جرمنی میں سینکڑوں عورتوں کو ہراساں کیا گیا اور انہیں مختلف قسم کے تشدد کا نشانہ بنیا گیا جس میں غیر ملکی افراد کے شامل ہونے کا اندیشہ ظاہر کی گیا ہے۔پولیس اس بارے میں کھل کر بیان نہیں دے رہی۔سویڈن میں بھی اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے مگر اس کے بارے میں پولیس نے ازخود رپورٹ درج کی جبکہ جرمنی کے شہر کولن میں ایک پولیس آفیسر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔
دونوں ممالک میں خواتین سے ناروا سلوک کے بارے میں مختلف طبقوں میں مباحث شروع ہو گئے ہیں۔ان زیادتیوں کے مرتکب غیر ملیکیوں اور پناہ گزینوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔سویڈش وزیر اعظم Stefan L246fven اسٹیفن نے بدھ کے روز پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران کہا کہ جب بھی کوئی ذیادتی ہوتی ہے معاشرے کو اسکا شکار بننا پڑتا ہے۔ہمیں اپنی خواتین کو تحفظ دینا ہو گا کہ وہ شام کے وقت تنہا بلا خوف و خطر آ جا سکیں۔
نارویجن خبر ساں ایجنسی کے مطابق پولیس اس بارے میں فکر مند تھی کہ پناہ گزینوں سے بہتر سلوک ہونا چاہیے تھا اسلیے وہ اس معاملے میں ذیادہ نہیں بول رہی۔سویڈن میں پولیس ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے ڈر سے اس بارے میں ذیادہ بات نہیں کر رہی س بات کا اعتراف ایک پولیس سربراہ نے کیا۔جبکہ ایک دوسری معتدل سیاستدان آنے Anna Kinberg Batraکے مطابق پولیس کو سیاسی معاملت سے دور رہنا چاہیے اورانہیں کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
جبکہ ناروے کی وزیر اعظم نے بھی کواتین سے ناروا سلوک کے بارے مین احتججا جی بیان دیا ہے۔
ارنا سولبرگ فیس بک پر لکھا کہ میں نے سویڈن اور جرمنی میں خواتین کے خلاف ناروا سلوک اور دھمکیوں کی خبریں پڑہی ہیں اور میں ایک مملکت کی سربراہ ایک عورت اور ایک ماں کی حیثیت سے اس بات پر زور دیتی ہوں کہ خواتین کو دھمکیاں دینے والون اور ان پر تشدد کرنے والوں کے لیے کوئی رعائیت نہیں دی جانی چاہیے۔
NTB/UFN

Recent Comments