حضور غو ث اعظم رحمة اللہ علیہ کے علمی و تبلیغی کارنامے

چوتھی پانچویں صدی ہجری کا زمانہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے ۔جسے مسلمانوں کے انتہائی عروج ،خوشحالی اور سیاسی اقتدار و غلبے کا زمانہ کہنا چاہیے۔اس وقت جہانگیر ی جہانبانی ،فارغ البالی اور منفرد تہذیب وتمد ن کے اعتبار سے کرئہ ارض کی کوئی قوم مسلمانوں کی ہمسر نہ تھی ۔اقصائے عالم میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔بغداد ،عالم اسلام کا مرکز اعصاب اور علوم فنون کے اعتبار سے دنیا کے لئے پر کشش حیثیت اختیار کر چکا تھا۔جہاں مسلمان قوم ان بلندیوں کوچھو رہی تھی وہاں بیرونی نظریات وخیالات کی یلغار اس کے یقین واعتمادکی دیواریں بھی تیزی کے ساتھ کھوکھلی کر رہی تھی ۔یونانی علوم کی آمد فلسفیانہ موشگافیوں کی بھر مار اور اخوان الصفا کے پیدا کردہ شکوک وشبہات نے ثبات واستقلال کی دنیا میں ہلچل ڈال دی تھی ۔ضرروت تھی کہ قدرت اپنی فیاضی سے کوئی ایسی شخصیت پیدا کرے ۔

حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی

کرامات اولیاء حق:اسلامی عقائد میں یہ عقیدہ بھی از بس ضروری ہے کہ ولی اللہ کی کرامت حق ہے ۔اس کا انکار گمراہی اور بے دینی ہے اس لئے کہ ولی اللہ کی کرامت در اصل نبی علیہ السلام کی نبوت کی جھلک ہوتی ہے اور نبوت قدرت ایزدی کا عکس اس معنیٰ پر کرامت کا انکار در حقیقت قدرت ایزدی کا انکار ہے ۔
بالخصوص ہمارے نبی اکرم ۖ کی امت کے اولیاء کرام کی کرامات کا اقرار اس لئے از بس ضروری ہے کہ آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ۔آپ

رسول اعظم ۖہی ”محبوب اعظم ۖ ”ہیں

حضور نبی کریمۖ نے اُن کے لئے دُعا فرمائی۔ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دوبار پھل لاتا تھا اور اس میں ناز بوتھی جو کستوری کی خوشبو دیتی تھی۔ ان کے پاس حضور ۖ کا عصا تھا۔جب وفات پائی تو وصیت کی کہ میرے ساتھ اس کو دفن کیا جائے ۔حسبِ وصیت ان کے قمیص اورپہلو کے درمیان دفن کیا گیا۔

تعلیم رسول پاک کی ضیاپاشیاں

مرد ہو یا عورت اگر انہوں نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اللہ کی فرمانبرداری میں بسر کیے لیکن جب ان کی موت کا وقت آیا تو وصیت میں کسی کی حق تلفی کر کے اُسے نقصان پہنچایا تو دونوں دوزخ کے مستحق ہوں گے ۔”
حضور اکرم ۖ نے فرمایا:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَیِّی ئُ الْمَلْکَةِ۔”وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ما تحتوں پر بری طرح افسری کرے گا۔”

استقبال ماہ مقدس ربیع الاول کے موقع پر دعا

۔رسول اعظم ۖ کی ولادت سے کائنات میں نور توحید چمکا ۔گمراہی نے ڈیرے اٹھا لئے ۔ہدایت کے نہ بجھنے والے چراغ روشن ہوئے ۔اختلافات مٹ گئے ۔محبتیں تقسیم ہونے لگیں ۔دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور پیغمبر امن ۖ نے عالمی امن کے لئے لافانی دستور عطا فرمایا ۔ آج بھی قیام امن کے لئے محفل میلاد النبی ۖ کو گھر

مومن کا آئینہ

یہ کام آئینہ اپنے دیکھنے والے کوہی بتاتا ہے دوسرے کے روبرو چغلی نہیں کھاتا اور آئینہ اتنا عیب ونقص ہی بتاتا ہے جتنا دیکھنے والے کے چہرے مہرے میں ہوتا ہے اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی نہیں کرتا اور اس کے سامنے بیان کرتا ہے اس کی عدم موجودگی اور پیٹھ پیچھے نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک مومن کو اپنے مومن بھائی کے سامنے اس کے عیوب بیان

رشوت ستانی معاشرے کا ناسور حصہ اول

رشوت انسانی سوسائٹی کے لئے ایسا ناسور اور مہلک مرض ہے جو کینسرسے بھی زیادہ خطر ناک ہے ۔جو شخص اس کا شکار ہوتا ہے اس کو لقمہ جہنم بنا دیتی ہے۔ جب کہ کینسر کا مرض ایسا نہیں ،جب کسی معاشرہ میں رشوت کی بیماری عام ہوتی ہے تو وہ پہلی فرصت میں عدل و انصاف کا گلاگھونٹ کر حق کا خون کر دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ جو امن

سادگی وقت کی ضرورت

سواری میں سادگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے مرتبے کے مطابق سواری نہ لے بلکہ اپنے مقام و مرتبے کے مطابق سواری خرید ے مگر اتنی سواریاں نہ ہوں کہ جس سے خود پر یا ملک و ملت پر بوجھ پڑے ۔ اس پر نبی اکرم ۖ کا قولِ مبارک ہے جس کو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا کہ ایک سفر میں ہم حضور اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص اپنی سواری پر آیا ۔اس نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا