۔جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ اس کی کرائی شادی کو بھی توڑ سکتا تھا ۔زمانہ ما بعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہو گیا اور اب اسکے اختیارات
اس کیٹا گری میں 528 خبریں موجود ہیں
میںنے دنیا میں دیکھا کہ ہر کوئی دوسرے کا دشمن بنا پھرتا ہے۔ مرنے مارنے کو دوڑتا ہے اور دنگا فساد کرتا ہے۔ پھر میںنے قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ” یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسکو اپنا دشمن سمجھو” اسکے بعدمیں نے صرف شیطان کو ہی اپنا اصل دشمن سمجھ لیا اور انسانوں سے لڑنا بند کر دیا اب شیطان ہی سے مجھے عداوت ہے اور میں اسی سے اپنے بچائو کا پورا بندوبست رکھتاہوں اب کسی اور سے میری کوئی عداوت نہیں ہے او رمیں امن سے ہوں۔
بد عمل سے جو تم کو ایک نوالے کے بدلے بیچ دالے گا اور اس سے کمتر کی طرح سمجھے گا
خدا کو تلاش کرو
یہ چو نکہ ا پ کی اکلو تی اولا د تھی اس لیے آپ حضرت اسما عیل سے بے حد محبت کر تے تھے ہر وقت انھیںساتھ لیے پھرتے انھیںایک پل کے لیے بھی اپنی نظروں سے او جھل نہ ہو نے دیتے تھے خدا کو ان کا امتحان لینا مقصود ہو ا تو حکم ہوا کہ اپنے شیر خوار بچے اور اہلیہ کومکہ کے بیا باں صحرامیں چھو ڑ د و ” آپ کی فر شتہ صفت اہلیہ کو
حدیث شریف ہے کہ ہرشخص کو دن میں ایک سو مرتبہ استگفار کرنی چاہیے۔ںبی پاک ؤ نے فرمایا مگر میں دنیاوی مصروفیات ی وجہ سے استغفار ایک سومرتبہ نہیں پڑھ پاتا۔صبھاناللہ
نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو اسکے دماغ کی شریانوں کی طرف خون زیادہ ہو جاتا ہے۔جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا۔صرف سجدہ کی حالت میں دماغ اعصاب ،آنکھوں اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون متوازن ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے دماغ اور نگاہ بہت تیز
رسولۖ نے فرمایا۔ پیاس کی حالت میںپا نی کو گھو نٹ گھونٹ کر کے پیوایک دم سے ہر گز نہ پیو۔
رسولۖ نے فر ما یا۔کلو نجی ہر درد کی دوا ہے سواے موت کے کہ اسکی کو دوا نہیںہے۔
رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ایک ہمسایہ وہ ہے جس کا ایک حق ہوتا ہے اور وہ ہے کافرہمسایہ ۔اور دوسرا یک ہمسایہ وہ ہے جس کا دوہرا حق ہے اور وہ ہے مسلمان ہمسایہ ۔اور ایک ہمسایہ وہ ہوتا ہے جس کے حقوق تین گنا ہوتے ہیں اور وہ ہمسایہ ہے جو قرابت دار بھی ہوتا ہے ۔(کتب احادیث)