بطور قوم زوال کی جانب سفر

زوال کا ایک سبب نہیں ہوتا بلکہ اسباب ہوتے ہیں یعنی یہ ایک چیز یا کسی چھوٹی سے حرکت سے نہیں آتا بلکہ اسکے پیچھے ایک لمبی مدت اور اسباب ہوتے ہیں جس کے آثار آہستہ آہستہ نمایاں ہوتے ہیں۔لفظ زوال کی وضاحت اس لئے ضروری تھی کیونکہ اوّل جب بھی کوئی قوم اسکی لپیٹ میں آتی ہے تو اسباب کے ساتھ اسکی تاریخ بھی رقم ہوتی ہے۔ بدقسمتی

ڈینش سفیر اور پاکستانی پولیس

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہمارے پڑوسی اور جنگجو ملک کا حکمران اپنی فوج کی پریڈ ملاحظہ کر ر ہا تھا۔اچانک کسی نے شرات سے کہ دیا کہ وہی آ گیا ہے ۔ حکمران بیچارہ ڈر کے مارے اپنی مسلح فوج کی پریڈ چھوڑ کر سر پہ پائوں رکھ کر میدان سے بھاگ گیا۔ یہ منظر دنیا کے تمام ٹی وی چینلز پر بڑے

ڈنمارک میں الیکشن

ڈینش ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر پیا شاریگارڈ نے بیان دیا ہے کہ انکی پارٹی بدستور موجودہ حکومت کی حمائیت ہی کرے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں ڈینش انتخابات کی کو ئی خاص وجہ نہیں ۔ تاہم اگر یہی پارٹی بدستور برسر اقتدار رہی تو یہ ڈینش تاریخ کی

پاکستان کی کہانی پاکستان کی زبانی

لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف میری خوش فہمی اس وقت تک برقرار رہی جب تک قائد زندہ رہے وہ مجھے مضبوط و مستحکم کرنے پر کمربستہ رہے۔ یہ میری بد قسمتی کہ میرے محسن کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہ کی اور مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ بس پھر تو کیا بتائوں کہ مجھ پر کیا گیا گزری ،بجائے یہ کہ میری بنیادوںکو مضبوط سے مضبوط تر

ناروے مین الیکشن اور پاکستانی امیدوار

اس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امیدواروں کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ ہی کم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی ووٹرز کے ووٹ تو پاکستانی امیدواروں کو ہی دیے جانے چاہیں۔لیکن شائید انہیں ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہیں۔کیونکہ ایک تو پہلے سے موجود پاکستانی سیاستدانوںکا پاکستانی مسائل پر سرد رویہ اور

عید کا پانچواں روز اور کتابوں کا اتوار بازار

مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!

ناروے میں پاکستانی پس منظر رکھنے والی سیاستدان رائنا اسلم

۔انہوں نے دو سال تک ناروے کی روزگار مہیاء کرنے کی کمپنی میں کام کیا ۔غیر ملکیوں کو جاب دلوانے کے لیے وہ ایسے اداروں کا انتخاب کرتی تھیں جن میں غیر ملکی نہیں تھے۔وہ وہاں قابل غیر ملکیوں کو جاب دلواتی تھیں۔انکے اس پراجیکٹ کا مقصد یہ تھا کہ