افغانستان میں امن کی کوششیں اورعورتوں کے حقوق

گزشتہ اتوار قطر میں افغانستان، طالبان اور جرمنی کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کا مقصد ملک میں امن کا قیام تھا۔افغانستان میں سن دو ہزار ایک میں طالبان کی حکومت تھی اب ملک کا بڑا حصہ ان سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔مزاکرات میں طالبان نے ملک میں مظالم کم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ان کے مظالم ابھی تک جاری ہیں۔مذاکرات کے دوران شمالی افغانستان پر ایک ہوائی حملے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے جن میں چھ بچے شامل تھے۔نارویجن خبر رساں ایجنسی کے مطابق دہشت گرد حملے میں کار بم استعمال کیا گیا تھا۔
امن مذاکرات قطر میں دو روز تک جاری رہے۔اس میں ستر افراد نے شرکت کی تاکہ علاقے مین امن قائم کر کے بیرون ملک سے پناہ گزینوں کو واپس بلایا جا سکے۔
جرمن نمائندہ Markus Potzel کے مطابق ملک میں عوام پر مظالم کو کم کیا جانا چاہیے جبکہ خواتین کی تنظیم کی سربراہ میری اکرمی کے مطابق ملک میں خواتین کو ان کے سیاسی،سماجی اور تعلیم حقوق اسلام کے مطابق ملنے چاہئیں لیکن یہ کوئی معاہدہ نہیں بلکہ اگلے مزاکرات کا بنیادی مقصد ہے۔
طالبان نے حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کیا ہے کیونکہ انکے خیال میں حکومت امریکہ کی مدد کر رہی ہے۔افغانستان میں پیدا ہونے والے ظالمے خالدزاد جو کہ امریکی ادارے میں کام کر رہے ہیں نے مذاکاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کام کر رہے ہیں۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں