ایران نواز دوست اس پہلو پر غورکریں گے؟

ایم ودودساجد
مجھ سے میرے دوست جلد ناراض نہیں ہوتے۔فی الواقع بات بھی یہی ہے کہ میں اشوزپر متوازن اور معتدل رائے رکھتا ہوں اور اسی کا اظہار بھی کرتا ہوں۔لیکن یہ بھی درست ہے کہ میں اظہار رائے کے وقت کسی بھی فریق سے اپنے تعلق کو پیش نظر نہیں رکھتا۔لہذا میرے چند شیعہ دوست (پہلی بار)مجھ سے بہت ناراض ہوگئے ہیں۔انہوں نے مختلف سماجی ذرائع ابلاغ پر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی آسانی سے لکھ دیا ہے کہ ’’پیٹروڈالرمیں بڑی جان ہوتی ہے‘‘۔مجھے افسوس ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں نے حق بات لکھنے اور کہنے میں کبھی نہ صدر جمہوریہ کی پروا کی اور نہ وزیر اعظم کی‘میرے دوستوں نے مجھے پیٹرو ڈالرکا فقیر بتادیا۔میں نے لکھا اور کہا کیا تھا وہ بتانے سے پہلے اپنے ان ایران نواز دوستوں سے یہ پوچھنا ہے کہ مرحوم شاہی امام سید عبداللہ بخاری اپنی پوری زندگی ایران کی حمایت کرتے رہے‘کیا انہیں ایران یوروپہنچایا کرتا تھا؟اس کے علاوہ بہت سے معاملات میں ہندوستان کے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے جن میں سنیوں کی تعداد زیادہ ہے دہائیوں سے ایران کی حمایت وتائید کی ہے اورامریکہ کے مقابلے میں ایران کو حق بجانب قرار دیا ہے۔کیا ایران اس کے لئے ہندوستانی مسلمانوں میں ایرانی درہم ودینار بانٹتا رہا ہے؟پیٹرو ڈالر کی بات کہہ دینا کتنا آسان ہوتا ہے۔لیکن حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے ہمارے یہ بھائی تیار نہیں ہیں۔
سعودی عرب میں گردنیں اڑائے جانے کا واقعہ کوئی نیانہیں ہے۔وہاں اکثر ایسی سزائیں وہاں کے قانون کے مطابق دی جاتی رہی ہیں۔اکثر عرب ملکوں میں جہاں شاہی نظام قائم ہے حکمرانوں کے سیاسی مخالفین اور ملک کے باغیوں کو خاموشی کے ساتھ سزائیں دی جاتی ہیں۔لیکن سعودی عرب اس سلسلہ میں ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔وہاں دی جانی والی سزاؤں کو پردۂ خفا میں نہیں رکھا جاتا۔ان کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے اورسزا عوامی مجمع میں دی جاتی ہے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔پھر وہاں باقاعدہ شرعی عدالتی نظام قائم ہے اور ملزمین کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔اس سب کے باوجود میں سعودی نظام کا دفاع کرنے کا مکلف نہیں ہوں۔نہ میں نے اس کی کوئی ذمہ داری قبول کی ہے۔نہ میرا ان سے یا ان کے نمائندوں یا ان کے خیر خواہوں سے کوئی ربط ہے۔میں اکثر وہاں کے معاملات پر کوئی رائے ظاہر بھی نہیں کرتا۔لیکن سعودی عرب میں گردنیں اڑائے جانے والے تازہ واقعہ نے ہندوستان میں ایک عجیب وغریب بحث چھیڑ دی ہے۔بحث میں جو پہلو ہمارے بھائیوں کی طرف سے اجاگر کیا جارہا ہے اس سے مجھے تشویش ہوئی۔اس لئے کہ اگر ہندوستانی مسلمانوں کے مختلف طبقات میں اس سلسلہ میں باہمی رنجش وچشمک بڑھ گئی تو وہ موجودہ دور میں انتہائی خطرناک اور نقصاندہ ثابت ہوگی۔میں نے باوجود اس کے کہ بہت سے حلقوں نے اس طرف توجہ دلائی اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھا۔لیکن جب میڈیا کے مختلف ذرائع اس اشو پر ایک خطرناک بحث میں بہت آگے بڑھ گئے تو میں نے اس رائے کا اظہار کیا:
’’یہ بہت پیچیدہ اشو ہے۔اس واقعہ پرسرسری معلومات رکھنے والے افرادکوئی واضح تبصرہ نہیں کرسکتے۔اس کے لئے سعودی حکومت اورحکمرانوں کی طرز فکر‘سعودی معاشرے اور سعودی عرب کی تاریخ کا بھرپور نہ سہی کچھ تو علم ضرور ہونا چاہئے۔چونکہ ایران‘شیخ النمراور دوسرے شیعہ سعودی شہریوں کو سزائے موت دئے جانے کے سبب آتش زیر پا ہے اس لئے سعودی ایران رشتوں کا علم بھی ضروری ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ ہم ہندوستانی اس واقعہ پر کوئی زیادہ رد عمل ظاہر نہ کریں۔تاہم احباب کے تجسس کے پیش نظر مندرجہ ذیل رائے کا اظہار مناسب ہوگا:
1۔ایران وہ واحد ملک ہے جو حرمین شریفین کے انتظام میں بین الاقوامی نظام کے بہانے اپنا تصرف چاہتا ہے۔اس خواہش کا ایک بڑا سبب اہل بیت کی معلوم قبروں پر بغیر کسی قدغن کے براہ راست عبادت گزاری کا غیر شرعی جذبہ ہے۔سعودی حکومت اور سعودی معاشرہ توحید کے معاملہ میں انتہائی محتاط اور پابند ہے۔اس لئے وہ ایرانی مہم کے عواقب سے بخوبی واقف ہے۔
2 ۔ سعودی عرب کے مشرق میں القطیف صوبے میں شیعہ آبادی کثرت سے ہے۔گوکہ وہ اپنے مراسم کی ادائیگی میں آزاد ہیں تاہم شرکیہ:منافرت انگیز اور مکروہ مراسم سعودی مزاج سے قطعی ہم آہنگ نہیں ہوسکتے۔ایران یہ سمجھتا ہے کہ وہ عرب ممالک میں آباد شیعوں کو عربوں کے خلاف اٹھاکر کوئی بڑا انقلاب برپاکرسکتا ہے۔اس لئے وہ عرب شیعوں کی خفیہ مادی اور عسکری مدد میں بھی مصروف ہے۔عراق ‘یمن‘شام ‘لبنان اور بحرین جیسے عرب ملکوں میں اس کی خارجہ پالیسی مختلف ہے جبکہ دوسرے عرب ملکوں میں اس سے مختلف۔یمن کے باغیوں کو وہ سعودی عرب کے لئے خطرہ بنانا چاہتا تھالیکن سعودی عرب نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کی کمر توڑ دی ہے۔اس پر ایران مضطرب ہے۔
3 ۔سعودی عرب دوسرے کسی بھی مسلم اور عرب ملک سے سراسر مختلف ہے۔اس لئے کہ وہاں حرمین شریفین قائم ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان وہاں لاکھوں کی تعداد میں ہر سال مذہبی فریضہ سر انجام دینے جاتے ہیں۔لہذا وہاں کے انتظام کی ایک منفرد حساسیت ہے۔اس اعتبار سے وہاں کے حکمرانوں کو بھی حساس ہونا ضروری ہے۔ہر ملک کی داخلی سلامتی کا اپنا نظام ہوتا ہے۔گردنیں اڑانے کا جو واقعہ رونما ہواہے وہ باقاعدہ ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد ہوا ہے۔‘‘
اس کے بعد یہ خبر آئی کہ شام کے ایک اسکول پر روسی جہازوں نے حملہ کرکے 8معصوم بچوں اور ان کے 12استاذوں کو شہید کردیا۔میں نے سوال اٹھایا کہ قاتل بشارالاسد کے دوست ایران کواس واقعہ پر سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔اس کی لیڈر شپ کی طرف سے ایک سطری بیان بھی جاری نہیں ہوا ۔وہ اب بھی قاتل اور بلیک میلر روسی صدر پوتن کو متقی اور انسانیت نواز سمجھے ہوئے ہے۔روس شام میں داعش کے خلاف جنگ کرنے کا دعوی کر رہا ہے لیکن درحقیقت وہ بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے۔میں نے مختلف مواقع پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جب ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں روس عراق کا ساتھ دے رہا تھا تو وہ ایران کی نظر میں انتہائی معتوب اور دشمن اسلام ملک تھا۔لیکن آج جب وہ قاتل بشارالاسد کا ساتھ دے رہا ہے تو ایران کی نظر میں وہ متقی‘پرہیز گار‘مسلم دوست اور انصاف پسند کیسے ہوگیا؟
ایک تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ النمر کو سزائے موت دئے جانے کے بعد جس طرح ہمارے بھائیوں نے یہاں ہندوستان میں نفرت انگیز مہم چھیڑی ہے اس کے نتائج کا تصور کرکے روح لرز اٹھتی ہے۔اس لئے میں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ جو لوگ اس واقعہ پر احتجاج کر رہے ہیں وہ ان کا حق ہے اور اس حق کا احترام کیا جانا چاہئے لیکن جو لوگ اس کی توجیہ بیان کرکے سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں وہ بھی ان کا حق ہے اوراس حق کا بھی احترام کیا جانا چاہئے۔شیخ النمر کو سزانہ ہندوستان میں دی گئی ہے اور نہ ہندوستانی مسلمانوں نے دی ہے۔ ہمارے شیعہ دوست اس واقعہ کو بنیاد بناکر ہندوستان کے سنی علما اور عوام کو بھی مطعون کر رہے ہیںیہ قطعی نامناسب طرز عمل ہے۔اس وقت ہندوستان کی ملت اسلامیہ کو اتحاد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔سعودی عرب کے واقعہ کو بنیاد بناکر اگر ہم منتشر ہوگئے تو اس کا نقصان دونوں کو ہوگا۔کیا ہمارے یہ ایران نواز دوست اس پہلو پر غور کریں گے؟
اپنا تبصرہ لکھیں