بچپن میں کہاجاتا ہے کہ جوبھی کرنا اپنے گھرجاکر کرنا اور جب اپنے گھرجاتی ہے تو یہ الفاظ سننے پڑتے ہیں یہ تیرے باپ کا گھرنہیں سسرال کا گھرہے
ٰرومانہ فاروق:
بیٹی کے روپ میں اللہ کی رحمت ، بحیثیت بہن بھائیوں کے لئے حرف دعا، بیوی ہوتو شوہر نا مدار کے لئے مجسمہ ایثار و قربانی اور روح کا سکون ، جبکہ ایک ماں بن کرجنت۔ یعنی ان مقدس رشتوں اور محبتوں کا سر چشمہ صرف اور صرف ایک عورت ہی ہے جو ہر رشتے پر قربان ہوتی ہے اور ہر رشتے کے لئے باعث تسکین وراحت بھی بنتی ہے۔لیکن کیا کوئی یہ بتا سکے گا کہ میری تسکین و راحت کہاں اور کس رشتے میں پنہاں ہے؟ اور میرا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے؟ اس سے انکار نہیں کہ میں ایک عورت جو ذاتِ باری تعالیٰ کی خوبصورت تخلیق ہوں۔ جسکے بغیر انسانی معاشرہ ممکن نہیں ہے۔ بیٹی سے لے کر ماں بننے تک میں عظیم رشتوں سے میں منسلک رہتی ہوں اور مجھ سے محبت بھی کی جاتی ہے اور حفاظت بھی، مگر مستقل ٹھکانے کا کوئی وعدہ نہیں کیا جاتا ہے۔ جن کے آنگن میں رحمت خداوندی بناکر بھیجا گیا ہوش سنبھالنے پر کچھ باتوں اور کاموں کو صرف اسلئے نہیں کرنے دیا جاتا کہ یہ وقت مناسب نہیں جب تم اپنے گھر جاؤ گی تو اپنے سارے شوق پورے کر لینا۔ یہی بات مجھے سوچوں میں غرق کر دیتی ہے کہ جس آنگن میں مہکی، رشتوں کی چاہت پائی۔ ہر رشتے کی عزت کرتی، ان کی ضرورتوں اور پسند و نا پسند کا خیال رکھتی ہوں جس گھر کو اپنے ہاتھوں سے سنوارتی اور سجاتی ہوں وہ گھر سب کا ہے صرف میرا نہیں پر کیوں ؟
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو بھائیوں کی پسندو نا پسند کا خیال رکھا۔ اگر انہیں فیشن ایبل کپڑے ، میک اپ، جیولری اور سیروتفریح پسند نہیں توصبر و استقامت سے کام لیا، اور یہ سوچ کر دل کو بہلا لیا کہ شادی کے بعد اپنے گھر جا کر اپنے سارے ارمان پورے کر وں گی ۔اور یوں آخر وہ دن بھی آہی جاتا ہے اور میری شادی ہو تی ہے اور میں اپنے ادھورے سپنے لئے اپنے سسرال بالفاظ دیگر اپنے گھر آجاتی ہوں۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات ایک اجنبی کی پسند و نا پسند کی آواز جب پر دہِ سماعت سے ٹھکراتی ہے تو سیٹی بجتے کانوں میں بہت دور سے یہ آواز یں گونجتی محسوس ہوتی ہیں کہ اپنے گھر جاؤ گی تو یہ کر لینا وہ کر لینا تمہیں ہر طرح کی آزادی ہو گی۔ کیا یہی وہ آزادی ہے ؟ اوریہی وہ اپنا گھر ہے جسکے سپنے آنکھوں میں پروئے تھے۔ جہاں اکثر و بیشتر یہ بھی سننے کو ملتاہے کہ یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں سسرال ہے۔ جس سے اس بات پرمہرثبت ہوجاتی ہے کہ یہ بھی میرا گھر نہیں میرے شوہر نامدار کا گھر ہے جو میرے نان ونفقے کا مالک و ذمہ دار ہے بس اسی پر صابرو شاکر رہی۔
بتدریج درجے پورے کرتے پھر اسی عورت کو بحیثیت ماں ایک عظیم مرتبے پر فائز کیاگیا۔ ماں کی فرمانبرداری کو جنت کے حصول کا ذریعہ بنایا گیااس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ۔جن قدموں نے اپنے گھر کی تلاش میں اتنی لمبی مسافت طے کی اللہ نے انہی قدموں تلے جنت رکھ دی مگر پھر بھی اُسے اپنا گھر نہ ملا۔بیٹی سے ماں تک کی مسافت میں اس سچائی پر تو سر تسلیم خم تو کرنا ہی پڑے گا کہ ہر درجے میں نے (عورت نے) اپنی ذات سے جن لوگوں سے محبت کی، بدلے میں انہوں نے بھی مجھ سے محبت کی اور حفاظت بھی کی مگر اپنے گھر کا احساس نہ دیا۔ جبکہ میں نے بھی اپنے اس احساس کو دم نہیں توڑنے دیا اور ایک آخری امید جس نے مجھے پر سکون کر دیا کہ ابھی میرا ایک ٹھکانہ باقی ہے جہاں مجھے راحت و سکون ملے گااور وہ ٹھکانہ میرا ذاتی بھی ہوگااور میرے نام سے جانا بھی جائے گا۔ اسے کوئی بھی مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ جی ہاں! وہ ٹھکانہ میری لحد ہے۔