اس مرتبہ ہماری منزل اٹلی کی تہلکہ آمیز تاریخی سرزمین تھی۔اس وقت میں اوسلو کے گارڈیمون ائیر پورٹ کے لائونج میں شیشے کی دیوار کے پاس بیٹھی ہوں۔میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی ڈائری پر سے سر اٹھا کر شیشے کی دیوار کے پار اور اپنے آس پاس بھی دیکھ لیتی ہوں۔اس مرتبہ ہم نے اٹلی جانے کے لیے نارویجن ایر لائن کا انتخاب کیا ہے۔سرخ دم والا نارویجن جہاز آچکا ہے۔میرے آس پاس لائونج میں اٹلی اور دوسرے یورپین ممالک میں جانے والے مسافر بیٹھے ہیں۔میرے سامنے ایک یورپین نسل کی مسافرخاتون کانوں میں ہیڈ فون لگائے کسی نامعلوم موسیقی پہ ہولے ہولے تھرک رہی ہے۔گوری رنگت اور کالے بالوں والی یہ مسافر خاتون نیلی جینز میں ملبوس خاصی دلکش شخصیت کی مالک ہے۔اب اس نے اپنے بیگ سے جیبی آئینہ اور پن لپ اسٹک نکال کر ہونٹوں پہ لگائی ہے۔میری سیٹس کے بائیں جانب سامنے والی سائیڈ پر افریقی نسل کی خواتین رنگین بالوں کے ساتھ براجمان ہیں۔انکی گہری رنگت پہ سرخ اور سنہری رنگے ہوئے با ل عجب نرالی سی بہار دکھا رہے ہیں۔ انکے رنگے ہوئے بالوں اور گہری رنگت کے کنٹراسٹ کو دیکھ کر اپنے دیس کی پیلی اور لا ل بھڑوں کا گمان ہورہا ہے۔میں پہلی مرتبہ اٹلی جا رہی ہوں وہاں ہمارے قریبی عزیز سیٹل ہوئے ہیں۔ شبیرالدین اور عبدالقدیر رشتے میں میرے بھتیجے لگتے ہیں۔یہ صرف چار بھائی ہیں ان بیچاروں کی بہن کوئی نہیں۔انکی حال ہی میں شادیاں ہوئی ہیں۔انکے ابومیرے کزن ہیں مگر انکی دوستی میرے ابو سے تھی اسلیے کہ دونوں ماموں بھانجہ تقریباً ہم عمر ہی تھے۔اس لیے انکے بچے بھی ہمارے بہن بھائیوں اور دوستوں کی طرح ہی ہیں۔ شبیرالدین بہت بزلہ سنج شخصیت کا مالک ہے اسے ہم سب پیار سے شبی کہتے ہیں۔شبی کی مزیدار اور دلچسپ باتوں کی وجہ سے یہ پانچ روزہ سیر خوب پر لطف رہی۔اسکے علاوہ عبدالقدیر جو خود تو سنجیدہ ہیں مگر انکی بیگم عائشہ خوب ہنس مکھ ہیں۔ عائشہ نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہوا ہے اسلیے اسکی معلومات بھی خوب ہے۔ خاص طور سے انٹر نیٹ کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ دو اس کے علاوہ میری ایک دوست بھی یہاں رہتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری دوستی کو تین برس ہو گئے ہیں لیکن ملاقات اب پہلی بار ہو گی۔ہماری یہ دوستی نیٹ پہ ہوئی تھی۔ میری ہم نام دوست شازیہ نورین شاعرہ ،رائٹر اور ٹی وی پروگرام کی میزبان بھی ہیں۔ ہم فون پر کافی بات کرتے رہتے تھے۔مائیک پر اٹلی کی فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہو چکا ہے۔تمام مسافر بڑے اطمینان سے اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کائونٹر کی جانب جا رہے ہیں۔ پاکستانیوں والی کوئی ہلچل نہیں۔
کم وقت میں ذیادہ پر لطف ٹور
ہمارا یہ ٹور صرف پانچ روز کا تھا۔لیکن اس مختصر سے عرصہ میں ہم لوگوں نے اتنی سیر کی جییسے یہ پانچ دن نہیں پانچ ہفتے ہوں۔دوروز تو ناروے سے اٹلی کے سفر میں کٹ گئے۔فلائٹ تو دو گھنٹے کی تھی لیکن کل آنے جانے کا وقت ملا کر پانچ گھنٹے بنتے ہیں۔باقی تین دنوں کی ہملوگوں نے اس طرح پلاننگ کی کہ دو روز میں سیر بھی تھی۔ دو ملاقاتیں اور شاپنگ بھی۔پھر مزے کی بات یہ تھی کہ شبی اور عبدالقدیر دونوں نے جاب پہ بھی جانا تھا۔اسلیے کہ ہم لوگ تو اصل میں انکی بیگمات کو یہ تسلی دینے آئے تھے کہ آپ پردیس میں اکیلی نہیں ہم بھی آپکے پڑوس میں ہیں۔جب بھی آواز دیں گی ہم ہوا کے دوش پہ اڑتے آئیں گے۔ یوں سمجھیں کی سیر کا موقعہ تو بونس میں مل گیا۔
یہاں یورپ میں یورپین اقوام سیر کی دلدادہ ہیں۔ اب تو ہماری قوم کے باشعور لوگ بھی دیس دیس کی سیر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ویسے قرآن حکیم میں بھی لکھاہے کہ،اے بندوں میری زمین پہ چلو پھرو اورمیری نشانیاں دیکھو،۔تارکین وطن پاکستانیوں کی اکژیت بیرون ملک سے دوسرے ممالک میں اپنے عزیزوں سے ملنے جاتی ہے۔اسطرح وہ عزیزوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ سیر بھی کر لیتے ہیں۔ دوسرے پاکستانی اپنی جاب کے سلسلے میں یا کولیگز کے گروپ میں سیرکرتے ہیں۔ بیرون ملک میں صرف سیاحت کی غرض سے جانے والے پاکستانیوں کی اوسط بہت کم ہے۔لیکن سیاحت کی افادیت کے پیش نظر اب سیاح پاکستانیوں کی تعداد پہلے کی نسبت ذیادہ ہو رہی ہے۔ اگر آپ لوگ کم وقت میں زیادہ لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور سیربھی کم خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک تو کچھ نہ کچھ رقم پس انداز کرتے رہیں۔ پھر نیٹ پہ سستی ٹکٹس تلاش کریں۔ایک تو سستی ٹکٹیں لو سیز ن میں ملتی ہیں یعنی جب چھٹیاں نہیں ہوتیں۔ دوسرے بعض ائیر لائنز آخری بچ جانے والی ٹکٹس سستے داموں لگا دیتی ہیں۔ ایسا بعض اوقات مہنگی ایر لائینز بھی کرتی ہیں۔یورپ میں رائن ائیر لائن سب سے سستی ہے۔ مگر ہمیں نارویجن ائر لائن کی ٹکٹیں بھی کافی کم قیمت پر مل گئیں اس نے ہمیں سیدھا میلان کے انٹر نیشنل ائیرپورٹ مالپنسا میں اتارا ۔یہ ائیرپورٹ ہمارے میزبانوں کے گھر سے صرف آدھ گھنٹے کے فاصلے پہ تھا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہوتا ہے ملنے ملانے اور گھومنے پھرنے کا اور اس میں یہ خیال بھی رکھنا ہوتا ہے کہ بہت ذیادہ تھکن نہ ہو جائے ورنہ سیر کا مزہ کر کرہ ہو جاتا ہے۔اسلیے لباس بہت آرام دہ اور موسم و ماحول کے مطابق ہونا چاہیے۔اسکے علاوہ یا تو آرام دہ جوتا پہنیں یا پھر ساتھ ایک جوڑا جوتے یا سینڈل فالتو رکھ لیں۔ایک بیگ میں پانی کوئی مشروب اور ہلکا پھلکا اسنیک مثلاًچپس، پاپ کارن ،یا بسکٹ وغیرہ ساتھ رکھ لیں۔اگر شاپنگ کا پروگرام ہو تو ساتھ میں کسی لوکل شاپنگ ایکسپرٹ کو لے جائیں۔ورنہ نیٹ پر سے شاپنگ گائیڈ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ٹائم کی پابندی کی کوشش کریں اور اس کے لیے اگلے دن کے کپڑے بیگ اور دیگر اشیاء پہلے سے تیار رکھیں تاکہ تیاری میں کم سے کم وقت لگے۔ ہاں اپنی شاپنگ لسٹ بیگ میں رکھنا نہ بھولیں۔ اسکے علاوہ اپناکیمرہ،موبائیل رات کو ہی چارج کر لیں۔گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی اور اپنے گروپ کی تصاویر ضرور بنائیں کیونکہ اس وقت سب فریش ہوتے ہیں۔
سیر کے دوران اپنے ساتھیوں کے آرام کا بھی خیال رکھیں خاص طور سے اگر بچے بھی ساتھ ہوں ۔ہر گھنٹے کے بعد کچھ دیر کے لیے مثلاً پانچ سے دس منٹ سستا لیں پانی یا کوئی مشروب بیٹھ کر پی لیں۔اور ہاں کھانے کے ٹائم پر کسی ریستوران سے کھانا کھائیں۔ یاد رکھیں اسنیکس کھانے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔ اور خراب صحت کے ساتھ سیر کا لطف نہیں آتا۔اسنیکس صرف جسم کو وارم اپ کرنے کا کام دیتے ہیں۔اگر آپ ریستوران سے کھانا نہیں پسند کرتے تو گھر سے ہی کھانا لے کر چلیں ۔خصوصاً اگر کو ئی پر ہیز وغیرہ ہے تو ۔اسکے بعد اہم مقامات کی اور گروپ فوٹوز بہترین یادگار بن جاتی ہیں۔یہ یادگاریں نہ صرف آپکے دوستوں اور عزیزوں کے مزہ دیں گی بلکہ آپکے لیے یادوں کا سرمایہ بن جائیں گی۔ گھر پہنچ تمام تصاویر اور فلمیں ایک سی ڈی پر محفوظ کر لیں۔
Great beat ! I wish to apprentice at the same time as you amend your web site, how could i subscribe for a blog website? The account aided me a appropriate deal. I have been tiny bit acquainted of this your broadcast provided vivid transparent concept
I found the info on this blog useful.
تاریخی ہونے کی وجہ سے مجھے بھی پسند ہے
thanks fo readun and appreciating it
editor