ایک ادبی سرقہ کی واردات میں غزل چور رنگے ہاتھوں ۔۔۔۔

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

آج سے کیٴ برس قبل شہر کراچی سے ایک آواز دنیاےء ادب میں گونجی۔۔۔یہ آواز طارق بدایونی کی تھی ان کا ترنم بھی بہت خوب تھا مگر ہوا یہ کہ انہوں نے یہ مشہور زمانہ غزل اپنے نام سے پڑھنا شروع کردی ،بس غزل کہ مطلع میں لفظ عکس کی جگہ اشک کردیا اور اپنا نام طارق بدایونی سے طارق سبزواری کرلیا، یوں وہ  دنیاےٴ ادب سے بازارِ ادب میں چلے گےٴ۔
اسی دوران پاکستان کے مشاعروں میں ایک شاعرہ کی آواز اور گونجی۔۔۔نازلی چودھری۔۔۔۔ اس شاعرہ نے بھی یہی مشہور غزل اپنے نام سے پڑھنا شروع کردی یوں بھی اس بازار ادب میں داخل ہوگیں۔
اصل تماشہ اُس روز ہوا جب ایک ہی مشاعرے میں یہ دونوں مدعو تھے اور دونوں نے ہی یہ غزل اپنے اپنے نام سے پڑھی اور لڑنے لگ گےٴ کہ غزل ان کی ہے یوں وہ مشاعرہ مجرے میں تبدیل ہوگیا مگرانتظامیہ بیچ میں آگی اور اسی وقت دونوں سے یہ وعدہ لیا گیا کہ یہ دونوں یہ غزل اب کبھی نہیں پڑھیں گے۔
مجھے ایک صاحب نے ہندوستان سے ایک طویل خط میں لکھا ہے کہ مشہور غزل طاہر جونپوری کی ہے مگر کویٴ ثبوت دیا ہے نہ کسی کتاب کا حوالہ۔۔۔۔آخر یہ طاہر جونپوری ہے کون کہاں رہتے ہیں؟
پاکستان کے شہر ساہیوال کی ایک شاعرہ سیمہ ناز ملک بھی اس غزل کی دعویدار ہیں۔
حضرات یہ غزل ان میں سے کسی کی بھی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف مرحومہ بسمل صابری کی ملکیت ہے اور وہ ہی اس غزل کی اصل خالق ہیں۔۔باقی سب جھوٹے ہی

اپنا تبصرہ لکھیں