’ اڈیالہ جیل میں قید نوازشریف کو باہر نکالنے کے 3 طریقے ہیں اور سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ۔۔۔‘سینئر صحافی نے ایسی بات بتادی کہ پولنگ سے پہلے ہی ن لیگیوں کی دوڑیں لگ جائیں گی

’ اڈیالہ جیل میں قید نوازشریف کو باہر نکالنے کے 3 طریقے ہیں اور سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ۔۔۔‘سینئر صحافی نے ایسی بات بتادی کہ پولنگ سے پہلے ہی ن لیگیوں کی دوڑیں لگ جائیں گی

سینئر صحافی طاہر نجمی نے اپنے آج کے کالم میں کہاہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس نوازشریف کو اڈیالہ جیل سے نکالنے کیلئے تین راستے ہیں ، ایک ن لیگ کل ہونے والے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جائے اور اس کے بعد قانون سازی کرے ، دوسرا قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کرنا ، جو کہ کیا جا چکاہے اور اگر ان دونوں راستوں میں ن لیگ کامیاب نہیں ہو پاتی تو تیسرا راستہ سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانا ہو گا ۔

تفصیلات کے مطابق طاہر نجمی کا اپنے کالم میں کہناتھا کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے قائد نواز شریف کی مشکلات کو کم کرے اور انھیں جیل سے رہائی دلائی جائے؟ مبصرین کی نظر میں اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس 3طریقے ہیں۔ اول، مسئلہ کا سب سے آسان و سادہ حل اور بہترین موقع یہی ہے کہ 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات میں اتنی نشستوں پر فتح حاصل کی جائے کہ ن لیگ 2تہائی اکثریت سے حکومت بناسکے جس کے بعد آئین میں جس طرح چاہے ترمیم کرکے اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ (ن) کو بڑی تعداد میں ووٹ مل گئے اور وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر مسئلہ ہی حل ہوجائیگا اور وہ قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔

دوئم، قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی جائیں، اس ضمن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قانونی راستہ اختیار کیا جاچکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو بری کیا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپیل کو قابل سماعت قرار دیا جاچکا ہے اور اگلی سماعت الیکشن کے بعد ہوگی۔ قانونی ماہرین کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے نتیجے میں ان سزاﺅں پر نظر ثانی اور ان کی معطلی کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ سنائے گئے فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہوئے بلکہ عدالت نے استغاثہ کے گمان کی بنیاد اور اپارٹمنٹ کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکامی پر سزا سنائی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ہائی کورٹ اس اپیل پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) اگر عام انتخابات میں 2تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور قانونی طریقے سے بھی میاں نواز شریف کی سزا معطل نہیں کراسکتی تو پھر ن لیگ کو تیسرا اور آخری آپشن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا۔ نواز شریف کی جیل سے رہائی کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانا ہوگی، ملک بھر میں بڑی تعداد میں جلسے و جلوس منعقد کرکے میاں نواز شریف کی حمایت میں ایک بھرپور توانا و موثر آواز بلند کرانا ہوگی، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جو پورے ملک کو متاثر کرے، اگر ہڑتال کی کال دی جائے تو کراچی سے پشاور تک پہیہ جام ہوجائے، تب تو امید پیدا ہوسکتی ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے کوئی راستہ نکالے تاہم اس بات کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں