دماغستان۔ قسط 10: نوالہ یا ندامت؟

قسط 10: نوالہ یا ندامت؟
Eating Disorders
تھیم: جب کھانے سے محبت اور نفرت کا رشتہ ہو

کرداروں کا تعارف

شمائلہ شکمی – 28 سال
احساسِ کمتری میں ڈوبی، کھانے کو تسلی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ کبھی بہت زیادہ، کبھی بالکل نہیں کھاتی۔ جذبات کی ہر شدت پلیٹ میں اتر آتی ہے۔

فہیم فریج چور – 30 سال
چوری چوری کھانے کا عادی، شرمندگی سے بھرا ہوا مگر خود پر قابو نہیں۔ تنہائی میں فرج سے دوستی، اور آئینے سے دشمنی۔

ڈاکٹر زویا ذی شعور – 40 سال
نرمی سے زخم پہچاننے والی معالج۔ کھانے اور جذبات کے رشتے کو سمجھنے والی ماہر۔

ڈاکٹر گوگلی – 35 سال
زندگی کو لطیفوں اور حقیقتوں کی آمیزش سے سمجھانے والا۔ معاشرتی دباؤ اور سوشل میڈیا کی چمک دمک پر گہرا طنز۔

چندہ چغلی – 55 سال
اب بھی سمجھتی ہے کہ سب بیماری عشق یا حسد سے ہوتی ہے۔ “نہ کھاتی ہو تو عاشق ہو، زیادہ کھاتی ہو تو جادو ہوا ہے!”

دھیان کلنٹن – 25 سال
الفاظ کا ایسا جادوگر، جو خاموشیوں کو بھی بیان میں بدل دیتا ہے۔ ہر بات کے پیچھے ایک اور بات تلاشنے والا۔

منظر 1: چبوترا – صبح

چندہ چغلی آلو والے پراٹھے کھا رہی ہیں، ساتھ ساتھ شمائلہ کو گھور رہی ہیں۔

چندہ
یہ شمائلہ تو صرف پانی پر گزارا کرتی ہے، اور کہتی ہے کہ ڈائٹنگ کر رہی ہوں! مجھے تو لگتا ہے، کوئی دل کا روگ پال لیا ہے۔

شمائلہ شکمی (نرمی سے)
دل بھرا ہو، تو پیٹ نہیں مانگتا کچھ۔ اور جب دل خالی ہو… تو کبھی کبھی پورا فریج بھی کم لگتا ہے۔

فہیم فریج چور دبے پاؤں آتا ہے، جیب میں مٹھائی چھپائے ہوئے۔

چندہ
فہیم، یہ تیسری بار ہے تم فریج سے کچھ چرا کر لا رہے ہو! گھر میں کھانے کو نہیں؟

فہیم
کھانے کو سب کچھ ہے… بس خود سے چھپ کر کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔

منظر 2: شعور شفا خانہ – دوپہر

ڈاکٹر زویا شمائلہ اور فہیم کو بغور دیکھ رہی ہیں۔

ڈاکٹر زویا
اکثر ہم کھانے کو جذبات کا علاج بنا لیتے ہیں۔ کوئی سننے والا نہ ہو، تو پلیٹ ہی دل کی سنتی ہے۔

شمائلہ
جب کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ کیسی ہو، تو بس میں خود سے پوچھ کر کھانے لگی۔ کبھی کچھ نہیں، کبھی سب کچھ۔

فہیم
میرے لیے کھانا جرم بن چکا ہے۔ ہر نوالے کے بعد شرمندگی، ہر کھالی پلیٹ کے بعد خالی پن۔

ڈاکٹر گوگلی
یہ “Eating Disorders” ویسے تو جسم کے بارے میں لگتے ہیں، لیکن یہ کہانی دل اور دماغ کی ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا پر “perfect body” کا دباو
اور ہر دوسرے تبصرے میں “موٹی لگ رہی ہو”
یہی بناتے ہیں نوالہ، ندامت!

ڈاکٹر زویا
نہ بہت کھانا خود کو سزا دینا ہے،
نہ کچھ نہ کھانا خود کو ختم کرنا
اصل بھوک… محبت، توجہ، اور قبولیت کی ہوتی ہے۔

منظر 3: چبوترا – شام

شمائلہ پراٹھے کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے بیٹھی ہے۔ فہیم ساتھ بیٹھا ہوا ہے، پہلی بار دن کی روشنی میں کچھ کھاتے ہوئے۔

شمائلہ
شاید ہمیں خود سے بھی وہی نرمی چاہیے، جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں۔

فہیم
اور شاید ہر نوالہ جرم نہیں ہوتا، کچھ تو احساسِ زندگی بھی ہوتے ہیں۔

چندہ چغلی (رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے)
او ہو! لگتا ہے شعور کلینک کا اثر ہو گیا ہے۔ اب لوگ کھانے سے نہیں، شرمندگی سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔

ڈاکٹر گوگلی
جب ہم کھانے سے نفرت کرتے ہیں،
تو اصل میں خود کو سزا دیتے ہیں۔

ڈاکٹر زویا
کھانا زندگی ہے۔
اسے دشمن نہ بناؤ۔
نہ ہی واحد دوست۔

شعور کوٹ – ڈاکٹر زویا ذی شعور

“جب تمہیں خود سے پیار ہو جائے
تو کھانے کے ساتھ بھی صلح ہو جاتی ہے
نہ تم اسے بھوکے پن سے بھرو
نہ خالی پن سے روکو
بس وہی دو جو جسم اور دل، دونوں مانگیں”

اختتامی جملہ – دھیان کلنٹن

کبھی کبھی، سب سے بڑی بھوک
قبولیت کی ہوتی ہے
اور سب سے بڑا نوالہ
وہ ہوتا ہے…
جو تم خود کو معاف کر کے کھاتے ہو

اپنا تبصرہ لکھیں