ہمارا نرم رو قاصدپیامِ زندگی لایا

Attiq 1از
راجہ محمد عتیق افسر

مکہ مکرمہ کے نواح میں عرفات کے میدان میں لاکھوں فرزندان توحید کا جم غفیر جمع ہے حقیقی عاشقان رسول ﷺکی آنکھیں دیدار مصطفی ﷺ کی منتظر تھیں اور ان کی سماعتیں دنیا کے سب سے شیریں بیاں اور کلمات سننے کے منتظر تھے ۔ لگتا تھا موتی تقسیم ہوں گے اور ہر کوئی حسب استطاعت انہیں چننے کے لیے منتظر کھڑا ہے ۔ ان کی اکثریت عرب تھی اور عرفات کی فضائیں ان کے لیے نئی نہ تھیں لیکن وہ جس کو سننے اور دیکھنے آئے تھے وہ دنیا میں اپنے رب کا خاص تھا۔ وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے جس کے لیے رب نے یہ سب کائنات تخلیق کی تھی ۔پھر سب کا انتظارختم ہوا ۔ محبوب خدا ﷺ منبر پہ جلوہ افروز ہوئے اور فضا ء میں چاشنی بکھیرتی صدا بلند ہوئی اللہ کا ذکر اور وہ بھی محمد مصطفی ﷺ کی زبان سے بلند ہوا ۔ پھر صدا بلند ہوئی اے لوگو میری بات غور سے سنو ۔۔۔۔۔۔ تمام سماعتیں منبر رسول ﷺ کی جانب متوجہ ہو گئیں لیکن پھر ان چاشنی بھرے لفظوں نے سب کی آنکھوں کو نم کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔حبیب خدا ﷺ فرما رہے تھے کہ: ’’میرا خیال ہے کہ شاید اس سال کے بعد میں تم سے اس جگہ نہ مل سکوں اور نہ شاید اس سال کے بعد حج کر سکوں ۔ ۔۔۔۔ ‘‘یہ وہ الفاظ تھے جو عاشقان رسول ﷺ پہ گراں گزرے ۔۔۔۔ہر شخص حبیب خدا کی جدائی کا سن کر دل گرفتہ تھا۔۔۔۔اس غم و اندوہ کے باوجود وہ سب اس خطبے کو غور سے سننے میں منہمک تھے کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اگر یہ آخری کلمات ہیں تو پھر یہ اہم بھی ہیں کیونکہ یہ الفاظ اس دین حق کاخلاصہ ہیں جسے قائم کرنے کے لیے وہ دنیا میں مبعوث ہوئے ، اپنوں اور غیروں کی جانب سے تکالیف برداشت کیں ، اپنا وطن و گھر بار چھوڑا ، جنگ میں زخم کھائے اور بالآخر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے گرد وپیش میں نافذ کیا ۔یہی خطب�ۂ ججۃ الوداع تھا جو انسانیت کے نام رب کا آخری پیغام تھا اور اسی میں انسانیت کا راز مضمر ہے ۔
خطب�ۂ حجۃالوداع کو چودہ صدیاں بیت گئیں لیکن صاحب ضمیر اور صاحب احساس انسانوں کے لیے یہ آج بھی اس کے الفاظ تروتازہ ہیں ۔ وہ آج بھی دلوں پہ اپنا اثر کرتے ہیں ،وہ آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں ، وہ آج بھی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ضمانت ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو اخروی فلاح سے ہمکنار کرانے کاواحد ذریعہ بھی ہیں ۔ آج جہاں ہم عشق رسول ﷺ کے دعویدار بن کر مجالس برپا کرتے ہیں میلاد مناتے ہیں جلوس نکالتے ہیں قصیدے پڑھتے ہیں اور دل کو تسکین دیتے وہیں اگر ہم اپنے نبی ﷺ کی زندگی کے سنہرے باب یعنی خطب�ۂ حجۃالوداع کو عالم انسانی تک پہنچائیں تو شاید اس دور کی تقدیر بھی بدل جائے ۔
نبی ﷺ نے حمد و ثناء کے فوراً بعد ہی تقسیم رنگ، زبان و نسل کے تمام امتیازات کو مٹادیا اور فرمایا : لوگو! اللہ نے فرمایا ہے کہ میں نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیااور تم کو قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم پہچانے جا سکو اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے ۔کسی عربی کو کسی عجمی پہ اور کسی عجمی کو کسی عربی پہ کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ کسی گورے کو کسی کالے اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پہ کوئی برتری حاصل ہے ۔ برتری صرف تقوی ٰ کی بنیاد پہ ہے ۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے تھے۔اگر ان الفاظ کو ہی پوری دنیا کے ساتھ ترازو پہ تولیں تو یہ الفاظ بھاری ہوں گے ۔ دنیا میں قیام امن کی جتنی بھی کوششیں ہو رہی ہیں وہ سب اس وقت تک بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک انسانیت گھٹنے ٹیک کر نبی ﷺ کے اس فرمان کے سامنے ہتھیار نہ ڈال دے ۔ اس خطبے میں رنگ ونسل علاقائیت و لسانیت کے تمام تر تعصبات کی نفی کر کے تمام انسانوں کو برابر قرار دیا گیا ہے ۔ معاشرتی عدل و مساوات کی یہ اساس دنیا کے کسی مذہب ، قانون یا اخلاق میں موجود نہیں۔ اگر دنیا کے تمام انسان اس قول پہ عمل درآمد کریں تو دنیا سے عالمگیریت، نوآبادیات اور دیگر استحصالی نظام ختم ہو جائیں اور محکوم بھی سکھ کا سانس لیں ۔ لیکن جو خود کو عاشق رسول کہلاتے ہی نہیں تھکتے وہ خود تفریقِ رنگ و نسل کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں اور علاقائی ، لسانی اور نسلی تعصب کی بنا پر ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہیں ۔کوئی سندھی ہے تو کوئی بلوچی کوئی پٹھان ہے کوئی پنجابی ، کوئی ایرانی کوئی عربی کوئی ترک اور کوئی افریقی ۔ اب تو سوال یہ ہے کہ خطب�ۂ ججۃ الوداع کے یہ الفاظ خود مسلمانوں کے دلوں میں کیوں نہیں اتر رہے ؟ بقول شاعر
یوں تومرزا بھی ہو سید بھی ہو افغان بھی ہو
تم تو سب ہی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اسکے بعد نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو تمہارے لیے تمہارے خون[جانیں] ،تمہارے مال، تمہاری عزت و آبروقیامت تک کے لیے تمہارے لیے حرام ہیں جیسے اس دن اس مہینہ اور اس شہر کی تمہارے لیے حرمت ہے ۔لوگو !’’خوب جان لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں ۔تمہارے غلام تمہارے غلام ہیں جو خود کھاؤ وہی انہیں بھی کھلاؤ جوخود پہنو انہیں بھی پہناؤ۔‘‘ اسی طرح فرمایا’’خبردار میرے بعد گمراہ یا کافر نہ ہو جاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔اگر کوئی نکٹااورسیاہ فام بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے اور وہ شریعت کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی تابعداری کرنا۔‘‘انسانی جان کی حرمت کی تعلیم ہر نبی نے اپنی قوم کو دی ہے اور اسلام تو آخری اور جامع دین ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیم تھی کہ ’’کوئی اگر تجھے ایک گال پہ تھپڑ مارے تو دوسری گال اس کے آگے کر دے ‘‘ لیکن عیسائیت نے اس تعلیم سے پہلو تہی کی اور قتل و غارتگری سے دنیا میں فساد برپا کیا لیکن اہل اسلام نے اس تعلیم کو بھی عملی جامہ پہنایا۔خطبہ حجۃ الوداع کی تعلیمات مسلمانوں سے بالخصوص مخاطب ہیں ان تعلیمات میں کھلے لفظوں میں ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔اگر دور حاضر میں جا بجا پھیلی فرقہ واریت کی آگ کو دیکھا جائے تو ہمارا مسلماں ہونا ایک سوالیہ نشان بن جائے ۔ ہم ہیں کہ اسی فرقہ واریت کا شکار ہیں اور ڈھٹائی سے خود کو عاشق رسول ﷺ بھی کہتے ہیں ۔ فرقہ واریت اور مسلکی نزاع کو نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے اور باہم دست و گریبان ہونے کو کفر اور جاہلیت قرار دیا ہے لیکن عملی طور پہ ہم ایک دوسرے سے باہم گتھم گتھا ہیں اور ہمارے ہاتھ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے حقوق اللہ (نماز، روزہ ، زکوۃ ، حج) کو لازمی قرار دیا ،عورتوں کے مردوں پہ اور مردوں کے عورتوں کے حقوق کو بیان فرمایا اور امانتوں کو ان کے اہل افراد تک پہنچانے کی تاکید کی ۔جاہلیت کے دور کی رسومات کو فسخ کیا، سود کو بالکل منع فرمادیا، ایک دوسرے کے مال میں بلا اجازت تصرف سے منع کیا اور ہر قسم کی زیادتی سے بھی منع فرمایا۔اسکے علاوہ اللہ کی طرف سے قائم کردہ قانون میراث پہ عمل درآمد کرنے کی سختی سے تاکید فرمائی ۔ ان سب امور پہ اجمالی نظر دوڑائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ من حیث المسلم ہم نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے ۔ عبادات معاملات اور حسن معاشرت میں ہم نے بے عملی کا مظاہرہ کر رکھا ہے ۔ ہم زندگی کے ہر شعبے میں اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں لیکن دعوی ٰ کرتے ہیں کہ ہم عاشق رسول ﷺہیں بقول شاعر
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا
نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرما دیاتھاکہ’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ ’’میں تمھارے درمیان ایک ایسی نعمت چھوڑ کے جا رہا ہوں کہ اگر اسے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔وہ نعمت ہے اللہ کی کتاب اور میری سنت ‘‘، اب یہ امر مسلّم ہے کہ اب کوئی اللہ کا پیغام لے کر نہیں آئے گا کوئی دل کے دروازے پہ دستک نہیں دے گاکوئی صدا نہیں لگائے گا ۔ یہی آخری پیغام ہے اور ہمیں اس پہ عمل کرنا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے اپنا آخری عالمی پیغام دنیا تک پہنچا دیا ۔ اس پیغام اقوام عالم کا مشترکہ اعلامیہ قرار دے کر اس پہ عمل پیرا ہوا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ لیکن جو اس کے پہلے مخاطب تھے یعنی مسلمان وہ خود ہی اس پیغامِ زندگی سے غافل ہو گئے ہیں ۔ ربیع الاول کا بابرکت مہینہ حب رسولﷺ کے اظہار کے طور پہ منایا جاتا ہے ۔سیرت النبی ﷺ کے تمام گوشوں کو دنیا کے سامنے لانا ہماری دینی ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا احکام خداوندی کی پیروی کر کے امن و سکون کا گہوارہ بنے تو ہمیں نبی ﷺ کے آخری خطاب کے آخری جملے پہ عمل پیرا ہونا ہو گا آپ ﷺ نے فرمایا’’خبر دار !تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں‘‘ اب یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے آخری پیغام پہ خود بھی عمل کریں اور اس پیغامِ زندگی سے دنیا کو بھی روشناس کرائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حب رسول ﷺ کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

ہمارا نرم رو قاصدپیامِ زندگی لایا“ ایک تبصرہ

  1. تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
    میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا˜

    „
    عتیق صاحب یہ شعر آجکل مسلمانوں کے حالات کے عین مطابق ہے جو زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں اور ظاہری شو بازی میں مصروف ہیں۔آپ نے اپنی تحریرمیں بہت اچھے طریقے سے سیرت نبی کا احاطہ کیا ہے ۔ہمیشہ کی طرح یہ تحریر بھی نہ صرف عمدہ ہے بلکہ آپ کی رسول عربی سے محبت کی مظہر ہے۔
    بہت شکریہ
    شازیہ

اپنا تبصرہ لکھیں