اکسویں صدی میں دیارِ مغرب میں اردو۔۔۔

صدف مرزا
ڈنمارک

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

لسانیات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، زبان کوئی بھی ہو اسے اپنی ترقی اور عروج کے لیے تدریجی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں

سکینڈے نیویا میں زبان کی ابتدا بڑی شاہراہوں پر اور پانیوں کے کنارے ایستادہ پتھر کی تحتیوں پر لکھی تحاریر سے ہوئی۔ حروفِ تہجی کے شوشے بنانے اور پتھر پر کندہ کرنے کے لیے ان ہئیت میں سادگی ہوتی تھی۔ ارتقا اور ترقی کے دوران زبان سے والہانہ محبت کرنے والے شیدائیوں نے اس پر محنت کی۔ چھاپہ خانے کی ایجاد نے کتب کو عام کر دیا اور زبان روز افزوں ترقی کرنے لگی۔

گزشتہ صدی کے آخری عشرے اور نئی صدی کی ابتدا میں سائنسی کرشمات نے الف لیلوی انداز میں زبان کی ترقی کی رفتار بڑھا دی۔ کمپیوٹروں نے قلم اور کاغذ کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیا ، انٹر نیٹ تک بآسانی رسائی نے دنیا کو سمیٹ کر فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے کہ مصداق افلاک کو بھی سعی اور جستجو کرنے والوں کے قدموں میں لا بچھایا۔

ویب سائٹس، بلاگز، معاشرتی رابطوں کے سلسلے ، فیس بک ۔ ٹویٹر نے سمندروں کو قطرہ شبنم اور کوہساروں کو رائی کر دیا۔
سب علوم و دانش کے خزانے اور انسانی تعلقات و روابط محض کلک کا کھیل ٹھہرے۔

لسانیات کے شعبےمیں بھی اس ترقی کی دوڑ نے بے شمار تبدیلیاں پیدا کیں۔ اب زبان کی ساخت و پرداخت اور اس کی ترقی و ترویج کے بارے میں سائنسی انداز میں تحقیق ہونے لگی۔
لسانی ڈھانچے اور لغتیاتی تجزئیے کے لئے بھی جدید سائنسی انداز فکر اپنایا گیا۔
انٹر نیٹ پر کسی بھی زبان تک رسائی کو سہل کر دیا گیا۔
اور اکسویں صدی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے سمارٹ موبائل فونوں نے عالمی زبانوں تک رسائی کو مسلسل پھیلتی کہکشاں میں بدل دیا۔

موبائل پر صوتی نظام نے اور پیغامات ریکارڈ کرنے کی سہولیات نے تلفظ کے بہت سے مسائل حل کرنے میں مدد دی اور پرانے رائج نطام
The International Phonetic Alphabet —IPA
کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ۔ اب کسی بھی لفظ کا مقامی تلفظ اور انگریزی تلفظ صرف ایک بٹن دبانے پر یا زبانی حکم دینے پر سماعتوں کے حضور پیش کر دیا جاتا ہے ۔
                   موبائل پر انٹر نیٹ کہ سہولت نے کمپیوٹر کے سامنے

ہمہ وقت دست دراز کرنے سے بچا لیا۔
جیب میں رکھے موبائل پر محفوظ لغات، ویب سائٹس، یو ٹیوب، انسائکلو پیڈیا نے علوم کے ایک سیل بے پناہ کو ایک کوزے میں مقید کر کے لوگوں کی دسترس میں کر دیا۔
اردو زبان بھی اس برق رفتار ترقی کے ساتھ ہم قدم و ہمرکاب ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ گو اس کے قدم سست رفتار رہے لیکن کمپوٹر پر بہت سے مراحل میں سے گزرتی، ان پیج و تصویری اردو کی بیساکھیاں سنبھالتے سنبھالتے آج اردو زبان کے شیدائیوں نے اسے یونی کوڈ کی صورت میں اسے باقی زبانوں کے مقابل لا کھڑاکیا ہے۔

عالمی منڈی میں مائیکرو سافٹ جو بھی پروگرام تخلیق کرتا ہے اس میں تین زبانیں شامل ہوتی ہیں۔ انگریزی، فرانسیسی اور عربی کو معیشت اور اقتصادیات کے سہارے کی وجہ سے یہ فوقیت حاصل رہی۔ عربی زبان نے اپنے نسخ فونٹ کے سہارے بھی بہت ترقی کی
اردو زبان کی طرح وہ نوری نستعلیق کی محتاج و منتظر نہیں رہی۔

سیمسنگ موبائل کمپنی اور آئی فون میں مسابقت کی ایک فضا نے بھی اردو زبان کی راہ ہموار کی۔ سامسنگ کمپنی نے اپنے سارفین کو اردو کی سہولت بہم پہنچا کر ایک اضافی قدم اٹھا لیا۔ اس سے اردو کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب یہ آیا کہ انتہائی سرعت کے ساتھ اردو براہ راست موبائل پر لکھی جانے لگ اور ای میل اور ۔
پیغامات کی صورت میں کسی بھی دشواری کے بغیر ہر جگہ پڑھی جانے لگی۔
  اسی سال آئی  فون نے بھی اردو لکھنے کی سہولت مہیا کر دی اور اب براہ راست موباءل فون سے اردو میں رابطہ کیا جا سکتا ہے
مغربی ترقی اور سہولیات سے ہٹ کر اردو کی دنیا ک طرف دیکھیے تو        

اردو

زبان کو اکسویں صدی کے ہمرکاب ہونے میں تاخیر تو ہوئی لیکن اس میں آہستہ روی سے پیشرفت ہوتی رہی۔

اردو کارپس
میں ڈاکٹر حافظ صفوان نے اردو کارپس پر ایک مفصل مضمون پیش کیا جس مین انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی کی سیاحت کے بعد انگریزی کارپس کی طرز پر 2006

اردو کارپس کا تعارف اور تجاویز پیش کیں۔
جدید سائینسی لسانی تحقیق و لغتیاتی تجز ئیے کے لیے ماہر لسانیات، تکنیکی ماہرین اور انگریزی زبان پر قدرت رکھنے والے افراد کے ایک گروپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان کی صورت میں اردو زبان کو تینوں خصوصیات فرد واحد میں مجتمع مل گئیں۔
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان کی جانب سے مرکزِ فضیلت برائے اردو اِطلاعیات، مقتدرۂ قومی زبان اسلام آباد میں ’’دی بینک آف اردو‘‘ کے موضوع پر کام شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ردو کارپس: تکنیکی تعارف، اہمیت، ضرورت اور دائرہ و لائحۂ عمل‘‘ میں لکھتے ہیں ’’
’’دی بینک آف انگلش‘‘ کے نام سے انگریزی زبان کا ایک بڑا مال خانہ (Repository) جس کے روح و رواں آنجہانی پروفیسر جان میک ہارڈی سنکلیئر (John McHardy Sinclair) تھے، اِس وقت برمنگھم یونیورسٹی برطانیہ میں قائم ہے اور دنیا بھر میں جاری لسانیاتی تحقیقات کے لیے موزوں لسانی متون محققین اور تحقیقی اداروں کو فراہم کررہا ہے۔ اِسی طرح کا ایک بڑا مواجہ ’’امریکن انگریزی کارپس‘‘ (COCA: Corpus of Contemporary American English) ہے۔ زیرِ نظر مقالے میں اِنھی کارپسوں کے ڈھب پر اردو کارپس بنانے کی ضرورت اور لائحۂ عمل کے بارے میں بتایا گیا ہے اور اِس اردو کارپس کو ’’دی بینک آف اردو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
‘‘
1: کارپس اور دی بینک آف انگلش/ امریکن انگریزی کارپس (COCA): مختصر تعارف
کارپس کیا ہوتے ہیں؟ مختصر جواب یہ ہے کہ یہ مشین ریڈایبل متن ہوتے ہیں جنھیں لسانیاتی تحقیقات کے لیے اِکٹھا اور جمع کیا گیا ہو۔ ملاحَظہ کیجیے اوکسفرڈ کی تعریف:
A corpus is a collection of written material in machine-readable form that has been put together for linguistic research

اپنے اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوٗے انہوں نے مشین ریڈ ایبل الفاظ یکجا کر کے فہرست بھی بنائی اور ان کے ترتیب کردہ اٹھارہ ہزار الفاظ کی یہ فہرست گوگل کی اردو ٹرانسلیشن میں استعمال کی جاتی ہے ۔

اردو کارپس کے متوازی دوسری سائینسی پیشقدمی

اردو او سی آر OCR
پر مسلسل محنت و عرق ریزی سے ہوٗی۔

Optical Character Recognition, or OCR
اردو او سی آر

بصری حرف شناسی یا نویسه‌خوانی
اس سے مراد چھپے ہوئے متون اور عبارات کو خواہ وہ ہاتھ سے تحریر کی گئی ہوں یا سکین کی گئی ہوں، کسی کتاب یا اخبار سے لی گئی ہوں ، سب کو ایک سافٹ وئر کے ذریعے
خود کار باز شناسی کے قابل بنانا ہے تا کہ کمپیوٹر اس مواد کو جس میں الفاظ، علامات اور اعداد شامل ہیں از خود شناخت کر سکے
بصری حرف شناسی کا یہ تکنیکی عمل مرحلہ وار ہوتا ہے
انگریزی زبان اور وہ زبانیں جن کے حروف زیادہ خمدار نہین ہوتے باآسانی اس گلونل دوڑ اور مسابقت کی فضا میں شامل ہوتے گئے اور لسانی انجنئرنگ اور لسانی ترقی و فروغ کی اس منظر نامے مین اپنا واضح مقام بنا لیا۔
جبکہ اردو زبان جسے دنیا کی چوتھی بری زبان کہا جاتا ہے ابھی اس میدان میں ابتدائی زینے طے کر رہی ہے۔
اگرچہ اردو کمپیوٹر اور نیٹ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس شعبے میں جس ذوق و شوق اور جستجو اور لگن سے کام ہونا چا ہئے تھا وہ ابتدا میں اس کے مسائل اور مشکلات کے تذکرے ہی میں گزر گیا۔
اردو زبان کے حروف تہجی، اس کے دائروں، شوشوں، قوسوں اور اس کے باہمی ربط اور پیوستگی کی صورتوں کو کمپیوٹر کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ سمجھا جاتا رہا۔
جبکہ اگر اس کا موازنہ چینی زبان کے ساتھ کیاجائے جسے ابتدائی طور پر اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں پڑھا جاتا تھا تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں پر بھی تساہل پسندی اور آئین نو سے ڈرنے کے عوامل ہی پیش نظر رہے

اگر اردو زبان کو فارسی اور عربی کے بالمقابل بھی لا کھڑا کیاجائے تو بھی یہ بات واہوتی ہے کہ ان دونوں زبانوں نے نسخ پر ہی قناعت کرتے ہوئے اپنی بنیادی اور مرکزی توجہ زبان کی ترویج اور تشہیر پر رکھی جب کی اردو دنیا اپنے ذوق جمالیات کی تشفی میں نوری نستعلیق کے ظہور تک ساکن اور تن بہ تقدیر رہی۔
بصری شناخت کے لئے جب پہلے سے تیار شدہ متن، عبارت، یا سکین کی ہوئی چیز کو کمپیوٹر میں شناخت کے عمل سے گزارا جاتا ہے تو یہ عبارات اور تصاویر خود کار شناخت اور ایسے متن میں شامل ہو جاتی ہیں جن میں ایک عام متن کی طرح ترمیم و تصیح کی گنجائش ہوتی ہے ۔صبر آزما اور تخلیقی اور تکنیکی صلاحیتوں کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ کمپیوٹر پر یہ شانخت دو انداز میں ہوتی
مجموعی طور پر
تجزیاتی طور پر
تستعلیق کی صورت میں حروف کی ساخت اور ان کے بل کھاتے انداز کو تکنیک سانچے میں از سر نو شناخت کے قابل بنانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دنیا بھر کے ویب سے زیادہ استعمال ہونے والے لیگجر جمع کیے گئے ۔
بی بی سی کی سائت کو اس عمل کے لیے منتخب کیا گیا کیونکہ
بی بی سی اردو کی ویب سائٹ نے اردو نسخ ایشیا ٹائپ فانٹ کو کاس کی افادیت اور سہولت کی وجہ سے زیادہ اہمیت دی اور اس کی تقلید میں اکثر ویب سائٹس نے اسی فونٹ کو اختیار کیا ۔ نستعلیق کے مقابلے میں اس کو کھولنا اور ڈائون لوڈ کرنا بھی نسبتا آسان ہے
او سی آر پر تحقیق کرتے ہوئے ماہرین کا اردو کے فونٹس کا مطالعہ بھی ضروری تھا۔ ایک طرح سے اردو کی ترقی نہ صرف کمپیوٹر کے ماہرین کی شب و روز کی عرق ریزی کی طلبگار ہے بلکہ اس کے ساتھ ماہرین لسانیات پر بھی ایک بھاری فریضہ عائد کرتی ہےکہ وہ جدید پیش رفت کے شانہ بشانہ اپنی تحقیقی کاوشوں کو تیز تر کرتے ہوئے تکنیکی میداں میں بھی قدم جمائیں تا کہ جستجو کا سفر کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔
۔ اردو زبان جب مسلسل تحریر کی صورت اختیار کرتی ہے تو اپنی اشکال بدلتی جاتی ہے۔ الفاظ کی ابتدا، وسط اور اختتام پر ایک ہی حرف خم کھاتا اپنی صورت تبدیل کرتا جاتا ہے ۔
اردو میں ایسے حروف بھی ہیں جو دونوں اطراف سے منسلک نہیں ہوتے جیسے
” الف “
دوسرے وہ حروف ہوتے ہیں جو دونون اطراف سے دوسرے حروف کے ساتھ جڑ جاتے ہیں مثلا ” ب ، اور ت “” ان الفاظ کی صورتیں ملاحظہ فرمائیے “” تدبیر ، اور بتدریج “”
ان حروف کی تیسری قسم وہ ہوتی ہے جو بائیں جانب کے حروف میں ضم نہیں ہوتے
مثال کے طور پر ، “’ ر “’ اور “’ و “ جیسے ، “’ امیر، راگ “” یا جیسے “” جیو، والا “”
وغیرہ
اس کے بعد بیس سب سے زیادہ مستعمل حروف یکجا کیے گئے جن میں ا، ر، نے، کی، میں، کا، ہے، کر، کو ، سے ، ہو وغیرہ شامل تھے ۔

الخوارزمی انسٹیٹیوٹ آف کمیوٹر سائنس نے یکم مارچ ۲۰۰۲ میں ڈاکٹر سرمد حسین کی زیر نگرانی اردو او سی آر کی تحقیق و ترقی کا پروجیکٹ شروع کیا۔ جس نے جستجو اور تجربات کے اس طویل سفر کے بعد ۲۰۱۴ جنوری میں تجرباتی طور پر آن لائن ایک سافٹ وئر پیش کیا اور یاران نکتہ داں کو اسے استعمال کرنے کی صلائے عام دی۔

کلام سے متن تک
Voice-to-text, Speech-to-Text Software، Talk to Text
عالمی سطح پر انگریزی زبان میں ترقی کا عالم کن فیکون کی سطح کو چھوتا محسوس ہوتا ہے ۔ کلام سے متن تک یا متن سے کلام تک کا سفر بٹن دبائے بغیر صوتی احکامات کے تابع بھی کر دیا گیا ہے۔ آپ اپنے کمپیوٹر یا موبائل کی سیٹنگ ایسے کر دیتے ہیں کہ آپ کو بٹن دبانے کی ضرورت بھی پیش نہین آتی اور آپ زبانی احکامات کی سورت میں برق رفتاری سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔

Speech recognition
صوت شناسی کی سہولت سے کمپیوٹر یا موبائل کو اتنی دانشمندی سکھائی جا چکی ہے کہ وہ مختلد لب و لہجے میں کہی گئی بات کو شناخت کر کے اسے متن کی قبا دے سکے۔

مختلف ویب سائٹس پر ابتدائی حالت میں ایسے سافٹ وئر ملتے ہیں جن سے اردو ای میل یا اردو خبریں سننے کا تجربہ کیا جا رہا ہے گو کہ نتائج تسلی بخش نہیں ہیں۔

سکینڈے نیویا میں اردو
سکینڈے نیویا میں اردو کے حوالے سے یہ موضوع نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ حیران کن بھی ہے
سویڈن میں مقیم اردو زبان سے محبت نہیں بلکہ مجنونا عشق کرنے والے ایک نوجوان   امجد شیخ نے نئی صدی کے اوائل میں اردو لائف ڈاٹ کوم کی بنیاد رکھی اور اردو ای میل کو ترویج دیا۔

لندن کے اخبار، عالمی اخبار ‘‘ نے آن لائن اردو صحافت کو معتبر انداز میں دنیا سے متعارف کروایا۔ صفدر ہمدانی صاحب نے صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ فراست ہونے کا ثبوت بھی دیا آئینِ نو سے ڈرنے کی بجائے نگاہیں چار کر کے اسے اپنی دسترس میں کیا اور یونیکوڈ کے ذریعے اردو دنیا کو ایک جامع اخبار پیش کیا۔

برطانیہ ہی کے ایک نوجوان عرفان نواز نے ۲۰۰۴ میں اردو سائٹ اردو پیجز بنا کر اردو زبان میں کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا آغاز کیا جس سے ہر خاص و عام مستفید ہوا۔ خود مجھے کئی مرتبہ جب اردو لکھنے کے مسائل پیش آتے تو ہر وقت آن لائن رہنمائی دستیاب ہوتی۔
آج بھی تیز رفتار ترقی میں جدید سافٹ وئرز اور جدید تکنیکی معلومات کے مضامین اس سائٹ پر فورا پیش کیے جاتے ہیں۔ بے شمار لوگوں نے یہاں سے گرافک سیکھا اور اردو لکھنا اور اس کو فوٹو ژاپ میں ڈیزائن کرنا سکھانے کی باقاعدہ ابتدائی تدریسی پروگرام یہاں پیش کیے گئے

یورپ میں ہونے والی اس برقی ترقی کو قومی کونسل برائے فروغِ اردو ‘‘ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ دیارِ غیر میں رہنے والے ہمیشہ مڑ کر ان شہروں کی طرف دیکھتے رہے جس کے گلی کوچوں میں وہ اپنی زبان و لب و لہجے کو چلتے پھرتے محسوس کر سکتے تھے۔

سکینڈے نیویا میں بھی اردو کی بڑی بستی یعنی برطانیہ کی طرح اردو کی وسعت اور تشہیر بہت ہوئی اگرچہ آبادی کے تناسب کی وجہ سے برطانیہ کے برابر نہ ہو سکی۔
ڈنمارک کی تعلیمی حکمت عملی نے ہمیشہ اردو زبان کے فروغ اور ترویج و تشہیر کے لیے سہولیات بہم پہنچائی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اردو جماعتوں کا انتطام ہوتا رہا اور اردو پڑھنے کے خواہشمند طالب علموں کے پہلی تا دسویں مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع دیے گئے۔
ڈینش تہذیب و ثقافت نے ہمیشہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ وسطی پل کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کیا ہے ۔
اس کی ایک روشن مثال ڈنمارک میں تقریبا پندرہ برس سے اردو پروگرام پیش کرنے کے لیے ٹی وی لنک اور تین برس تک صرف غیر ملکی خواتین کے مسائل پر گفت و شنید کے لیے ’’ ٹی وی نساء ‘‘ کی سرپرستی کی گئی تھی جسے اس سال نئی حکمت اور پالیسیون کے تحت عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا تا ہم ویب ٹی وی کی صورت میں وہ آج بھی قائم ہیں اور ان پر کام کرنے والوں کو صحافی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے۔

ان ممالک میں جدید سہولیات اور اور ترجمانوں کو مہیا کی جانے والی رعائتوں سےاردو زبان کا مستقبل تابناک مشکل نہیں ہے۔ موبائل پر اردو کی سہولت اور ریکارڈنگ نے تدریس کو بے حد آسان اور سہل دسترس میں رکھا ہے ۔

ہ صدی اپنی محیر العقول ترقی اور آسائشوں کی بنیاد پر لسانی ترقی کے امکانات سے بھر پور ہے جس میں جستجو کرنے والوں کےلیے شش جہات کھلی ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں