بابری مسجد زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں ہے

آزادی کے بعد سے آج تک مسلمان حق وانصاف کے لیے ترس گئے

مشرف عالم ذوقی
’’یہ زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ جس پر چلنے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں۔ زمین میں چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ اسے صاف کیا جائے۔ کچھ سمجھدار لوگوں نے صلاح دی ہے کہ اسے صاف کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ لیکن یہ خطرہ اٹھانا ہوگا۔‘‘
151بابری مسجد کا تاریخی فیصلہ سنانے والے جج سبغت اللہ خاں کے بیان کا ایک حصہ ۔

سبغت اللہ خاں کی حیثیت دراصل اس پورے معاملہ میں اس معصوم اورسہمے ہوئے مسلمان کی تھی جو تاریخی حقائق کی جگہ حکومت اور ماحول کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تھا۔ وہ اس خطرے کا تجزیہ نہیں کرسکے جو اس غلط فیصلے کے بعد اس ملک کے مسلمانوں کو نفسیاتی سطح پر کمزور کرنے کے لیے کافی تھا۔ بلکہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ وہ اس فیصلے سے قبل کی تاریخ پر بھی غور نہ کرسکے جس نے آزادی کے بعد سے ہی اس ملک میں مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فیصلہ آنے سے قبل ہی آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں نے کہنا شروع کردیا تھاکہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ اور اس کے بعد اگر پورے ملک میں گجرات جیسا ماحول پیدا ہوتا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ تو کیا مرکزی اور ریاستی حکومت آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں سے خوفزدہ تھی؟ فیصلہ سے تین دن قبل تک حکومت اور میڈیا دونوں نے یہ ماحول بنانے کی کوشش کی تھی کہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ وہ تاریخی فیصلہ جس کے انتظار میں ۱۸ برس لگے تھے۔ اور جس کے لیے عدلیہ نے 8189صفحات کیا صرف اس لیے برباد کیے تھے کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جاسکے کہ اس ملک کے کسی بھی فیصلے پر مسلمانوں کا نام نہیں لکھا جاسکتا151؟ کیا عقیدے اور مذہب کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا مذاق نہیں اڑایاگیا151؟ اوراس مذاق میں عدلیہ کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کے طورپر اقلیت کی آواز بھی جان بوجھ کر شامل کی گئی کہ مستقبل کے مورخ یہ بتا سکیں کہ انصاف ملنے میں ایک مسلمان کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ پانچ سو برس سے جو متازعہ زمین بابری مسجد کی شکل میں تھی، کورٹ نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ یہ بھی نہیں کہ جو مورتیاں 1949میں وہاں رکھی گئیں، وہ وہاں کیسے آئیں؟
عالمی سیاست کا وہ منظر بھی دیکھئے جہاں ہر جگہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ امریکہ کی بالادستی قائم ہے۔ کہیں مسجدوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور کہیں مسلمانوں کی آمدورفت کو روکا جارہا ہے۔ اوراسی دنیا نے امن کا پیغام پہنچانے والے مسلمانوں کو دہشت گرد بھی بنادیا۔ ہندستانی سیاست میں فرقہ واریت کا تماشہ ہوتا رہا اور اس بہانے مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی بھی جاری رہی۔ پاکستان کا معاملہ ہو یا کشمیر کا، مسلمانوں کو ہر بار شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ اور ہر بار اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو اپنی صفائی دینے کے لیے سامنے آنا پڑتا ہے۔
اس لیے یہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا 151 ہماری زندگیاں لگی تھیں داؤپر151 اٹھارہ برسوں کے بعد آیا یہ فیصلہ اگرسیاست کی نذر نہ ہوتاتو اس کی شکل مختلف ہوتی۔151 صرف یہ ایک فیصلہ آزادی کے بعد کے ہزاروں نکمے فیصلوں کے داغ دھو کر ہمیں مین اسٹریم میں لے آتا151 گودھرہ سے مالیگاؤں اور بٹلہ ہاؤس تک کی نا انصافیوں کو ایک موہوم سی امید کی کرن مل جاتی۔ باربار ہماری وفاداریوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جبکہ ہماری وفاداریاں کھلی کتاب کی طرح روشن ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو سنہری ماضی کی کہانیاں نہیں سناتا۔ پدرم سلطان بود۔۔۔ یہ ایک واہیات حقیقت تھی، جس کے پیچھے تباہ ہوتی ہوئی نسلوں کو دیکھا ہے ہم نے151 آنکھیں کھلتے ہی ہم اپنے بچوں کو حقیقت کی پتھریلی زمین پر چلنا سکھاتے ہیں151 مگرہوتا کیا ہے۔ آنکھیں کھلتے ہی ہمارے بچوں کو ایک بٹلہ ہاؤس مل جاتا ہے151کہیں دنگے ہوتے ہیں تو وہ ڈر جاتے ہیں۔ اسکول میں دوستوں کے درمیان بھی ڈرے ڈرے ہوتے ہیں۔ ڈر کے یہ انجکشن ان کے جسم میں ہم بھی پیوست کرتے رہتے ہیں151 اور اس لیے کرتے ہیں کہ حکومت سے میڈیا تک باربار ہمیں ڈرارہی ہوتی ہے۔ ہم اخباروں میں مسلسل خوف ودہشت کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔چینلس پر دہشت گردوں کی یلغار دیکھتے ہوئے سہمے رہتے ہیں۔ اوریہ سب مسلمان ہوتے ہیں151 دہشت کی ہر کارروائی کے پیچھے ایک مسلمان151 ٹی وی دیکھتے ،اخبار پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے ہی مذہب اوراپنی قوم کے لوگوں سے نفرت ہونے لگتی ہے151
بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سارے ملک میں مسلمانوں نے جشن منایا۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔کیونکہ دنگے نہیں ہوئے۔ شانتی رہی۔ 92نہیں دہرایاگیا151 یہ مٹھائیاں نہیں تقسیم کی گئی بلکہ ہمیں جبر و ظلم کے آگے جینے کی نصیحت دی گئی۔ ہم دبے رہیں گے۔ ہمارے انصاف یہی رہیں گے۔ اور ہمارا کام مسکرانا ہوگا۔ جشن منانا ہوگا۔ مٹھائیاں تقسیم کرنا ہوگا۔ بات کسی قوم کی شکست اورفتح کی نہیں ہے۔ انصاف کے لیے حقائق ہوتے ہیں۔ دستاویز ہوتے ہیں۔ ثبوت ہوتے ہیں۔ مذہب کا آدرش یا مکھوٹا نہیں ہوتا151 لیکن آدرش کا ایک مکھوٹا لگایاگیا 151اورعدلیہ کی کرسی پر ایک بے زبان مسلم جج کو بیٹھا کر تاریخ کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیاگیا151 فیصلہ لینے والے جج نہیں تھے ۔ دو الگ الگ مذہب کے لوگ تھے۔ اگر فیصلہ یہی تھا تو اس کے لیے اٹھارہ سال انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی151مذہب یا آدرش کی کسی بھی بوسیدہ کتاب سے یہ فیصلہ برسوں پہلے بھی سنایا جاسکتا تھا۔
یہ فیصلہ آستھا بنام انصاف کے نام تھا۔ بہت کچھ تبدیل ہوا۔ جو صورتحال ۱۸ برس پہلے تھی وہ آج کے ماحول میں پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک ہوچکی ہے151 اٹھارہ سال پہلے صرف مندر مسجد کا معاملہ تھا اور جوش سے بھرے دیوانے تھے151 لیکن ان اٹھارہ برسوں میں دنیا کے ساتھ اپنا ملک بھی بدلا ہے۔
یہ مت بھولیے کہ چھ دسمبر محض ایک تاریخ نہیں ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ۶۷ برسوں سے اس ملک کا کوئی بھی فیصلہ ہمارے نام نہیں ہوا۔ بھیونڈی، ملیانہ، بھاگلپور، بہار شریف، مظفر نگر، شاملی کے فسادات کو یاد کیجئے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ چھ دسمبر کا دن سال میں کئی بار رنگ بدل بدل کر آتا ہے۔ اس فریم میں بھاجپا اور مودی کو فٹ کرکے دیکھیے تو تصویر اور بھی خوفناک ہوجاتی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے ملک کے ۳۰ کروڑ مسلمانوں کی خاموشی جو بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر سے لے کر بابری مسجد فیصلہ تک ہونٹ سی کر رہ جاتے ہیں اور حکومتیں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، اقتصادی ہر سطح پر کمزور اور توڑنے میں لگ جاتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر آزادی کے بعد کے خوف کا نفسیاتی تجزیہ کیجئے تو حکومت اور فوج سے پولس کی نوک تک ہر جگہ مسلمان ہی ہوتا ہے جو اپنے گھر، اپنے خاندان اپنے بچوں کے لیے سہما سہما نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی اسی آزادی کے بعد کا سچ ہے کہ کرایہ کے مکان سے روزگار اور کیریئر تک ہر جگہ مسلمانوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بابری مسجد فتح کے بعد ان دنوں کو یاد کیجئے جب بھاجپا اقتدار میں تھی اور مرلی منوہر جوشی بھگوا ایجنڈے کے ساتھ تعلیم اور نصاب پر حاوی تھے اور ایک نئی تاریخ پوری ہشیاری سے تحریر کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ جیوتش اور ویدک علم النصاب کو پڑھا ئے جانے پر زور دیا جارہاتھا۔
چھ دسمبر کے المیہ کو ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سے جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھ دسمبر کے بعد ٹاڈا، پوٹا اور بھگوا تعلیم سے مودی کو رہنما بنانے تک آر ایس ایس انتہائی ہشیاری اور چالاکی سے شطرنج کی بساط پر ایک ایک مہرہ سنبھل سنبھل کر چل رہی ہے۔ اور ایک دن اسپ، فیل اور وزیر کو مات دیتے ہوئے وہ آپ کے دل ودماغ پر بدلی گئی تاریخ و تہذیب کے ساتھ حکومت کریں گے۔ وہ آپ کے ماضی کو گم کردیں گے اور آپ کے مستقبل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس لیے ڈریے اس دن سے جس دن وہ اپنے اصل اور بھیانک مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں