بھابھی منگولیا

محلے میں ایک نئی جواں سال فیملی کیا آئی، آئے روز ہی تماشے لگنے لگے، دو افراد پر مشتمل چنگیزی گھرانے میں دونوں میاں بیوی ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔۔
لڑائی کیلئے کسی معقول بہانے کا انتظار کئے بغیر ہی جنگ چھیڑ دیتے تھے اور تھک ہار کر بس کرتے تھے…
ان کی چیخ و پکار میں سے موٹی موٹی باتیں جو ہمیں سمجھ آئیں۔۔ ان میں سب سے اہم ان کی لو میریج تھی، دوسرا اس آدمی نے خاتون کے بقول شادی سے پہلے اسے کافی سبز باغ دکھائے تھے جو بعد میں دھنیے اور پودینے کے باغ ثابت ہوئے، تیسری بات اس بندے کی تعلیم اور آمدنی سبز باغ والے دنوں میں فراہم کردہ معلومات کے مقابلے میں شرمندگی کی حد تک کم تھی…
آدمی کے گلے شکوے بھی اپنی جگہ پتھر پر لکیر کی مانند تھے۔ جن میں سب سے گہری لکیر اس خاتون کا اس بھولے بھالے آدمی کو پھانسنا تھا، دوسرا کورٹ میرج پر اکسا کر گھر والوں سے دور کرنا تھا، تیسری بات کوئی چکر وکر کی ہوتی تھی جس کی ہمیں کبھی سمجھ نہ آئی۔۔
شروع میں تو لڑائی گھر کے اندر تک محدود ہوتی تھی جو بعد میں گلی تک پھیل گئی۔ ہم محلے کے لڑکوں نے ان لوگوں کے مزاج کے حساب سے آدمی کا نام چنگیز خان اور خاتون کا نام بھابھی منگولیا رکھا ہوا تھا۔۔
محلے والوں کے ساتھ دونوں کا عمومی برتاو کافی اچھا تھا، لیکن آپس میں جانی دشمنوں والا سلوک کرتے تھے…
میں خاتون کو باجی کہہ کر بلاتا تھا جبکہ اس کے میاں کو نام سے پکارتا تھا۔ مجھے اس سارے معاملے میں بندہ زیادہ قصور وار لگتا تھا سو میری ہمدردیاں بھابھی منگولیا کے ساتھ تھیں۔۔ جبکہ سیفی اور شوکی کا خیال تھا بھابھی منگولیا قصور وار ہے کیونکہ لڑائی وہ شروع کرتی تھی۔۔
محلے کے بڑے بزرگ سمجھتے تھے کہ دونوں ہی بدزبان ہیں اور خام تربیت کے باعث بگڑے ہوئے ہیں۔۔
ایک دن حسب معمول شام کے وقت دونوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی، یوں لگتا تھا جیسے آج یا تو بھابھی منگولیا بیوہ ہونے والی تھی یا چنگیز خان رنڈوا۔۔۔
محلے والوں کی پریشانی بھانپتے ہوئے ہم تینوں دوستوں نے طے شدہ پلان کے مطابق معاملے میں کودنے کا فیصلہ کر لیا، گھر کا دروازہ کھلا تھا اور باہر سے لڑائی کے مناظر براہ راست دیکھے جا سکتے تھے..
دروازے کے سامنے پہنچ کر ہم تینوں دوست آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور چنگیزی فیملی سے زیادہ کھپ رولا ڈالنے لگے۔ ہمیں اپنے دروازے کے آگے لڑتا دیکھ کر دونوں نے عارضی جنگ بندی کی اور باہر آ گئے۔ ان کو باہر آتا دیکھ کر شوکی نے میری شرٹ پھاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔ “دیکھو تم اس عورت کو باجی بولتے ہو نا، یہی سارے فساد کی جڑ ہے، اس معصوم بندے کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اس نے”…
میں نے شرٹ چھڑواتے ہوئے شوکی کے کندھے پر زور سے مکا مارتے ہوئے کہا۔۔ “ہاں بولتا ہوں اسے باجی، اس منحوس جھوٹے انسان نے اس کو بدزبانی پر مجبور کیا ہوا ہے، آج میں اس کو چھوڑوں گا نہیں، یہ دھرتی کا بوجھ دھرتی کے اندر نہ گاڑ دیا تو عین حیدر نام نہیں”۔۔
سیفی نے ہم دونوں کے بیچ میں آ کر ہمیں علیحدہ کیا اور بولا “یہ معاملہ بیٹھ کر اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کا ہے، شرفاء کا یہ چلن نہیں ہوتا کہ گلیوں میں ایسے معاملے نمٹاتے پھریں”۔۔۔
پھر سیفی نے انہیں بتایا کہ ہم لوگ کیسے ان دونوں کیلئے فکر مند رہتے ہیں اور آج معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے آئے ہیں۔۔
وہ دونوں بادل نخواستہ ہمیں گھر کے اندر لے گئے۔ بھابھی منگولیا ہمارے لئے پانی لے آئی اور سامنے چاپائی پر اپنے میاں کے ساتھ بیٹھ گئی..
میں نے چنگیز خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ابھی اور اسی وقت اپنی بیوی کو طلاق دے دو، تم اس کے قابل ہی نہیں ہو۔۔ شوکی بھی اونچی اواز میں بولا “ہاں بھائی اس عورت کو طلاق دے کر فارغ کرو۔ روز کی چخ چخ سے جان چھڑاو”…
دونوں میاں بیوی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہیں۔ اتنے میں سیفی نے بھی کہہ دیا کہ آپ دونوں کا گزارہ مشکل ہے لہذا محلے میں مزید تماشا لگانے کی بجائے ابھی اور اسی وقت علیحدگی کا اعلان کرو۔۔
بھابھی منگولیا بولی.. “ہماری تو محبت کی شادی ھے طلاق کا کلنک کیسے لگوا لوں، تم لوگ کیسی باتیں کر رہے ہو”۔۔۔
چنگیز خان بولا۔۔ “یہ ٹھیک ہے کہ ہم دونوں مزاج کے تھوڑے تیز ہیں لیکن ہم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں”..
میں نے کہا۔۔ “جب سے آپ لوگ اس محلے میں آئے ہو ہر وقت ٹام اینڈ جیری کی طرح لڑتے رہتے ہو، یہ کون سا طریقہ ہے”۔۔۔
دونوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ چنگیز خان بولا “بھائی اصل میں ہم دونوں نے کچھ جلد بازی اور کچھ ضد میں آ کر کورٹ میرج کر لی تھی، تھوڑا انتظار کرتے تو شاید دونوں کے گھر والوں نے راضی ہو جانا تھا۔ ہمارے فیصلے کی وجہ سے دونوں گھرانوں میں نفرت پیدا ہو گئی اور سب نے ہم سے قطع تعلق کر لیا”…
بھابھی منگولیا بولی۔۔ “بس ہماری اسی غلطی کی خلش ہی ہمیں لڑائے رکھتی ہے، آج آپ لوگوں نے جس طرح اپنا بن کر ہمیں ہماری غلطی کا احساس دلایا ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ نہیں لڑیں گے”۔۔
شوکی بولا “بھابھی اگر تم نے لڑائی شروع کی تو میں نے تمھارے اس بھائی کے دانت توڑ دینے ہیں”۔۔۔
شوکی کا اشارہ میرے دانتوں کی طرف تھا۔ میں نے کہا.. “شوکی، اگر تیرے بھائی نے لڑائی شروع کی تو میں تیرے ساتھ ساتھ اس کے بھی دانت توڑ دوں گا”۔۔۔
بھابھی منگولیا نے چنگیز خان کی طرف دیکھ کر اشارے سے پوچھا کہ کیا خیال ہے، چنگیز خان نے ہنس کر کہا۔۔ “مجھے اپنے دانتوں کی اتنی فکر نہیں، لیکن شوکی کے دانتوں کی سلامتی کیلئے آج سے لڑائی ختم شد“۔۔۔
اس کی بات پر ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
اس دن کے بعد سے محلے میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔

بھابھی منگولیا“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں