزاح کو بھی مات کردیتے ہیں۔ لیکن یہ ترقی یافتہ مغرب کے لوگ ہیں جب ان کے مطلب کی بات ہوتی ہے تو ان کے پاس نہ شرم رہتی ہے نہ ہی عقل کا ترازو۔ اب تو کچھ دنوں تک یہودی قوم بھی مغرب کی عدالتوں میں ترکی کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے یا مغربی پارلیمنٹوں سے ترکی کے خلاف یہودیوں کی نسل کشی کا مسبب ٹھہرانے کے بل پاس کرانے لگیں تو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔
در اصل ہؤا یہ کہ 1915 میں جب پہلی جنگ عظیم میں ترکی جنگ کی حالت میں مبتلا تھا تو ترکی کے آرمینیوں نے مشرق کے علاقوں میں مغربی طاقتوں اور بالخصوص فرانس، انگلینڈ اور روس کے بل بوتے پر بغاوت شروع کی اور شہر شہر گاؤں گاؤں ترکوں کا قتل عام شروع کیا۔ اب بھی ترکی کے مشرقی علاقوں میں اجتماعی قبروں میں کثیر تعداد کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں ملتی ہیں جن کے ساتھ جلے ہوئے قرآن مجید کے صفحے ملتے ہیں۔ یعنی یہ مسلمان ترکوں یا کردوں کی ہڈیاں ہیں جو اس وقت شہید ہوئے تھے۔
ظاہر ہے کہ اس کا رد عمل ہونا ہی تھا اور ہؤا بھی ہے۔ مسلمان قربانی بکرے نہیں تھے جو کھڑے ہوکر ذبح ہونے کا انتظار کریں۔ مشرقی علاقوں میں فسادات شروع ہوئے تو عثمانی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں جہاں آرمینین مسلح گینگز نے قتل و غارت شروع کی وہاں سے ان لوگوں کو نکال کر عثمانی سلطنت کے دوسرے علاقوں میں منتقل کرنا شروع کیا جائے۔ جہاں وہ لوگ پہنچائے گئے ان علاقوں میں لبنان، دمشق وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس دوران ظاہر ہے کہ جن راہوں سے وہ لوگ گزررہے تھے ان پر علاقائی لوگوں کا حملہ بھی ہؤا کیونکہ کچھ دنوں پہلے تک ان پر آرمینین گینگز کا حملہ ہورہا تھا اور وہ عام مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرتے تھے۔
مگر عثمانی حکومت نے اس پر تحقیقات کرائیں اور جہاں کسی بھی عثمانی آفسر کی غفلت اور کمزوری دیکھی وہیں اُن آفسروں کو مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ یہاں تک کہ کچھ افسروں کو پھانسی کی سزا بھی دی گئی۔ ہم سبھوں کا دل اس زمانے میں ہلاک ہونے والے تمام لوگوں کے لیے دکھتا ہے خواہ وہ مسلمان ترک یا کرد ہوں، خواہ آرمینی عیسائی، سب ہی انسان تھے اور سب اللہ کے بندے تھے۔
لیکن آج کل تمام دنیا میں، امریکہ سے لے کر یورپ تک کے تمام ممالک کی طرف سے ترکی اور ترکوں کےخلاف جو تحریک چلائی جارہی ہے یا آرمینیوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ترکوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اُس کو دیکھ کر بلا اختیار ایک مسلمان ترک کی حیثیت سے میرے دل و دماغ میں یہ احتجاجی آواز بلند ہورہی ہے کہ اگر آرمینی بے چارے مارے گئے اور اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس پر افسوس ظاہر کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ بھی انسان تھے اور جینے کے حقدار تھے۔ مگر جو مسلمان ترک، کرد اور چرکیس لوگ آرمینی، بلغاری، روس، فرانسیسی، برطانوی اور سربیا کے مسلح فوج یا غنڈوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے کیا وہ انسان نہیں تھے؟
لگتا ہے کہ مغرب کی طاقتوں کی نظر میں وہ کل بھی انسان نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں۔ میں یہاں صرف اپنے خاندان کی مثال دے کر بات کروں تو میری بات میں وزن بھی پیدا ہوگااور معاملہ کی وضاحت بھی ہو جائے گی۔
میری والدہ کی نانی چرکیسا کی تھی اور نانی کے والد صاحب ایک قبیلہ کے سربراہ تھے۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب روسوں نے قفقازیہ پر چڑھائی کی تو انھوں نے اپنی بچیوں کو اپنے قبیلہ کی دوسری خواتین اور کمزور افراد کے ساتھ یوکرین کی بندرگاہ سے ایک سمندری جہاز میں سوار کرایا اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیے روسوں سے جنگ کے لیے واپس اپنے گاؤں گئے۔ وہ اور اُن کے قبیلہ کے سینکڑوں مرد روسیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ یوں چرکیسا کے ہزاروں افراد قتل کئے گئے اور جلاوطنی کے عالم میں اپنے وطن سے دور پریشان حال، عثمانی سلطنت کے مختلف علاقوں میں بٹ گئے۔ مرنے والے چرکیسوں کی تعداد دس بیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا ان کی نسل کشی نہیں ہوئی؟
شاید نہیں ہوئی کیونکہ وہ انسان کب تھے! وہ مسلمان تھے!
اسی طرح میری پر نانی بلغاریہ کی باسی تھیں اور بلغاریوں کی بغاوت کے دوران عیسائی بلغاریوں کے ہاتھوں ان کی والدہ کی آبرو ریزی ہوئی اور ان کو قتل کیا گیا۔ ان جیسے سینکڑوں مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے شہید ہوگئے۔ بلغاریہ میں بغاوت سے قبل ترکوں کی آبادی اکثریت میں تھی اور بغاوتوں کے دوران بیس پچیس فی صد تک کم ہوئی اور آج کل ہجرتوں کے بعد گیارہ فی صد تک گرگئی۔ کیا بلغاریہ کے مسلمان ترک انسان نہیں تھے؟ اور کیا ان کی نسل کشی نہیں ہوئی؟
شاید کہ نہیں ہوئی کیونکہ وہ انسان کب تھے! وہ مسلمان تھے!
پھر ہماری جنگ آزادی کے دوران جب انگریزوں اور فرانسیسیوں کی پشت پناہی میں یونانیوں نے مغربی اناطولیہ پر قبضہ کیا تو ان دنوں میں یونانی فوجیوں نے میری نانی کی پھوپھی کی آبروریزی کر کے اُن کو ٹکرے ٹکرے کرڈالا۔ اُن کے ساتھ ہزاروں ترک خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور یونانی فوج کے سپاہی مرد تو مرد لیکن ترک خواتین اور بچوں کو مساجد میں بھر بھر کر مسجدوں کو نذر آتش کردیا کرتے تھے۔ کیا وہ سب مرنے والے انسان نہیں تھے؟ کیا ان کی نسل کشی نہیں ہوئی؟
شاید کہ نہیں ہوئی، کیونکہ وہ انسان کب تھے! وہ مسلمان تھے!
یوں تو میں اپنے خاندان سے پندرہ بیس افراد کا نام گنوا سکتا ہوں، باقی آپ سب سمجھ لیجئے کہ کتنے بے چارے اورکمزور مسلمان مارے گئے۔ سینکڑوں؟ ہزاروں؟ لاکھوں یا کروڑوں؟ اللہ جانے!
اب جبکہ ہم 2015 میں آن پہنچے ہیں تو تمام یورپ والے بلکہ عیسائی دنیا اپنی پارلیمنٹوں سے لے کرمختلف سیاسی اور سماجی اداروں تک یہ اعلان کررہے ہیں کہ ترکوں نے آرمینیوں کی نسل کشی کی تھی۔ ان ترکوں کو اس کی سزا کسی طرح سے بھی ہو بگھتنا چاہئے۔ پھر ہم ترکوں سے کہتے ہیں کہ خبردار تم لوگوں نے اس نسل کشی کا انکار کیا، ہم نے کہا تو بس یہی صحیح ہےتمہیں اس کو قبول کرنا ہے۔
میرے مغرب کے انسانی حقوق کے علمبردار ہونے پر تہ دل سے یقین رکھنے والے دوست مانیں یا نہ مانیں، میں کافی عرصے سے مغرب کے عالی اور ناقابل تردید انسانی حقوق کا اقدار اور بیانات کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب بھی مغرب والوں کی پالسیاں اور فوجی یا سماجی حرکات و سکنات دیکھتا ہوں تو مجھے کچھ دوغلہ پن کی بو آنا شروع ہوتی ہے۔
یہ تو سچ ہے کہ مغرب والوں کے ہاں انصاف ہے یہ بھی سچ ہے کہ مغرب والوں کے ہاں اعلیٰ معیار کے انسانی اور بلکہ حیوانی حقوق بھی ہیں۔ لیکن یہ سب صرف اپنوں کے لئے ہے یا بوقت ضرورت استعمال کرنے کے لئے دوسروں کے لئے بلکہ ہم مسلمانوں کے لیے بھی ہیں۔
مگر کل بھی آج بھی جب اپنے ملکوں اور اپنے لوگوں کے مفادات کی بات سامنے آتی ہے تو وہ حقوق اور انصاف کی عینک اُتاردیتے ہیں اور کالی عینک پہن لیتے ہیں بلکہ اور بھی آگے جاکر اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیتے ہیں۔ اوردور سےمسلمانوں کے قتل یا اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے آلہ کار درندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کروائے جانے کا تماشا دیکھتے ہیں۔
کیا ہم انسان نہیں تھے؟ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ کیا ہماری جانیں اور مال قیمتی نہیں ہیں؟
شاید کہ نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم انسان کب تھے اور انسان کب ہیں!
ہم کل بھی مسلمان تھے اور الحمد للہ لہ آج بھی مسلمان ہیں!
پھر بھی، بقول اکبر الہ آبادی مرحوم:
ہم آہ بھی کرتے ہیں ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں چرچا نہیں ہوتا

زیب محسود کا انتخاب ۔تحریر: ڈاکٹر خلیل طوقار ترکی

اپنا تبصرہ لکھیں