انڈیا سے ایک خط پاکستانی عدالتوں کے نام

تبصرہ

نہال صاحب آپکی تحریر پڑھ کردلی مسرت ہوئی کہ پاکستان کی کوئی بات انڈیا کو پسند آئی۔پڑھ کر دلی خوشی ہوئی۔۔۔

السلام علیکم 
محترمہ اصل میں حب الوطنی کا معیار تبدیل کردیا گیا ہے ۔ اب کسی دوسرے ملک کی خوبی خصوصی طور سے پاکستان کی اچھائیاں بیان کرنا ملک سے غداری کے زمرے میں آنے لگا ہے اس لئے پاکستان کے تعلق لوگ اپنے ضمیر کی آواز دبا کر پاکستان کو ایک دہشت گرد ناکام ریاست قرار دینے لگے ہیں ۔ میرا معاملہ الگ ہے میں ہر حال میں جس کی جو اچھائی ہے اسے قبول کرنے کا روادار ہوں ۔ یہ جو میں نے دہشت گرد ناکام ریاست لکھا ہے یہ بھی ایک طنز ہے جو میں اس طرح یہاں کے نظام پر کرتا رہتا ہوں ۔ ابھی میں ان ججوں کی تفصیلات دیکھ رہا تھا جنہوں نے یہ جرات مندانہ فیصلہ سنایا ہے اس میں ایک کھوسہ صاحب ہے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ انہوںنے چالیس یا پچاس ہزار مقدموں کا فیصلہ سنایا ہے ۔ میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے عظیم جمہوری ہندوستان میں اب تک ایسا جج نہیں ہوا جو اتنی سرعت کے ساتھ مقدمات کا فیصل کرے اور جب تک موجودہ نظام ہے ایسا ممکن بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں عدالتوں میں میں التوا مقدموں کی تعداد کتنی ہے ۔ لیکن ہمارے عظیم ہندوستان میں چار کروڑ سے زائد زیر التوا مقدمات ہیں ۔ لیکن ہماری حکومت کو مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کچھ زیادہ ہی شوق چڑھا ہوا ہے اور مسلمانوں کے عائلی معاملات کو انہیں ناکام عدالتی نظام کے تحت لانا چاہتی ہے ۔ غور کیجئے تو یہ بغض معاویہ میں حکومت کا احمقانہ اقدام ہے لیکن یہ سب کچھ دیش بھکتی کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ فلم ہمارے یہاں بنتی ہے کہ ایک گونگی لڑکی کو سلمان خان پاکستان پہنچاتا ہے ۔ لیکن زمینی سطح پر یہ کام پاکستان کرتا ہے کہ ایک گونگی لڑکی کا پتہ چلتے ہی اسے ہندوستان کے حوالے کردیتا ہے ۔ ایسے کئی کام ہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی جس میں ہندوستانی قیادت اور حب الوطنی کی بیماری کے زیر سایہ کچھ مسلمان لیڈران کی لفاظی اور پاکستان کی انسانیت نوازی کی طویل داستان ہوگی ۔ یہ سب کچھ میڈیا کا بھی کیا دھڑا ہے کہ اس نے پاکستان کی جو شکل ہمیں دکھائی ہے وہی ہم نے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ بین الاقوامی لیول پر بھی ایسا ہی ہے ۔ ہر کوئی اس سے متاثر ہے ۔ والسلام باقی آئندہ 
نہال صغیر

اپنا تبصرہ لکھیں