خاک سے اٹھایا ہے

کلام : شعاع نور
انتخاب : ڈاکٹر شہلا گوندل

خاک سے اٹھایا ہے
خاک سے بنایا ہے

پر سوال باقی ہے

قوتوں کا بٹوارہ
عدل کے تقاضوں کے
ماتحت نہیں رکھا
طشت میں پڑی خلعت

ہر کسی کے حصے میں
کیوں کبھی نہیں آتی
کیوں نہیں برابر ہم

کس طرح کی ہے تقسیم
ٹوٹتے یقیں نے پھر

دائرے کے رستے میں

اک سوال رکھا ہے
اک وجود خاکی نے
ارتعاش میں رہ کر
گھومتے مناظر میں
کوزہ گر کے ہونٹوں سے
اک جواب چاہا ہے
کس طرح کے قالب میں ڈھال کر مجھے تونے
کیوں نڈھال رکھا ہے
آگہی کے منظر میں

معتبر سی اک ساعت

موم سی ہتھیلی پر
یہ جواب لائی ہے
کوزہ گر کی مرضی ہے

کس کو کس سمے اس نے
کیسے دان کرنا ہے
کس میں کس قدر اس نے
کتنا رنگ بھرنا ہے
کون آئینہ ہوگا
کس کو سنگ کرنا ہے
کیونکہ ایک محسن کو
اختیار حاصل ہے

کم نواز دینے کا

سب نواز دینے کا
کم نواز دینے کا اختیار نہ ہو تو
اختیار کب ہے پھر سب نواز دینے کا
مفسد الطبع کو اب
کس طرح سے
وہ محسن

خلعت خرد بخشے
جب نہیں بصیرت تو روشنی کے جگنو کو کوئی کس طرح پکڑے
آگہی کے لمحوں کو عقل کس طرح جکڑے
عقل کے تقاضے کو
ایک گنبد بے در
میں قید رکھ کے کہتے ہو
روشنی نہیں دکھتی
زندگی نہیں ملتی
کھو لنا ضروری ہے
روشنی کے عالم کو جاننا ضروری ہے
روشنی کی دنیا سے

جب گزر نہ پاؤ گے
کس طرح سے جانو گے

کچھ نہ جان پاؤ گے
اک لطیف منظر میں
تب ہی تم ڈھلو گے جب
اک کثیف منظر سے
تم نکل کے آؤ گے
کس قدر مراتب ہیں
کوزہ گر کی جدت میں

خاک میں ڈھلے پتلے

جھونکتے ہیں جب خود کو

ایک خاص جدت سے

ایک خاص شدت میں

تب کہیں پہ جاکے پھر

خلعت وجود ان کا

ان کے واسطے پل پل
اک عطا ٹھہرتا ہے
اس سوال کا ہر حل
آپ ہی نکلتا ہے
آتش جنوں میں یوں

خود کو جھونک دینے سے

جو ظروف بنتے ہیں

پختگی میں وہ اپنی

بے مثال ہوتے ہیں
لا زوال ہوتے ہیں
معتبر سی ساعت میں
محو اور مقرب کو

عشق کے سوالوں کا

ہر جواب ملتا ہے

سبز ٹہنیوں پہ ہی
ہر گلاب کھلتا ہے
بس یہی تو حل ہے نا!
بند یہ گلی کب ہے

راستہ نکلتا ہے
جس قدر ہے استعداد

اس قدر ہی ملتا ہے
عدل ہر تقاضے میں ساتھ ساتھ چلتا ہے
جس قدر ہے استعداد

اس قدر ہی ملتا ہے
ضد کی ہر حقیقت کو ضد ہی تو پرکھتی ہے
اک کثیف سے ہوکر
اک لطیف ملتا ہے
ظلمتوں کا ہالہ ہو
چاند
تب ہی دکھتا ہے
چاک پہ دھرا برتن

استعداد کی طاقت
خود میں جس قدر رکھے

اس قدر حسیں ہوگا
اور عشق کی آتش اک وجود خاکی کو
جس قدر جلائے گی

پختگی دکھائے گی
بس یہی بتانا تھا

خلعت وجود ایسے
کب کہاں پہ ملتی ہے
عدل کا تقاضا ہے

چاک پہ دھرے انساں
جان لے کے ہر اک کو

عہد یہ نبھانا ہے

آگ سے گزرنا ہے
صبر آزمانا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں