اخری خواہش

ایک مرتبہ ایک مسلمان کی موت کا وقت نزدیک تها. اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش اسے کهانے کیلیے زیتون مل جائے. جو کہ اس کے گهر کی الماری میں پڑا تها.
اور دوسری جگہ پے ایک غیر مسلم کی موت کا وقت بهی قریب تها. اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش اسے کهانے کیلیے مچھلی مل جائے. اس کے گهر کے آس پاس کوئی جهیل دریا نہر وغیرہ نہیں تهی. ایک تالاب کے علاوہ.
اللہ نے ایک فرشتے سے کہا کہ جاو اور اس مسلمان کے گهر میں موجود زیتون کو گرا دو. تا کہ وہ اسے کها نہ سکے.
دوسرے فرشتے کو حکم دیا کہ جاو اس کافر کے گهر کے سامنے جو تالاب ہے اس میں مچھلیاں ڈال دو. تا کہ اسے مچھلیاں کهانے کو مل سکیں.
دونوں فرشتوں کی زمین پر آتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی. ایک دوسرے سے زمین پر آنے کی وجہ پوچهی.
پهر دونوں حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرہ ہے. کہ اللہ اپنے ماننے والے کی آخری خواہش کو رد کر رہا ہے.
اور اپنے منکر کو دے رہا ہے.
خیر دونوں نے اپنا اپنا کام پورا کرنے کے بعد اللہ کے دربار میں حاضر ہو کے پوچها کہ
یا اللہ آپ کے اس کام کی حکمت ہمیں سمجھ نہیں آئی. کہ آپ اپنے ماننے والے کی آخری خواہش کو پورا نہیں کر رہے.
جبکہ ایک منکر کی آخری خواہش پوری کر رہے ہیں.
حکم باری تعالی هوا.
کہ کافر بهی دنیا میں اچهے کام کرتے ہیں. جن کا صلہ میں ان کو دنیا میں ہی دیتا ہوں. اس کافر کی ایک نیکی باقی تهی. میں نے اس کی آخری خواہش پوری کر کے اس کی وہ نیکی ختم کر دی. اب یہ میرے پاس آئے گا تو گنہگار ہی آئے گا.
جبکہ مسلمان کو میں اس کے گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دیتا ہوں.
اس مسلمان کا ایک گناہ باقی تها. اس کی آخری خواہش رد کرکے اس کے بدلے میں میں نے اس کا وہ گناہ معاف کردیا.
اب یہ میرے پاس آئے گا تو پاک صاف آئے گا.
تو دوستو اب پتہ چلا کہ ہر کام میں اللہ کی طرف سے بہتری ہوتی ہے.
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا کر

اپنا تبصرہ لکھیں