بچوں پر تشدد کرنے والے خاندانوں کی اکثریت کا تعلق تارکین وطن خاندانوں سے ہے

اوسلو ڈسٹرکٹ میں پچھلے تینتیس سالوں کے دوران بچوں پر تشدد کرنے والے خاندانوں کے پس منظرکا جائزہ لیا گیا۔ یہ جائزہ نارویجن اخبار آفتن پوستن نے شائع کیا۔اخبار کے مطابق ان میں سے اناسی فیصد خاندانوں کا پس منظر تارکین وطن خاندانوں سے ہے۔
ان کا تعلق تینتیس مختلف ممالک سے ہے۔جس میں سے پچاسی فیصد کا تعلق افریقی اور ایشیائی ممالک سے ہے۔ یہ وہ خاندان ہیں جو کہ پچھلے تین سالوں سے بچوں پر تشدد کے سلسلے میں عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔یہ جائزہ پولیس محکمے کے پروفیسر گائر Geir Aas
کے تھیسس سے اخذ کیا گیا ہے۔پروفیسر گائر نے عائلی مسائل پر ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں اپنا تھیسس مرتب کیا ہے ۔ان کے اس تحقیقاتی کام کی سرپرستی وزارت انصا ف کر رہی ہے۔
ڈاکٹر گائر نے خاندانی مسائل کی وجوہات کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔مسائل کے پہلے حصہ میں انہوں نییہ نشاندہی کی کہ ایک معاشرے میں مختلف تہذیبوں کے لوگ جب ایک ساتھ رہتے ہیں تو وہ اپنے خاندان کو کنٹرول کرنے کے لیے تشدد کا ستعمال کرتے ہیں۔دوسرے گھریلو تشدد مالی طور پر کمزور گھرانوں میں عام ہے۔جبکہ امیگریشن کا یہ گروپ دوسرے گروپوں سے کم عمر ہے اس لیے نوجوان تارکین وطن افراد میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے۔
برابری اور انٹیگریشن کی تنظیم لیم LIM کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ جو تارکین وطن تشدد نہیں کرتے وہ نارویجن قوانین سے خوفزدہ ہو کر ایسا نہیں کرتے۔کیونکہ وہ اسکا انجام جیل یا سزا کو سمجھتے ہیں۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں