جنگ صفین – خلافت، سیاست اور امت کی تقسیم کا آغاز

اسلامی تاریخ میں کئی جنگیں لڑی گئیں، مگر کچھ معرکے ایسے ہیں جنہوں نے محض میدانِ جنگ میں خونریزی نہیں کی، بلکہ پوری امت کی فکری، سیاسی اور مذہبی ساخت کو تبدیل کر دیا۔ جنگ صفین بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی، جو 37 ہجری میں حضرت علی بن ابی طالبؑ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ نہ صرف طاقت کا مقابلہ تھی بلکہ عدل، خلافت، اور امت کے اتحاد کے لیے ایک آزمائش بھی تھی۔

پس منظر – خلافتِ راشدہ کے بعد کا تناؤ
حضرت عثمانؓ بن عفان کی شہادت (35 ہجری) ایک بڑا سانحہ تھی، جس کے بعد اسلامی خلافت ایک نازک موڑ پر آ گئی۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علیؑ کو خلافت سونپی گئی، مگر حضرت عثمانؓ کے قتل کے قصاص کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اسی بنیاد پر کچھ لوگ حضرت علیؑ کی خلافت کے مخالف ہو گئے، جن میں نمایاں نام حضرت معاویہؓ کا تھا، جو اس وقت شام کے گورنر تھے اور حضرت عثمانؓ کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔

حضرت علیؑ کی خلافت اور چیلنجز
جب حضرت علیؑ خلافت پر فائز ہوئے، تو انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے نئے گورنر مقرر کیے۔ شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیانؓ نے حضرت علیؑ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔

حضرت علیؑ کا موقف یہ تھا کہ جب تک حکومت مستحکم نہ ہو، انصاف کا مکمل نفاذ ممکن نہیں۔ ان کا مقصد امت کو متحد رکھنا تھا، مگر حضرت معاویہؓ نے اسے تاخیر اور بے عملی سمجھا، اور دونوں طرف تلخیاں بڑھنے لگیں۔

معرکہ صفین کا آغاز
سن 37 ہجری میں، حضرت علیؑ نے فوج کے ساتھ شام کی طرف پیش قدمی کی۔ دونوں افواج دریائے فرات کے کنارے مقام صفین پر آمنے سامنے ہو گئیں۔ حضرت علیؑ کی فوج میں عراق، حجاز، اور ایران کے ہزاروں لوگ شامل تھے، جب کہ حضرت معاویہؓ کی فوج شام سے تعلق رکھتی تھی۔

جنگ کے اہم ادوار:
1. ابتدائی مذاکرات:
پہلے دونوں جانب سے بات چیت کی کئی کوششیں ہوئیں تاکہ خونریزی سے بچا جا سکے۔ مگر حضرت معاویہؓ حضرت علیؑ کی خلافت تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئے، اور حضرت علیؑ نے بھی کسی ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔

2. میدانِ جنگ میں تصادم:
ماہ صفر 37 ہجری میں لڑائی شروع ہوئی۔ کئی دنوں تک جنگ جاری رہی۔ دونوں جانب ہزاروں افراد مارے گئے۔ دونوں لشکروں میں بڑے بڑے صحابہ موجود تھے، جس سے یہ معرکہ بہت حساس بن گیا۔

3. رات کی لڑائی – لیلة الهرير:
یہ وہ رات تھی جس میں سخت ترین جنگ ہوئی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ اسے لیلة الهرير (گڑگڑانے والی رات) کہا جاتا ہے۔

قرآن کو نیزوں پر اٹھانا – جنگ کا اہم موڑ
جب حضرت معاویہؓ کی فوج کو شکست ہونے لگی، تو انہوں نے عمرو بن العاص کے مشورے سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا اور نعرہ لگایا:
“ہمارے درمیان فیصلہ اللہ کی کتاب سے ہو!”

یہ ایک چال تھی تاکہ حضرت علیؑ کی فوج کو الجھایا جائے۔ حضرت علیؑ نے ابتدا میں کہا کہ یہ دھوکہ ہے، مگر ان کی فوج کے کچھ افراد (خصوصاً قبائل کے سردار) اس نعرے سے متاثر ہو گئے اور جنگ روکنے پر اصرار کرنے لگے۔

تحکیم (ثالثی) کا فیصلہ
جنگ کے اختتام پر دونوں فریقین نے تحکیم (arbitration) پر رضامندی ظاہر کی۔ حضرت علیؑ کی طرف سے ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت معاویہؓ کی طرف سے عمرو بن العاصؓ ثالث مقرر ہوئے۔

نتیجہ:
تاریخ کے مطابق، تحکیم میں عمرو بن العاصؓ نے چالاکی سے حضرت معاویہؓ کو جیت دلانے کی کوشش کی، جب کہ ابو موسیٰ اشعریؓ سادگی سے فیصلہ قبول کرتے گئے۔ اس سے حضرت علیؑ کے مخالفین کو تقویت ملی اور ان کی خلافت کو مزید کمزور کر دیا گیا۔

خوارج کا خروج
تحکیم کے بعد حضرت علیؑ کی فوج سے کچھ سخت گیر لوگ الگ ہو گئے، جنہوں نے کہا:
“حکم اللہ کا ہونا چاہیے، نہ کہ انسانوں کا!”

یہی گروہ خوارج کے نام سے مشہور ہوا، جنہوں نے بعد میں حضرت علیؑ کے خلاف بغاوت کی اور بالآخر حضرت علیؑ کو شہید بھی کر دیا۔

جنگ صفین کے اثرات
امت کی پہلی سیاسی تقسیم
جنگ صفین نے امت مسلمہ میں پہلا بڑا سیاسی و فکری اختلاف پیدا کیا۔ خلافت علیؑ اور حکومتِ معاویہؓ دو الگ دائرے بن گئے۔

تحکیم کا منفی اثر
ثالثی نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے مزید الجھا دیا، اور اہل حق (حضرت علیؑ) کمزور ہوئے۔

خوارج کی پیدائش
انتہا پسند سوچ نے جنم لیا، جس نے بعد میں امت کے لیے مسائل پیدا کیے۔

بنو امیہ کی بنیاد
یہی جنگ بالآخر بنو امیہ کی سیاسی سلطنت کی بنیاد بنی، جو خلافتِ راشدہ کے بعد ایک بادشاہی نظام کی شکل میں ابھری۔

صحابہ کے درمیان اختلافات کا نکتۂ نظر
اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والے یہ اختلافات اجتہادی تھے۔ یعنی دونوں فریق نیتاً حق چاہتے تھے، مگر اجتہاد میں اختلاف ہو گیا۔ حضرت علیؑ حق پر تھے، جیسا کہ حدیثِ رسول میں آیا:

“عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا”
(صحیح مسلم، حدیث 2916)

عمار حضرت علیؑ کے لشکر میں تھے، اور جنگ صفین میں حضرت معاویہؓ کے لشکر نے انہیں قتل کیا، جس سے حضرت علیؑ کی حقانیت ثابت ہوتی ہے۔

نتیجہ
جنگ صفین اسلامی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اگرچہ دونوں فریق اسلام سے مخلص تھے، مگر سیاسی اختلافات، ذاتی مشورے، اور قبائلی مفادات نے ایک بڑے سانحے کو جنم دیا۔ حضرت علیؑ صلح، انصاف اور خلافتِ راشدہ کے تسلسل کے حامی تھے، جب کہ حضرت معاویہؓ قصاصِ عثمان کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔

اس جنگ نے امت کو دو سیاسی دھڑوں میں تقسیم کر دیا، جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اختلافات کو عقل، انصاف، اور باہمی مشورے سے حل کرنا چاہیے، ورنہ فتنہ و فساد ہمیشہ کے لیے راستہ بنا لیتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں