ارشد اشرف کے قلم سے خالد اختر کا تعارف حصہ اول

محمد خالد اختر کے سفرناموں میں پڑھنے والوں کو مسحور کرنے والی بات ان انسانی کرداروں کی رنگا رنگی ہے جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صورت حال سے دوچار انسانوں پر مشتمل زندگی کا میلہ ہی ہے جس سے محمد خالد اختر کا سفری تجربہ عبارت ہے۔ وہ اپنے ان عارضی ہمسفروں ،مختلف پس منظر رکھنے والے عام لوگوں سے بھرپور تخلیقی دلچسپی لیتے ہیں اور ہمدردی اور گہرائی سے بنائی گئی تصویروں کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنے اس مطالعے میں شریک کرتے ہیں۔اس عمل میں محمد خالد اختر کی تخلیقی شخصیت کا فکشن نگار پہلو پوری طرح بروئے کار آتا ہے۔

بیچارے حکمران

ایک وزیر عالی مرتبت نے تو سرے سے جوتے والے واقع کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔کیا کہنے آپ کے۔ایسے حاکم وقت کے مداحوں کا رول بہت قابل تعریف ہے۔وہ ہر لمحہ میڈیا کے چلتروں کا جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یقیناً انہیں اپنے بیچارے حاکم پہ ترس ا تا ہو گا۔انکے جانثاروں کے لیے یہ بہت کڑی گھڑی ہے۔انہیں

میلان کی گلیوں میں ننگے پائوں، حصہ سوم

۔مجھے اپنے ناروے کے فٹ پاتھ پہ گرم دوپہروں میں ننگے پائوں چلتی ہوئی حسینائیں اوراپنے وطن میں کچی پگڈنڈیوں پہ جوتے بناء چلتی ناریاں یاد آ گئیں۔تب میں نے فوراً عائشہ کے اس فیصلے کی بھر پور تائید کی۔یہاں تو لوگ کیا کیا اتار دیتے ہیں اگر تم سینڈل اتار دو گی تو کون سی آفت آ جائے گی۔یہ سنتے ہی عائشہ نے جھٹ سے سینڈل اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیے اور اس کے تھکے ہوئے چہرے پہ آسودگی سی پھیل گئی۔وہاں نہ کسی

جہاز پہ کالا جادو

پچھلے برس موسم سرما میںایک خاتون پی آئی ا ے کی بوئنگ فلائٹ میں جہاز کی سیٹ پر چوکڑی مار کر اور گھونگٹ نکال کر بیٹھی تھی۔یہ فلائٹ لاہور سے ناروے آ رہی تھی۔کچھ مسافروں کی منزل ڈنمارک بھی تھی۔ مزید پڑھیں