کسی گاؤں کے لوگ اپنی مہمان نوازی کے لیے دور دور تک مشہور تھے۔ ان کے ہاں اگر کوئی اجنبی آ بھی جاتا تو اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے جیسے وہ کوئی شہزادہ ہو۔ دال، گوشت، پراٹھے، حلوہ، لسی اور اوپر سے دہی تک دسترخوان پر چُن دیتے۔
ایک دن ایسا ہی ہوا۔ ایک اجنبی مہمان گاؤں آیا۔ گاؤں والے بھاگے بھاگے کھانے لائے اور دسترخوان یوں سجا دیا جیسے ولیمے کی دعوت ہو۔
مہمان نے کھانے دیکھ کر خوشی سے جی بھر کے قہقہہ لگایا… لیکن اگلے ہی لمحے اس کی ہنسی کے دانت اندر اٹک گئے۔
کیونکہ دسترخوان کے عین بیچ میں ایک بڑا سا موٹا ڈنڈا بھی رکھ دیا گیا تھا۔
مہمان نے تھوک نگلا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا
“بھائی یہ ڈنڈا… یہ کیوں رکھا ہے؟”
گاؤں والے مسکراتے ہوئے بولے،
“ارے بھائی صاحب! یہ ہماری پرانی روایت ہے بس اسے ہی پورا کر رہے ہیں، آپ ڈریں نہیں۔ کھانا شروع کریں۔”
لیکن مہمان کے دل میں کھٹک بیٹھ گئی۔
اس نے سوچا،
“کہیں کھانا کھلا کے آخر میں اسی ڈنڈے سے میری دھلائی نہ ہوجائے۔”
وہ اندر ہی اندر سہم گیا اور ضدی لہجے میں بولا،
“جب تک اس ڈنڈے کی حقیقت نہیں بتاتے، میں تو ایک نوالہ بھی نہیں لوں گا…”
گاؤں والے پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں خود بھی پتا نہیں تھا کہ یہ ڈنڈا دسترخوان پر کیوں رکھا جاتا ہے۔ وہ تو بس اپنے بزرگوں کو ایسا کرتے دیکھتے آئے تھے اسی لیے وہ روایت نبھا رہے تھے۔ وہ کسی بڑے بزرگ کی کھوج میں نکلے جو اس ڈنڈے کا راز بتا سکے۔ آخر کار ایک معمر بزرگ کو بلایا گیا۔ وہ آئے، ڈنڈا دیکھا تو بھڑک اٹھے،
“اوئے کھوتیو…! یہ کس جاہل نے اتنا لمبا ڈنڈا رکھ دیا؟ ہم تو صرف ڈنڈا ہمیشہ تین فٹ کا رکھتے تھے اور تم نے سات فٹ کا بنا دیا…!”
فوراً ڈنڈا کاٹ کر اور تراش کر تین فٹ کر دیا گیا اور واپس دسترخوان پر رکھ دیا لیکن ڈنڈا رکھنے کی وجہ نہیں بتائی،
مہمان کے چہرے پر اب بھی خوف تھا۔ اس نے سوچا،
“پہلے تو بھاری ڈنڈا تھا، شاید مارتے وقت احتیاط کرتے لیکن یہ ڈنڈا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دے گا!”
وہ ایک بار پھر ضد پر اڑ گیا کہ ڈنڈے کی حقیقت پتا چلے گی تب ہی کھانا کھاؤں گا۔
گاؤں والے مہمان کی ناراضگی سے ڈر گئے اور دوڑے کسی ضعیف بزرگ کی تلاش میں۔ کافی تلاش کے بعد نوّے برس کے ایک اور بزرگ کو لایا گیا۔ جن کے کانوں میں اونچا بولنا پڑتا تھا۔ انہوں نے ڈنڈا دیکھا اور غصے سے کانپتے ہوئے بولے،
“اوئے بیوقوفو…! ہم دسترخوان پر ڈنڈا نہیں بلکہ چھڑی رکھتے ہیں… اتنی کہ ہاتھ میں سما جائے۔ شاباش اسے اٹھاؤ اور یہاں ایک لچکدار چھری لا کر رکھو۔ ”
ڈنڈا وہاں سے ہٹا کر ایک لچکدار چھری رکھ دی گئی
مہمان کو اب غصہ آنے لگا تھا کہ کوئی یہ تو بتاتا نہیں یہ رکھی کیوں ہے اور بس سائز چھوٹا کر دیتے ہیں۔ اگر لچکدار چھری کی مار پڑی، اپنی تو چمڑی بھی ادھڑ جائے گی۔ اس نے غصے سے چلا کر پوچھا،
“اوئے بھائی…! خدا کا واسطہ صرف اتنا بتا دو، آخر کھانے کے ساتھ چھڑی رکھنے کی منطق کیا ہے؟”
گاؤں والوں نے کہا،
“یہ تو ہمیں بھی نہیں پتا کہ یہ کیوں رکھتے ہیں، خیر ساتھ والے گاؤں میں بھی یہی رواج ہے، وہاں سے ہم کسی بڑی عمر کے بزرگ کو لاتے ہیں، شاید وہ بتا دے۔
وہ دوسرے گاؤں سے ڈولی میں ایک سو تیس سالہ بوڑھے بزرگ کو لے کر آئے اور اسے مہمان کے سوال کا بتایا،
انہوں نے چھڑی پر ایک نظر ڈالی اور فوراً ڈانٹ کر بولے،
“یہ سب جہالت(بدعت، اضافت) ہے…! اصل رواہت تو یہ ہے کہ مہمان کے سامنے پیالی میں ایک باریک تنکا رکھا جائے، تاکہ اگر گوشت کا کوئی ریشہ دانتوں میں پھنس جائے تو وہ آرام سے نکال سکے۔ تم لوگوں نے یہ کیا ظلم کیا کہ تیلی کو چھری، پھر ڈنڈا اور پتا نہیں کیا بنا دیا۔”
اب جا کے مہمان کی جان میں جان آئی۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا،
“ارے بھائیو…! میں تو ڈنڈے کو دیکھ کے سوچ رہا تھا کہ کھانے کے بعد میرا ہڈی گوشت الگ کر دو گے۔”
پھر اس نے سکون سے پیٹ بھر کے کھانا کھایا، ڈکار ماری اور ہنستے مسکراتے شکریہ ادا کر کے گاؤں سے رخصت ہو گیا۔
سبق یہ ہے کہ
جب ایک بات نکلتی ہے تو آگے بڑھتے بڑھتے اپنی اصل شکل ہی بدل لیتی ہے۔
ایسے ہی بدعت کی مثال ہے کہ اس میں اضافہ کرتے کرتے اصل احکام کی صورت ہی بدل دی جاتی ہے۔ تحقیق کرنے والوں کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ کیا تم ہمارے بزرگوں سے زیادہ جانتے ہو۔ حالانکہ جو بدعات رائج الوقت ہیں، ایسا کام تو بزرگوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ ان کی تعلیمات تو کوئی پڑھتا نہیں۔ بس سنی سنائی پر چلتے ہوئے نئی نئی بدعات شامل کر دیتے ہیں۔

Recent Comments