زوال کا ایک سبب نہیں ہوتا بلکہ اسباب ہوتے ہیں یعنی یہ ایک چیز یا کسی چھوٹی سے حرکت سے نہیں آتا بلکہ اسکے پیچھے ایک لمبی مدت اور اسباب ہوتے ہیں جس کے آثار آہستہ آہستہ نمایاں ہوتے ہیں۔لفظ زوال کی وضاحت اس لئے ضروری تھی کیونکہ اوّل جب بھی کوئی قوم اسکی لپیٹ میں آتی ہے تو اسباب کے ساتھ اسکی تاریخ بھی رقم ہوتی ہے۔ بدقسمتی
اس کیٹا گری میں 6793 خبریں موجود ہیں
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہمارے پڑوسی اور جنگجو ملک کا حکمران اپنی فوج کی پریڈ ملاحظہ کر ر ہا تھا۔اچانک کسی نے شرات سے کہ دیا کہ وہی آ گیا ہے ۔ حکمران بیچارہ ڈر کے مارے اپنی مسلح فوج کی پریڈ چھوڑ کر سر پہ پائوں رکھ کر میدان سے بھاگ گیا۔ یہ منظر دنیا کے تمام ٹی وی چینلز پر بڑے
ڈینش ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر پیا شاریگارڈ نے بیان دیا ہے کہ انکی پارٹی بدستور موجودہ حکومت کی حمائیت ہی کرے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں ڈینش انتخابات کی کو ئی خاص وجہ نہیں ۔ تاہم اگر یہی پارٹی بدستور برسر اقتدار رہی تو یہ ڈینش تاریخ کی
اے پی پارٹی نے الیکشن میں اپنی خاتون پارلیمنٹ ممبر آنے مارت کو کھو دیا ہے۔جو کہ شمالی علاقہ کی نمائندگی کرتی تھیں اور وزیر اعظم کی مشیر خاص تھیں۔اس کے ساتھ ہی نارویجن اخبار داگ بلادے کے مطابق ایک اور خاتون
بیگم فردوس عاشق نے اپنے دورے میں نارویجن وزیر اطلاعات سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ منصوبوں کے تحت پاکستان کو مزید ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ تاہم بیگم فردوس نے واضع کیا کہ گذشتہ کئی برسوں سے تشدد اور تخریب
لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف میری خوش فہمی اس وقت تک برقرار رہی جب تک قائد زندہ رہے وہ مجھے مضبوط و مستحکم کرنے پر کمربستہ رہے۔ یہ میری بد قسمتی کہ میرے محسن کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہ کی اور مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ بس پھر تو کیا بتائوں کہ مجھ پر کیا گیا گزری ،بجائے یہ کہ میری بنیادوںکو مضبوط سے مضبوط تر
یہ ایوارڈ کمیٹی ہر سال نمایاں کارکردگی دکھانے والے پاکستانیوں کو دیتی ہے۔صغراء بی بی اوسلو پولیس کے محکمے میں کام کرتی ہیں۔جبکہ ولید احمد نے
اس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امیدواروں کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ ہی کم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی ووٹرز کے ووٹ تو پاکستانی امیدواروں کو ہی دیے جانے چاہیں۔لیکن شائید انہیں ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہیں۔کیونکہ ایک تو پہلے سے موجود پاکستانی سیاستدانوںکا پاکستانی مسائل پر سرد رویہ اور
مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!
۔انہوں نے دو سال تک ناروے کی روزگار مہیاء کرنے کی کمپنی میں کام کیا ۔غیر ملکیوں کو جاب دلوانے کے لیے وہ ایسے اداروں کا انتخاب کرتی تھیں جن میں غیر ملکی نہیں تھے۔وہ وہاں قابل غیر ملکیوں کو جاب دلواتی تھیں۔انکے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ