خزاں کے بعد

لڑکا Jeff اگے بڑھا مجھے آہستہ سے ہائی کہا اور ایک عورت کے کان میں کھسر پھسر کی – وہ آگے آئی اور مجھے تابوت کے پاس لے گئی آئی لن ویسے لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے اس دِن چرچ سے واپسی پر دیکھا تھا اور وہی سرخ چمکدار بلوز پہنا تھا بلکل تیار ،مک اپ کیا ہوا، بال سامنے سے بنے ہوئی ،چہرے پر ہلکا جالی کا سیاہ نقاب — – عورت

امریکی یونورسٹی سے نارویجن ادبی شخصیت جمشید مسرور کا اعزاز

اس علاقے میں موجود پاکستانی اور انڈین کمیونٹی پر جب یہ انکشاف ہوا کہ اردو کے مشہور شاعر انکے شہر میں موجود ہیں شائقین نے صرف پانچ گھنٹوں میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔جمشید مسرور کے مداحوں نے ادبی محفلوں کے شائقین میں تقریب کے پمفلٹس تقسیم کیے۔ پانچ گھنٹوں کی قلیل مدت میں دنیا کے مصروف ترین ملک میں اردو مشاعرے کے لیے لوگ اکٹھے

فیس بک اور چہرے

قرار دیا جاتا ہے -لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں ہزارہا مثبت مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں اپنے کاروبار اور مشن کو پھیلانے کے لئے بہترین زریعہ ھے- وہیں لاکھوں اسے منفی مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں حتی کہ صدر اوبا ما کو بھی خبردار کرنا پڑا کہ فیس بوک پر تصویر ڈالتے ہوے احتیاط لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ انتباہ

ویلنتائن ڈے کیا ہےـ

یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں،

یہ ادب نہیں فحاشی ہے

جنوری کی تاریخ سے لیکر تاریخ تک جئے پور میں جو ادبی سیمینار منعقد ہوا یہ در اصل شیطانی قبیلے والوں کا میلہ تھا جہاں کثرت سے ایسی ناولوں اور کتابوں کے اقتباسات پڑھے گئے یا مصنفین نے اپنی کتابوں کے تعلق سے گفتگو کی ،جس میں یا تو خدا کے انکار پر بحث کی گئی تھی یا پھر گفتگو کا سارا دائرہ بنت حوا کی آزادی اور عریانیت کے گرد گھومتا رہا ہے کہ کس طرح نکاح ،طلاق،پردہ اور حجاب کے نام پر عورت کی خودداری پر حملہ کیا جارہا ہے۔

ڈنمارک میں کینیڈا کے معروف شاعر تسلیم الٰہی ذلفی کے اعزاز میں تقریب

محترم سامعین! میں جو اپنی انا کا سربلند رکھنے میں بہت مشہور سمجھا جاتا ہوں اور بیباکی جس کا شیوہ ہے، آج تسلیم الہی
زلفی کی علمی و ادبی شخصیت پر کچھ کہنے میں اپنے آپ کو بے بس و ناتواں محسوس کر رہا ہوں ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ زلفی کے کس ادبی رخ پر بات کروں اور ان کے فن کے کس پہلو کا احاطہ کروں ۔ یہ وہ شش جہت ہیرہ ہیں جنہیں نہ کسی

اردودان انگریز رالف رسل

یہ درست ہے کہ رالف رسل کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزوں نے اردو کو قابلِ توجہ سمجھا بلکہ بعض نے تو اردو میں شاعری تک کی اور حقہ پی پی کر شعر کہے، لیکن یہ عام طور پر اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز اور اسکی انگریزی نے ابھی ہمیں اپنے دام میں گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہمارا اپنا تشخص برقرار تھا اور ہمیں اس پر ناز بھی تھا۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا