THANKS

ڈاکٹر شہزاد بسراء
نوجوان خوبصورت مریضہ شرم سے جھینپ گئی۔
’’تھینکس‘‘ ڈاکٹر نوید نے نوجوان مریضہ کی بھر پور ستائش کے جواب میں جلدی سے کہا تاکہ یہ چلی جائے اور اگلے مریض کی باری آئے۔ باہر حسبِ معمول مریضوں کا رش تھا۔ مگر نوجوان مریضہ شرم سے دوہری ہوگئی اور ایک ادا سے بولی ’’سچی‘‘ اور بھاگ گئی۔
ڈاکٹر نوید حیران پریشان ہوگیا کہ یا الہیٰ یہ کیا ماجرا۔ ایسی کیا بات ہوگئی! ڈاکٹر نوید ایک ادھیڑ عمر کا وجیح اور علاقے کا مشہور ڈاکٹر تھا۔ اللہ نے اُس کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی اوروہ زیادہ لالچی بھی نہیں تھا۔ فیس بھی مناسب تھی، خوش اخلاق اور مستحق مریضوں کا علاج بھی مفت کرتا تھا اسی لیے اس کے کلینک میں رش رہتا تھا۔
کچھ دن پیشتر سحر نامی ایک خوبصورت لڑکی آدھے سر کے شدید درد میں کراہتی ہوئی کلینک آئی ساتھ میں غالباًََ اُس کی والدہ تھی۔ لڑکی سے درد کی شدت سے بولا بھی نہیں جارہا تھا اور وہ بہت نڈھال تھی۔ ڈاکٹر نوید نے فوراََ ایک انجکشن لگایا اور کچھ ادویات تجویز کیں۔ آج سحر بالکل صحت منداور فریش لگ رہی تھی اور ایک گھنٹا اپنی باری کے انتظار کے بعد اندر آئی اور اپنی کیفیت بتائی ۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ماشااللہ آپ اب بالکل ٹھیک ہیں جب بھی ضرورت پڑے یہی گولیاں استعمال کرلیا کریں۔ سحر نے ڈاکٹر صاحب کی تعریف کی اور بہت عقیدت سے کہا کہ’’ آپ بہت اچھے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں شفا ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے مسکراکر کہا’’تھینکس‘‘
اور سحر شرم اور خوشی سے دوہری ہوگئی اور بولی ’’سچی‘‘ اور بھاگ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب کا سارا دن کلینک میں ’’دل ‘‘ نہ لگا اور بار بار سحر کا وہ الھڑپن، خوبصورت انداز ذہن میں آتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کو اُس دن کئی دفعہ مریضوں کے لیے نسخہ کاٹ کاٹ کر دوبارہ لکھنا پڑا۔ رات کو نیند بھی ٹھیک سے نہ آئی اور لفظ تھینکس، سچی اور سحر کا شرمانا سوتے جاگتے دماغ میں چلتے رہے۔
شاید15 سالہ پریکٹس میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹر نوید اُلٹے بلیڈ سے شیو کر کے آئے اور کسی خاص مریض کی آمد کے منتظر رہے۔ کلینک کے عملے کو بھی ڈانٹ دیا کہ دیکھو کلینک کی صفائی کتنی خراب حالت ہے۔ شام تک نیا کارپٹ اور پردے لگوانے کا حکم ہوگیا اور اپنے لیے نئے ملبوسات بھی آگئے۔
اگلے دن اچانک دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب خوشی سے جھوم اُٹھے۔ سحر شرماتی لجاتی مسکراتی آئی اور سلام کر کے بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر نوید نے ہکلاتے ہوئے پوچھا
’’کیسی ہیں آپ اور دوبارہ سردرد تو نہیں ہوا؟‘‘
سحر نے شرماتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہوں مگر آپ کا نسخہ کہیںگم گیا ہے دوبارہ لکھ دیں‘‘ لگتا تو بہانہ ہی تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ لکھا اور کہا کہ فیس کی ضرورت نہیں۔ سحر نے اردگرد دیکھا تو کلینک کا عملہ اردگرد ہی تھااور کھڑکی کے شیشے سے بھی باہر مریض نظر آرہے تھے۔
سحر بولی’’ڈاکٹر صاحب آپ نے Thanks دل سے بولا تھا ناں اورکیا آپ کو Thanksکے معنی بھی آتے ہیں ؟ڈاکٹر صاحب نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا جی بالکل دل سے ہی کہا تھا اور معنی بھی آتے ہیں۔
پھر میری طرف سے بھی Thanks اوریہ کہہ کر سحر شرماکر بھاگ گئی۔
ڈاکٹر نوید پہلے دن سے بھی زیادہ اچنبھے اور خوشی کی حالت میں تھے۔ کیا سحر اُن کی محبت میں مبتلا ہوگئی ہے یا یہ لفظ Thanks کا کوئی مسئلہ– بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات کہ Thanks کے معنی بھی آتے ہیں ناں!ایک عام سا لفظ ہے، لگتا ہے کہ لڑکی واقعی متاثر ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اب شدید افسوس ہورہا تھا کہ سحر کا فون نمبر کیوں نہ لیا اور نہ دیا۔ نہ تو اتنی ہمت ہوئی اور نہ ہی کوئی موقع ملا۔ چلولگن سچی ہوئی تو پھر آئے گی۔ 2-3 دن قیامت کے انتظار میں گزرے، سحر نہ آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس دوران نیا کارپٹ ، پردے، فرنیچر پالش بھی کروالی اور کلینک کی صورت حال کافی بہتر ہوگئی۔ آخر تیسرے دن شام کے قریب سحر آئی مگر یہ کیا اُس کے ساتھ اُس کی والدہ بھی موجود۔ اِس ظالم سماج کی موجودگی میں دل کی بات کیسے ہو۔ سحر اِس دوران شرماتی لمباتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب نے بہانے سے سحر کی طبیعت بھی پوچھ لی اور امی جان کے نسخہ کے اوپر اپنا فون نمبر بھی لکھ دیا کہ اگر ضرورت پڑے تو کال کر کے مشورہ کرلیا کریں۔
جاتے ہوئے سحر نے ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا پھینکا۔ ڈاکٹر صاحب اُن کے جاتے ہی جلدی سے اُٹھے اور لپک کر وہ ٹکڑا اُٹھایا۔ جلدی میں گھٹنا میز سے ٹکرایا اور چوٹ لگوابیٹھے۔ شور سُن کر کمپائوڈر بھاگا آیا جِسے بہانہ کر کے بھیج دیا۔ مریضوںکا رش تھا اور ڈاکٹر صاحب فری ٹائم میں وہ محبت نامہ دیکھنا چاہتے تھے۔ جونہی فرصت ملی پرچی کھولی اور فون نمبر کی امید میں تھے مگر وہاں ایک لفظ تحریر تھا
’’Thanks‘‘
ڈاکٹر صاحب پھر حیرت میں ڈوب گئے کہ محبت کوئی شکریے کا نام تو نہیں کہ ہر بات پر شکریہ ادا کیا جائے۔
رات گئے ڈاکٹر صاحب کو ایک میسج آیا
’’Sehar is here‘‘
ڈاکٹر صاحب کے خوشی سے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ فوراََ جواب دیا مگر ساتھ ہی کلینک آنے کا کہا۔ جواب میں یہ Text آیا کہ آپ کے کلینک میں رش بہت ہوتا ہے اور کسی ٹائم پرائیویسی بھی نہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کے لیے یہ ایک نئی مصیبت تھی کہ کلینک میں اُن کے آنے سے پہلے عملہ آجاتا تھا اور پھر مریضوں کا رش اور عملہ اُن کے جانے کے بعد ہی جاتا۔ پرائیویسی کہاں ممکن۔سارا دن سوچ بچار کے بعد کھڑکی پہ بھی پردہ لگوادیا کہ باہر سے نظر نہ پڑے اور عملہ کو بھی کہہ دیا کہ جب تک گھنٹی نہ بجائوں اندر نہ آیا کرو۔ سحرکو صبح 9:00 کا ٹائم بتایا کہ جب مریض قدرے کم ہوں۔ ڈاکٹر صاحب معمول میں9:30 سے 10:00 بجے کلینک آیا کرتے تھے مگر اگلے دن8:30 بجے ہی پہنچ گئے۔ حیرت یہ ہوئی کہ 9:00 سے پہلے ہی مریض آنا شروع ہوگئے۔ ایک خاتون مریض کو رخصت کیا تو اُس نے ڈاکٹر صاحب کو دُعائیں دیں۔ ڈاکٹر نوید کے مُنہ سے Thanks نکلا اور عین اُسی وقت دروازہ کھلا اور سحر آگئی ۔ ڈاکٹر صاحب کی خوشی دیدنی تھی مگر دوسری طرف حالات اور مزاج آگ بگولا تھے۔ سحر کی آنکھوں میں چنگاریاں اور مُنہ غصے سے لال تھا۔ وہ غراکر بولی آپ نے اِس خاتون کو کیا بولا’’Thanks‘‘؟؟
ڈاکٹر نوید نے تھوک نگلتے ہوئے حیرت زدہ ہوکر کہا کہ ہاں Thanks بولا۔
ڈاکٹر نوید کے جسم میں خون منجمد ہوچکا تھا کہ یا الہیٰ یہ کیا ماجرہ ہے! ’’ ہاں شاید‘‘ مگر معاملہ کیا ہے؟‘‘
سحر بولی آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ آپ سے پوچھا تھا کہ اس کے معنی آتے ہیں۔ آپ نے کہا اچھی طرح سے آتے ہیں۔ پھر یہ بھی پوچھا کہ دل سےThanks کہا ہے ناں؟
آپ نے کہا ہاں۔۔
’’پھر دل سے تو صرف ایک کو کہا جاتا ہے۔ آپ نے مجھ سے دھوکا کیا، میرے جذبات سے کھیلے۔ ابھی میں نے خود سنا اُس خاتون کو بھی کہا۔‘‘
صاحبو بات صرف گالی گلوچ تک ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے اور ڈاکٹر صاحب کے عملے کو ڈاکٹر صاحب کو فوری طور پر ہسپتال نہ لے جانا پڑتا اور ماتھے پر پیپر ویٹ لگنے سے 6 ٹانکے نہ لگوانے پڑتے۔
ڈاکٹرنوید اس واقعہ کے بعد غلطی سے بھی مُنہ سے Thanks نہیں کہتے اور ابھی تک حیرت زدہ ہے کہ آخرہوا کیا ہے!
بیچارے ڈاکٹر صاحب کو کیا خبر کہ نوجوان نسل نے Thanks کو ایک کوڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے جس کا مطلب ہے :
Ten hugs and nine kisses (Thanks)

اپنا تبصرہ لکھیں