خوفِ خدا کا انمول سبق: پارکنگ اٹینڈنٹ کا ایمان

کل جب میں ہسبینڈ کے ساتھ کسی کام سے بائیک پر گئی تو بائیک پارکنگ سٹیند میں بلڈنگ کے باہر پارک کر دی ۔
کام کر کے واپس لوٹے تو جو بندہ پارکنگ کا نگران تھا اس کو پرچی دکھائی پارکنگ کی تو کہنے لگا …..تیس روپے دیں دیں پارکنگ کی فیس میرے ہسبینڈ کے پاس پچاس کا نوٹ تھا وہی پکڑا
؟دیا کہنے لگا بھائی کھلے نہیں آپ کے پاس
اب کھلے نہ میرے پاس نہ ان کے پاس
ہسبینڈ نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ رکھ لیں تو کہنے لگا نہیں بھائی میں ایسے تو نہیں رکھتا اگر آپ یہاں آنے جانے والے ہیں تو آپ آئندہ پارکنگ کی فیس تیس کے بجائے دس روپے دے دینا کیونکہ بیس روپے آپکے آگئے میرے پاس…
میرے ہسبینڈ نے کہا چلو ایسے بھی ٹھیک ہے اور بائیک سٹارٹ کر دی
جیسے ہی ہم چلنے لگے وہ آدمی پھر دوڑ کر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا
بھائی آپ سے بات یہ کرنی تھی کہ آئندہ آپ کبھی یہاں آئیں اور بالفرض میں آپ کو نہ ملو مطلب میری ڈیوٹی یہاں پر نہ ہو تو کیا بیس روپے آپ مجھے معاف کر دیں گیں؟
میرے ہسبینڈ نے کہا کہ بھائی بیس روپے کی تو بات ہے آپ رکھ لو اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو کہنے لگا بھائی بات بیس روپے کی نہیں اس قول کی ہے کہ آئندہ آپ کے پیسے ایڈجسٹ ہو جائیں گیں لیکن اگر میں یہ نہ نبھا سکا تو قیامت کے دن مجھے مت پکڑنا کہ اس کے ذمے بیس روپے ہیں۔
میرے ہسبینڈ مسکرانے لگے تو کہنے لگا کہ بھائی آپ اپنے منہ سے کہہ دیں کہ اگر آپ کے پیسے میرے ذمے رہ گئے تو قیامت کے دن مجھے معاف کر دیں گیں ۔
تو وہ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے بھائی اگر رہ گئے تو میں نے معاف کئے اور آپ اس کے جوابدہ نہیں ۔
اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور ہم وہاں سے چل دئیے ۔
اور
پھر میں نے سامنے کے ۔ ایف۔ سی کی بلڈنگ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف کھانا انجوائے کرتے ان تمام افراد کے بارے میں سوچا کہ کیا ان تمام میں سے کسی کے دل میں بھی اتنا خوف خداموجود ہو گا جتنا اس پارکنگ پر کھڑے غریب شخص کے دل میں ہے ۔
اور پھر
میری توجہ شہر کے پوش ایریا کی ٹوٹی سڑک کی طرف گئی کہ جس کی حالت کئی سالوں سے نہ بدلی اور سڑک کے ٹھیکیدار نے ہو سکتا ہے کہ کتنے پیسوں کا غبن کیا ہو اور اپنی زندگی مزے سے گزار رہا ہو۔
بس اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا باقی نہ رہا یا
پھر ہم مرنا بھول گئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں