سیکھیں اور سکھائیں
ایک مفید تحریر
رپورٹ گل بہار
ضلع جہلم
• 29 اپریل 2025 کو اسلام اباد میں ایک تقریب ہوئی۔جو تمام سکول کے اساتذہ کے لیے منعقد کی گئی تھی۔جس میں پاکستان کے نامور ادارے 1122 کی طرف سے تمام اساتذہ کو طبی مہارتوں کی ٹریننگ سکھانے کا انتظام کیا گیا۔چونکہ میں بھی تعلیمی ادارے سے تعلق رکھتی ہوں اور ایک استاد کے فرائض سر انجام دے رہی ہوں۔اس تقریب میں میرے سکول کا سارا ٹیچنگ سٹاف موجود تھا۔اور ون ون ٹو ٹو کے ادارے کے کچھ افسران بھی موجود تھے۔ جنہوں نے تمام اساتذہ کو ٹریننگ دینی تھی اور کچھ طبی مہارتیں اور ان کے طریقوں کے بارے میں بتانا تھا۔سب سے پہلے منظر حسین جو اس ٹیم کے کیپٹن تھے انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور اپنے ادارے یعنی 1122 کے بارے میں بتایا کہ یہ پاکستان کا ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنی عوام کو طبی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔انہوں نے سب سے پہلے اساتذہ کے عملے سے چند سوالات کیے جن میں ان کا سب سے پہلا سوال یہ ہطبی امداد کسے کہتے ہیں جس کو انگریزی میں فرسٹ ایڈ بھی کہتے ہیں ہمارے عملے میں سے ایک ٹیچر نے بتایا کہ فرسٹ ایڈ یعنی طبی امداد ان اقدامات کو کہتے ہیں کہ جب کسی مریض کو کسی حادثے یا بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے پہلے سرانجام دیے جاتے ہیں یعنی وہ تمام کام جو ہم مریض کو ہسپتال پہنچانے سے پہلے اس کی جان بچانے کے لیے کرتے ہیں انہیں طبی امداد کہتے ہیں سر نے کہا بہترین جواب اب انہوں نے دوسرا سوال یہ کیا کہ طبی امداد کن لوگوں کو دی جاتی ہے اور کیسے دی جاتی ہے تب میں نے بتایا کہ جب اپ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش ا جائے تو ایسی صورت میں اپ اپنے اپ کو محفوظ رکھنے کے لیے جو بھی کام کریں چاہے وہ کسی جگہ پر بھی ہو تب انہوں نے کہا کہ اپ کوئی واقعہ بتا سکتی ہیں جو اپ کی زندگی میں کبھی پیش ایا ہو اور اپ نے طبی امداد دی ہو تب میں نے ان کو بتایا کہ ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کٹ لگ گیا تھا جس کی وجہ سے اس کو بہت خون ا رہا تھا تب میں نے اس کے ہاتھ پر کس کے پٹی باندھی زخم چونکہ بہت گہرا تھا لیکن فوری طور پر پٹی بندھ جانے سے اس کا خون رکنا بند ہو گیا اور پھر ہم اپنے بھائی کو ہسپتال لے گئے جہاں اس کی باقاعدہ طور پر مرہم پٹی کی گئی اب یہاں پر ون ون ٹو ٹو کی ٹیم نے باقاعدہ ٹریننگ کا اغاز کیا سب سے پہلے انہوں نے جو معلومات ہمیں دی اس میں سب سے پہلی بات یہ تھی کہ موت برحق ہے اور کوئی انسان بھی موت سے بچ نہیں سکتا سائنس کے مطابق موت دو طریقوں سے ہوتی ہے نمبر ایک کلینیکل ڈیتھ،نمبر دو بائیولوجیکل ڈیتھ اب بات سمجھنے کی یہ تھی کہ کلینیکل اور بائیولوجیکل ڈیتھ ہوتی کیا ہےسائنس کے مطابق کسی انسان کی موت تب ہوتی ہے جب انسان کا دماغ مر جاتا ہے اسے کہتے ہیں بائیولوجی کل ڈیتھ لیکن دل کے مر جانے کو کلینیکل ڈیتھ کہتے ہیں دل کا مر جانا انسان کو بائیولوجیکل ڈیتھ تک لے جاتا ہے مگر کلینیکل موت
•
• بائیولوجیکل موت کے درمیان تھوڑا سا وقت ہوتا ہے اگر اس وقت میں انسان کو ایسی میڈیکل ایڈ مل جاتی ہے اور انسان کا دل دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے تو انسان کلینیکل موت سے واپس ا سکتا ہے لیکن اگر یہ چند لمحات گزر جائیں تو تب انسان زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یہ بات سمجھانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر اپ کے ساتھ اللہ نہ کرے یا اپ کے پیاروں کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش ا جائے یا کوئی گھر میں ایسا واقعہ پیش ا جائے کہ جس میں ہو جائے یعنی دل دھڑکنا رک جائے تو تب اپ کو کیا کرنا چاہیے دل کی دھڑکن کو دوبارہ سے بحال کرنے کا طریق کو سائنسی اس لحاظ میں سی پی ار کہتے ہیں یعنی کارڈیو پلمورری ریسسٹیشن سی کا محقق ہے کارڈیو یعنی دل،پی کا محفف ہے پلمو ری یعنی پھیپھڑے آر کا محفف ہے ریسسٹییشن یعنی ریکور یعنی سانس کی بحالی کرنا۔
•
• سی پی ار کپ دی جاتی ہے جب کسی کو الیکٹرک شاک لگے یا ڈوبنے کا کوئی حادثہ پیش ا جائے یا کسی جگہ پر اگ لگ جائے اور سی پی ار اس انسان کو دی جاتی ہے جو بے ہوش ہو اور جس کی سانس نہ چل رہی ہو اور دل کی دھڑکنیں رک چکی ہوں یہ یاد رہے کسی پی ار اس انسان کو نہیں دی جاتی جو ہوش میں ہو کیونکہ اس کی سانسیں پہلے سے چل رہی ہوتی ہیں کلینیکل ڈیتھ میں دل دھڑکنا رک جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سی پی ار اس مریض کو دی جائے گی جس کا دل دھڑکنا رک گیا ہو تب اس کی سانسیں بحال کرنے کے لیے سی پی ار دی جاتی ہے اب سی پی ار ہر عام انسان نہیں دے سکتا لیکن اگر وہ چند مہاتیں سیکھ جائے تو تب وہ کسی کی بی زندگی بچا سکتا ہے یہاں پر اس ادارے کے ٹرینر چند ڈمی سات لائے تھے جس پر باقاعدہ پریکٹیکل کر کے دکھایا گیا کہ اپ نے کسی بھی انسان کو سی پی ار کس طرح دینا ہے یا اس کی جان کس طرح بچانی ہے مثال کے طور پر اپ گھر پر موجود ہیں یا اپ باہر کہیں پر ہیں خدا نخواستہ اگر کوئی حادثہ پیش ا جائے اگر اپ گھر میں ہیں تو اپ کے بڑے بزرگ یا کوئی گھر کا فرد سویا ہوا ہے یا وہ بے ہوش ہو چکا ہے اگر اس کے ساتھ کچھ بھی ہوا ہے یعنی ایسی صورتحال کہ جس میں اپ یہ کہتے ہیں کہ مریض کو ہسپتال لے کے جایا جائے اس کی سانس نہیں چل رہی یا وہ بے ہوش ہو چکا ہے تو تب اپ کیا کریں۔ سب سے پہلے اپ نے مریض کے پاس جانا ہے لیکن اس سے پہلے اپ نے دو باتوں کا خیال رکھنا ہے پہلی بات کہ اپ نے ون ون ٹو ٹو کا جو ادارہ ہے اس کے نمبر پر کال کرنی ہے تاکہ طبی امداد دینے والی ٹیم جلد سے جلد اپ کے گھر یا اس مقام تک پہنچ جائے جہاں پر مریض موجود ہو دوسرے نمبر پر اپ نے سب سے پہلے اپنے اپ کو بچانا ہے چاروں طرف دیکھنا ہے یعنی اوپر نیچے دائیں اور بائیں یہ دیکھنے کے بعد کہ اپ محفوظ ہیں اس کے بعد اپ نے مریض کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جگانے کی کوشش کرنی ہے اور ساتھ ساتھ کہنا ہے کہ کیا اپ میری بات سن رہے ہیں
•
• اگر مریض کوئی رسپانس نہ دے تو پھر اپ نے ایل ایل ایف یعنی لوکنگ لسننگ اینڈ فیلنگ مطلب دیکھنا ہے سننا ہے اور محسوس کرنا ہے اس کے لیے اپ نے اپنے کان کو مریض کے منہ کی طرف لے جانا ہے اور آنکھوں سے اس کے دل کی جگہ کو دیکھنا ہے اور محسوس کرنا ہے اگر مریض سانس لے رہا ہوگا تو اپ کو سنائی دے گا اور اگر اس کا دل دھڑک رہا ہوگا تو اپ کو دکھائی بھی دے گا تب اپ نے محسوس کر لیا کہ مریض بے ہوش نہیں ہے تب اپ نے سی پی ار نہیں دینا اگر اپ نے ایل ایل ایف کیا ہے یعنی دیکھ محسوس کیا ہے دیکھا ہے اور سونا ہے لیکن اپ کو کچھ بھی نہ دکھائی دیا نہ سنائی دیا اور نہ محسوس ہوا تب اپ جان لیں گے کہ مریض بے ہوش ہو چکا ہے یعنی اس کی دل کی دھڑکن رک چکی ہے تب اپ نے سی پی ار دینا ہے ٹرینر نے چند طریقے بتائے کہ سی پی ار کس طرح دی جاتی ہے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپس میں جوڑ کر مریض کے دل سے نیچے کی جگہ پر پریس کرنا ہے لیکن یہ اپ تک ہی کر سکتے ہیں
•
• جب اپ نے پریکٹس کی ہو اور اس چیز کو سیکھا ہو باری باری تمام ٹیچرز کو بلایا گیا اور انہیں سی پی ار دینے کی ٹریننگ دی گئی اگر اپ یہ سیکھ جائیں تو اپ کسی بھی ناگہانی صورت میں کسی انسان کی بھی جان بچا سکتے ہیں اس میں ایک اور بات شامل کرتی جاؤں کہ سب سے پہلے تو اپ نے خود پینک نہیں ہونا یعنی پریشان نہیں ہونا اگر کوئی بھی ایسا حادثہ یا واقعہ پیش ائے میرا سوال یہ تھا کہ اگر الیکٹرک شاپ لگے تو ہمارے ارد گرد کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ مریض کو مٹی میں دبا دیتے ہیں تو کیا یہ کرنا ٹھیک ہے تب ان افسر نے مجھے بتایا کہ ایسا واقعہ ایک دفعہ ہوا تھا کہ ایک انسان کو الیکٹرک شاپ لگا تو وہاں کے جو لوگ تھے وہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور انہوں نے اس مریض کو مٹی کا گڑا گود کر اس میں دبا دیا جب ہماری ٹیم پہنچی تو ہم لوگوں نے اس شخص کو گڈے سے باہر نکالا لیکن تب تک اس کی موت ہو چکی تھی کیوں کیوں کہ ایک تو الیکٹرک شاک لگنے کی وجہ سے اس کی ساس رک چکی تھی اور اس کا دل دھڑکنا بند ہو گیا تھا اور اوپر سے ان لوگوں نے اسے مٹی میں دبا دیا جس سے اس کا دل مکمل طور پر دھڑکنا بند ہو گیا اور اس کی موت واقع ہو گئی لہذا اگر الیکٹرک شاپ لگے تو اپ نے مریض کو چارپائی پر بٹھانا ہے اور پانی پلانا ہے اگر الیکٹرک شاک زیادہ لگا ہے اور اس کی سانس نہیں چل رہی یعنی وہ بے ہوش ہو گیا ہے تو تب اپ نے سی پی ار دینا ہ۔اس کے بعد ایک ٹیچر کا یہ سوال تھا کہ اگر جسم کا کوئی حصہ گھر میں کام کرتے ہوئے یا کسی حادثے کے دوران کٹ جائے تو تب اپ کیا کریں تب افیسر نے بتایا کہ اگر اپ کی انگلی کا حصہ یا اپ کے ہاتھ کا کوئی حصہ کٹ کر جسم سے جدا ہو جاتا ہے تو تب اپ نے اس کٹے ہوئے حصے کو برف میں رکھنا ہے یعنی ٹھنڈے برف پانی میں اور مریض کو ہسپتال لے جانا ہے ایسا کرنے سے یہ ہوگا کہ جو حصہ کٹا ہوا ہوگا وہ ٹھنڈے پانی میں رکھنے سے بالکل صحیح حالت میں ہوگا اور اس دوبارہ ٹانکے لگا کر پٹی کی جا سکتی ہے اکثر ایسا ہوتا ہے ۔کہ جب اپ کی انگلی کٹ جائے اور وہ اتنی شدید کٹے کے انگلی ہاتھ سے جدا ہو جائے تو اپ فورا سے ہسپتال بھاگتے ہیں۔ اور اس کٹے ہوئے سے کو نہیں چھوڑ جاتے ہیں جس سے بہت نقصان ہوتا ہے ۔اور اپ کا خون بہت زیادہ مقدار میں بہتا ہے لہذا جب بھی کوئی ایسا حادثہ پیش ا جائے کٹ لگ جائے تو اپ کو فورا سے زخم والی جگہ پر سختی سے پٹی باندھنی ہے تاکہ خون بہنا رک جائے اس کے علاوہ اور بہت سی معلومات فراہم کی گئی۔
•
• تقریب کا اختتام ہوا اور اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اللہ تعالی سب کی حفاظت فرمائے امین
Recent Comments