قسط 9: یاداں مٹ گئیاں
Dementia / Alzheimer’s
تھیم: جب ماضی حال بن جائے اور حال گم ہو جائے
کرداروں کا تعارف
باؤ بھلکڑ – 68 سال
وقت کے کسی پرانے کمرے میں قید، یادیں اُلجھی ہوئی، چہرے دھندلے، باتیں ادھوری۔ ہر دن نیا اور ہر چہرہ اجنبی لگتا ہے۔
نانی نوٹ بک – 70 سال
لفظوں سے اپنا وجود بچاتی، ہر بات لکھتی ہیں تاکہ کل کا کچھ تو باقی رہے۔ پرس، نوٹ بک، دیواروں تک پر یادداشت کا بوجھ ہے۔
ڈاکٹر زویا ذی شعور – 40 سال
پیشہ ور، مہربان، خاموشیوں کی زبان سمجھنے والی ماہر نفسیات۔ جذبات کو نام دینے میں مہارت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر گوگلی – 35 سال
خوش مزاج، ہر مسئلے پر مثال دینے والا۔ بیماری کو مزاح میں لپیٹ کر سمجھانے کا ہنر جانتا ہے۔
چندہ چغلی – 55 سال
محلے کی غیر رسمی نفسیاتی ماہر۔ ہر خبر میں ڈراما تلاش کرنے والی، اور ہر درد میں دیسی حل ڈھونڈنے والی۔
دھیان کلنٹن – 25 سال
سوچتا ہے، بہت سوچتا ہے۔ لفظوں سے تصویر بناتا ہے، اور خاموش لمحوں سے گفتگو کرتا ہے۔
⸻
منظر 1: چبوترا – صبح
چندہ چغلی چائے کا کپ ہاتھ میں لیے بیٹھی ہے۔ نانی نوٹ بک اپنے پرانے رجسٹر کو الٹ پلٹ کر رہی ہیں۔
چندہ
نانی جی، آپ نے پچھلے ہفتے بھی یہ لسٹ لکھی تھی، پھر آج وہی؟
نانی نوٹ بک
بیٹا، لکھنا میری سانس کی طرح ہو گیا ہے۔ جب دماغ دھوکہ دے، تو کاغذ پر یقین آتا ہے۔
باؤ بھلکڑ آ کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پرانی تصویر ہے۔
باؤ
یہ لڑکا… جانا پہچانا لگتا ہے۔ شاید میرا بیٹا ہے؟ یا کوئی پرانا دوست؟
چندہ
باؤ جی، یہ تو آپ کا پوتا ہے، روز شام کو آپ کو واک پر لے جاتا ہے۔
باؤ
ہاں… وہی… شاید۔ عجیب بات ہے، چہرے یاد نہیں رہتے، پر جذبات رہ جاتے ہیں۔
⸻
منظر 2: شعور شفا خانہ – دوپہر
ڈاکٹر زویا میز پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر باؤ کی طرف متوجہ ہوتی ہیں
ڈاکٹر زویا
باؤ جی، آپ کو سب سے پہلے کیا چیز یاد رکھنا مشکل لگی تھی؟
باؤ
پہلے چابیاں رکھ کے بھولتا تھا۔ پھر بات کرتے کرتے رک جاتا تھا۔ اب تو اپنے ہی نام میں شک ہوتا ہے۔
نانی نوٹ بک
میں نے اپنے بچوں کے نام، ان کی پسندیدہ چیزیں، سب لکھ رکھے ہیں۔ کہ کہیں میں ماں ہونا نہ بھول جاؤں۔
ڈاکٹر گوگلی
یادداشت کا کمزور ہونا ایسا ہے جیسے کتاب کا ہر صفحہ دھندلا جائے، لیکن جذبات کا سطر سطر باقی رہے۔ Dementia میں ذہن کا نقشہ بگڑتا ہے، پر دل کا موسم نہیں بدلتا۔
باؤ
تو یہ جو میں ہوں، وہ کہیں جا رہا ہے؟
ڈاکٹر زویا
نہیں، آپ کہیں نہیں جا رہے۔ بس وقت کا بہاؤ آپ کو بہا لے جا رہا ہے۔ ہمیں بس کنارے تھامنا ہے۔
نانی نوٹ بک
کبھی لگتا ہے میں ایک خالی کمرہ ہوں، جہاں صرف پرانی گونجیں باقی ہیں۔
ڈاکٹر زویا
یادیں جا سکتی ہیں، مگر انسان نہیں مٹتا۔ ان کی موجودگی صرف عقل میں نہیں، محبت میں بھی ہوتی ہے۔
⸻
منظر 3: چبوترا – شام
باؤ بھلکڑ اپنے جوتے سنوار رہے ہیں، جیسے کسی خاص موقع کے لیے تیار ہو رہے ہوں۔
چندہ
کہاں جانے کی تیاری ہے، باؤ جی؟
باؤ
پتا نہیں… بس دل کہتا ہے کہ کہیں جانا ہے، کسی نے بلایا ہے۔
نانی نوٹ بک
یہ پرانا وقت بار بار دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اور ہم حال میں بیٹھے دروازہ کھولتے ہی نہیں۔
ڈاکٹر گوگلی
کبھی ہم ان لوگوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جن کی دنیا اب بھی گزرے وقت میں ہے۔ ہم حال کے شور میں ان کے ماضی کی سرگوشیاں کھو بیٹھتے ہیں۔
ڈاکٹر زویا
دھیان دینا سیکھیں۔ صرف سوال نہ کریں، ساتھ بیٹھیں۔ ان کے خاموش لمحے سب کچھ کہتے ہیں۔
دھیان کلنٹن
یادیں دھندلا سکتی ہیں
چہرے بھول سکتے ہیں
مگر لمس کا سچ، آنکھوں کی پہچان
وہ کبھی نہیں مٹتے
⸻
شعور کوٹ – ڈاکٹر زویا ذی شعور
جب لفظ یاد نہ رہیں،
تو خاموشی کو سننے کی ہمت رکھو
یادداشت سے زیادہ اہم
محسوس کرنا ہے
یادداشت کے چراغ جب بجھنے لگیں
تو انسان کو روشنی نہیں… قربت چاہیے
وہ ہاتھ جو بھلا بیٹھے ہیں
انہیں پھر سے تھامنا سیکھو
⸻
اختتامی جملہ – دھیان کلنٹن
کبھی کبھار رشتے صرف نام سے نہیں،
لمحے سنبھالنے سے قائم رہتے ہیں
جو ماضی میں گم ہو جائے،
اسے حال کی موجودگی سے واپس بلاؤ
یادیں مٹتی ہیں
پر محبت کا لمس، کسی کاغذ میں نہیں لکھا جاتا
وہ رہتا ہے، خاموش… مگر زندہ
Recent Comments