“جہاں دکان چمکے، وہاں اخلاق بجھ جائے”

“جہاں دکان چمکے، وہاں اخلاق بجھ جائے”

چھوٹے شہروں میں کسی کی برفی مشہور ہوجائے،کسی موچی کی ٹوٹے جوتے کو نئے جیسا بنانے میں شہرت ھو قصائی کی گوشت کی دکان بہت چلتی ھو ، یا کہیں نان چنوں کیلئے لوگ لائنوں میں لگے ہوئے ہوں ۔
یہ سب دکانیں گوکہ مختلف ہوتی ہیں ۔مگر ایک چیزیں ان سب میں مشترک ہوتی ہیں ۔
اچھی سیل اور ان دکانداروں کا گاہکوں کے ساتھ بدتمیز رویہ ۔
مذکورہ موچی کی دکان کے بالکل سامنے بھی اگر آپ کا جوتا ٹوٹ جائے وہ آپ کو کل کاٹائم دے گا ۔آپ ترلہ منت کرلیں
“جناب لاہور سے آیا ہوں ابھی کردیں ۔”
نہیں کرے گا بلکہ انتہائی نخوت سے بتائے گا
“اگلے چوک میں مینے موچی کی دکان ھے ۔وہ ویہلا ہوگا اس سے مرمت کروالو ”
اسی طرح چھوٹے قصبے کے قصائی سے کلو گوشت لینے جائیں تو وہ دس، دس کلو والے گاہکوں کو روک کر آپ کو یوں سوالیہ نگاہ سے دیکھتا یے جیسے پوچھ رہا ہو ۔
“توں کدھر “؟
جب آپ کے کلو گوشت کے ساتھ آدھ کلو چھیچھڑے اکٹھے کرکے تولنے لگے اور آپ اسے ٹوک دیں تو چھیچھڑے بھی نہیں دے گا ۔بلکہ اکڑ کر کہے گا
” موڑ مڑتے ہی فیقے قصائی سے لے لیں ۔میرا سارا بکا ہوا ھے ۔”
میرے قصبے کا وہ ڈاکٹر بھی ایسا ہی ہے۔ جوانی میں جب ہم دنیا گھوم رہے تھے اس نے اینٹ پہ بیٹھ کر ایسی رٹا بازی کی کہ ْڈاکٹری کی ڈگری بعد میں چھپی ،پہلے اس کے پچھواڑے “خشت اول ” کا مارکہ چھپ گیا
غریب گھر کا تھا ، خواہشیں زیادہ تھیں ۔ڈاکٹر بنا تو فجر پڑھ کر کلینک پہ بیٹھتا اور اگلے دن تہجد کو بھی مریض گھر جاکر دیکھ آتا ۔
پانچ چھ سال میں ہی نئے گھر کلینک اور گاّڑی تک جا پہنچا ۔
اس کے ہاتھوں میں شفاء اللہ کی دین تھی اور بدتمیزی اس کے احساس کمتری کا اظہار ۔
ہماری اس کی دوستی بمشکل سال بھر چلی، وہ دوستی میں عزت چاہتا تھا اور ہم یاروں کیلئے جان دینے کو تو تیار تھے،پر عزت نہیں ۔
نیک نامی اس بیچارے کی کاروباری مجبوری تھی، وہ سارے پٹھے کام چھپ کر کرنا چاہتا تھا۔اور یہ صرف اسی کے دھندے میں ممکن تھا۔ہمارے گروہ میں نہیں ۔لہذا پندرہ بیس سال نہ ہم بیمار ہوئے نہ ملاقات ہوئی ۔
چار سال پہلے میں اسلام آباد میں تھا ۔امی جان میرے بھائیوں کے ساتھ رہتی تھیں ۔
بھائی انہیں چیک اپ کروانے اسی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ۔
ماں جی کو اس کے علاج سے کافی افاقہ تھا ۔
ڈاکٹر صاحب اب نری نوٹ چھاپنے کی مشین بن چکے تھے ۔اور دماغ مزید خراب ہوچکا تھا ۔اب پرہیز اور علاج کے نام پہ مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والوں پہ چڑھ دوڑنا ان کا معمول تھا ۔
اسلام آباد سے گھر آیا تو ماں جی کا ہفتہ وار چیک اپ تھا ۔میں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ میں امی جان کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں ۔
وہ بھی ڈاکٹر کے روئیے اور مریضوں کے رش سے تنگ تھے ۔گھنٹہ دو گھنٹے بیٹھنے کے بعد باری آتی ۔لہذا ان کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ۔
میں ماں جی کو لیکر ڈاکٹر کے ہسپتال نما کلینک جا پہنچا ۔ابھی والدہ کو اندر لیجانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکا گاڑی کے پاس وہیل چئیر لے کر آگیا ۔پھر بجائے انتظار گاہ میں بٹھانے اور پرچی بنوانے کے والدہ کو سیدھا ڈاکٹر کے پاس ہی لے گیا ۔ڈاکٹر مجھے کرسی سے اٹھ کر ملا، حال چال، چائے پانی کاپوچھا ۔والدہ کے معائنے کے دوران سامنے لگی ایل سی ڈی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ
“میں نے تمہیں سی سی ٹی وی پہ دیکھ لیا تھا ۔اسی لئے لڑکے کو وہیل چئیر دے کر بھیجا تھا ۔”
چیک اپ کے بعد باہر آکر جب ریسپشن پہ فیس دینا چاہی تو کاؤنٹر والوں نے لینے سے انکار کر دیا، کہنے لگے ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ھے ۔
کلینک سے نکل کر گھر کی طرف آتے ہوئے ماں جی کہنے لگیں ۔”پتر سلیم ایک بات کہوں ؟ ڈاکٹر بہت وڈی کُھچ اے ”
میں نے حیران ہوکر انہیں دیکھا
” ماں جی آپ نے کیسے اندازہ لگایا ”
کہنے لگیں “پتر تیرے بھائی کاروباری شریف آدمی ہیں داڑھیوں والے، مسجد کے منتظم، یہ ان سے کبھی عزت اور تکریم سے پیش نہیں آتا، اور تو اور ہر مریض کو پنجے جھاڑ کر شروع ہوجاتا ھے ۔مگر کاکا ۔
تمہاری اپنے پیر کی طرح عزت کر رہا تھا ۔اس سے میں نے حساب لگایا کہ
” اے ڈاکٹر وی چول ای اے

اپنا تبصرہ لکھیں