عید کا پانچواں روز اور کتابوں کا اتوار بازار

مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!

ناروے میں پاکستانی پس منظر رکھنے والی سیاستدان رائنا اسلم

۔انہوں نے دو سال تک ناروے کی روزگار مہیاء کرنے کی کمپنی میں کام کیا ۔غیر ملکیوں کو جاب دلوانے کے لیے وہ ایسے اداروں کا انتخاب کرتی تھیں جن میں غیر ملکی نہیں تھے۔وہ وہاں قابل غیر ملکیوں کو جاب دلواتی تھیں۔انکے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ

یوم دفاع کا بدلتا تصور تحریر احسان شیخ

لوگوں نے دیکھا کہ پل کے نیچے کھڑے ایک بزرگ گرنے والے بموں کو پکڑ پکڑ کر ایک طرف رکھ رہے تھے۔جب کہ پل اسی شان سے اپنی جگہ پر کھڑا دشمنوں کا منہ چڑا رہا تھا۔دشمن نے پاکستان کی سرحدوں پر کئی محاذ کھولے لیکن اپنے ہر محاذ پر اسے منہ کی کھانی پڑی۔اور وہ بے بسی سے کھسیانی بلی کھمبا نو چے کے مصداق اپنی بہادری اور کامیابی

ناریل کے درختوں کے نیچے نئے سلسلے

راقم السطور اپنی منزل پر پہنچا تو پانچ بجے کا وقت تھا اور تقریبا تمام شرکاء تشریف لا چکے تھے ۔ کمرہ کتابوں سے گھرا ہوا، کمر ٹکانے کو بھی کتابیں، پیش منظر میں بھی کتابیں اور پس منظر میں بھی کتابیں ہی کتابیں۔ جامی صاحب سے عرض کیا کہ کاغذات کو سہارا دینے کے لیے کچھ عنایت کیجیے تو ایک غیرمعمولی حجم کی کتاب ہی پیش کی گئی۔

پاکستانی تارکین وطن اور نارویجن الیکشن

تاہم انکا کہنا ہے کہ نارویجن سیاستدانوں کو اپنا پارٹی منشور بتانے کے لیے مسجدوں میں بھی آنا چاہیے تاکہ ہمیں بھی انکے مقاصد معلوم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کئی نارویجن سیاستدان مسجدوں میں بھی آتے تو ہیں مگر بہت کم ٹائم کے لیے ۔ اس طرح ہمیں انکی پارٹی کے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں ہوتی۔اگر وہ ذیادہ ٹائم دیں گے تو پھر پاکستانی اپنے

اطہر علی کا نارویجن سیاسی پارٹیوں کے لیے ڈسکشن فورم کا اہتمام

یس وے پارٹی ایک ایسے ویلفیر اسٹیٹ پر یقین رکھتی ہے جہاں ہر فرد کو امریکی شہریوں کی طرح انفرادی طاقت حاصل ہو۔جبکہ اس طرح معاشرے میں ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔جبکہ اسکینڈینیوین ممالک فلاحی ممالک کے طور پر مشہور ہیں۔امریکہ میں ایسی سہولتیں نہیں۔ یہاں جاب ،بیروزگاری اور بچوں کی پیدائش پر شہریوں کو خصوصی مراعات

یوم دفاع یا یوم سیاہ

۔اس موقع پر ہمارے لیڈروں اور حکمرانوں کو مل کر انڈین فوج سے معافی مانگنی چاہیے،انہیں ہاتھ جوڑ کر انہیں کہنا چاہیے کہ ماضی میں ہمارے بزرگوں نے انکی فوج کے ساتھ جو حرکت کی انہیں ڈنڈے مارے اور نعروں ے ڈرایا اب ایسا نہیں ہو گا، بلکہ انہیں اس فعل پر کانوں کو ہاتھ لگا