انتظارِ صبح نو

عابده رحمانى
back dhaka

مرینہ بلک بلک کر اور ہچکیاں لے کر روتی رہی۔ لگتا تھا کہ وہ چپ ہی نہ ہو پائے گی ان دو ڈھائی سالوں کی دکھ ، تکلیف ، بے بسی او ربے چارگی کی داستان آنسوؤں کی صورت میں رواں تھی۔
ساتھ میں لیٹا ہوا مرد بت بنا لیٹا رہا۔ بالکل بے حس و حرکت جیسے کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یا پھر وہ اپنی بیتاؤں سے تھک کر چورا اور نڈھال ہو گیا تھا۔ وہ بس ہچکیاں لے لے کر روتی رہی وہ نہ تو کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ ہی کچھ بتا رہا تھا یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ دو سالوں کی مسافت اس نے پیدل طے کی ہو ان دو سالوں میں کیا کچھ نہ ہوا؟ ملک کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان تھی۔ ہزاروں فوجی دشمنوں کی قید میں تھے۔ کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم و بے آسرا ہو چکے تھے ۔وہ اپنا بھرا پرا گھر وہیں چھوڑ آئے تھے اور رشتہ داروں کے رحم و کرم پر تھے۔ مرینہ اور اس کے بچوں نے یہ وقت کیسے گزارا ؟اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جان سکتا تا ان لوگوں نے اپنے گھر پر رکھ لیا تھا یہی بڑی مہربانی تھی۔
وہ جب اپنا گھر بند کرکے وہاں سے روانہ ہوئے تو اس خیال سے کہ کچھ عرصے میں حالات بہتر ہو جائینگے اور واپس آ جائیں گے لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جواد نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ حالات بہتر ہوتے ہی وہ اسے اور بچوں کو واپس بلائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ فوجی آپریشن کے بعد بظاہر لگ رہا تھا کہ حالات قابو میں آ گئے ہیں لیکن وہ صرف ڈھاکے کی حد تک تھے۔ باقی ملک میں بغاوت ، دہشت گردی اور تباہی و بربادی تھی۔ بھائی ، بھائی کا گلا کاٹ رہا تھا مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان تھے لیکن لڑائی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی تھی۔ زبان ، رنگ و نسل پر ہم مسلمان جتنے منقسم ہیں شاید دنیا کا دوسرا کوئی مذہب نہ ہو دشمن اس تمام حالات کا بے حد فائدہ اٹھا رہا تھا وہ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی ٹھانی تھی اس وقت منصف بنے ہوئے تھے۔
مجیب تو ڈھیلا ڈھالا کنفیڈریشن چاہتا تھا لیکن یحییٰ خان ، بھٹو اور انداراگاندھی نے اسے پورا ملک دے دیا ، ہزاروں لاکھوں بے گناہ ان کی کارستانیوں کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ کتنے خاندان بٹ چکے تھے بہت سے دوراندیش تو جب حالات کی نزاکت بھانپ کر مغربی پاکساتن آ چکے تھے اور اس دوران انہوں نے یہیں پر رہائش اختیار کر لی تھی لیکن کچھ ایسے ناعاقبت اندیش اور خوش فہم بھی تھے جو حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ مرینہ کا شوہر ان میں سے ایک تھا۔ بیوی بچوں کو کراچی میں چھوڑ کر وہ واپس ڈھاکا چلا گیا تھا۔ اس کی کمپنی کے پاس فوج کے ٹھیکے تھے اور وہ لوگ فوجیوں کے لیے بیرک بنا رہے تھے تو کہیں رن وے بنا رہے ہیں اور کہیں دیگر کام کر رہے تھے۔ کمپنی تو بے حد خوش تھی کہ اسے دھڑا دھڑٹھیکے مل رہے ہیں۔
آتے وقت مرینہ اپنے ساتھ زیورات لے آئی تھی۔ بینک میں تھوڑی سی رقم تھی اور پھر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ ابا کے بہت سمجھانے پر ایک 600 گز کا پلاٹ خرید لیا تھا۔ ورنہ تو بالکل تہی دامنی کا احساس ہوتا۔ پھر بھی بے حد مجبوری اور کسم پرسی کا عالم تھا ۔اس کے والدہ نے تو صاف ان کار کر دیا تھا اور اپنی بے حد مجبوری ظاہر کر دی تھی ۔ انہوں نے مرینہ سے صاف کہ دیا کہ بہتر یہ ہے کہ کہ تم کوئی اپنا ٹھکانا کر لو اور واقعی وہ بہترین حل تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا گھر کراء ے پر لے لیا جاتا لیکن ابا اس پر تیار نہیں تھے اب بھی اس کے سسر بھی اس زعم میں تھے کہ تھوڑے دنوں کی بات ہے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ گھر وغیرہ لینا فضول ہے آپس میں گزارا کر لیا جائے اور یوں وہ جیٹھ کے گھر رہنے پر مجبور ہو گئیں تھی۔ وہ بچے جو شہزادوں کی طرح رہتے تھے عجب کملا گئے تھے جیٹھانی کافی بیمار رہتی تھی اس لیے گھر کے کام کاج کی ذمہ داری اس پر تھی۔ برتن مانجھ مانجھ کر اس کی انگلیوں سے خون رسنے لگا تھا اس نے یہ کام کبھی کیے نہیں تھے اور اس سے بچاؤ کے انتظامات کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔
نند جو کبھی اس کی بچپن کی سہیلی تھی ،کبھی ملنے آتی تو طنز اور طعنوں سے اس کی تکالیف میں مزید اضافہ کر دیتی۔نا معلوم اس کی طبیعت میں اتنی تلخی کیوں تھی ؟ وہ بہت سخت طبیعت کی تھی ، اپنے میاں کے ساتھ بھی ہر وقت اس کی معرکہ آرائی رہتی اور یہاں آتی تو بس زہر ہی ا گلتی ، ابا ہی واحد فرد تھے جو اس کے ساتھ اور اس کے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے وہ ان کے کمرے میں جاتی اس کا بستر جھاڑتی ، میلے کپڑے دھونے کے لیے یا دھوبی کو دینے کے لیے اٹھا لاتی۔ ان کے بستر پر ڈنڈوں کے ساتھ ایک مچھر دانی لگی ہوتی تھی کراچی میں کھڑکیاں کھلی ہوں تو سوائے دھول مٹی کے کچھ اندر نہیں آتا۔ مغرب کی جانب کھلی ہوئی کھڑکیوں سے اگرچہ ہوا اچھی آتی ہے لیکن وہ دھول مٹی سے اٹی ہوتی ہے ، مچھر دانی مٹی سے اٹی ہوئی تھی اس نے سوچا کہ اسے دھو لیا جائے اب جب کھولنے لگی تو ہر گرہ کے اندر کٹھملوں کی بھرمار تھی۔ پھر جو اس نے گدا اٹھایا تو پلنگ کی چولیں کٹھملوں سے کالی ہو رہی تھیں۔ یہی حال اس کے اپنے کمرے میں پلنگوں کا تھا۔ ساری رات کٹھمل کاٹتے وہ اور بچے کھجلاتے رہتے ہو سمجھی کہ شاید مچھر کاٹتے ہیں۔ سارے بازو ٹانگیں کھجلی اور کاٹنے سے داغدار ہو گئے۔ رات کو جب اس نے لائٹ جلائی اور تکیہ اٹھایا تو وہ کھٹملوں سے بھرا تھا جو اس کا اور بچوں کا خون چوس کر خوب صحت مند لگ رہے تھے۔ اب اس کا کیا علاج ہے ؟ ایک بہت ہی بدبودار دوائی بازار سے پوچھ کر خوید کر لائی۔ دکاندار نے بتایا کہ گدے کے نیچے اور پلنگ کی چولوں پر خوب اسپرے کرکے دروازہ بند کر دیں ، کٹھمل مر جائیں گے لیکن کچھ دنوں کے بعد پھر کرنا پڑے گا۔ بھابھی سانس کی مریضہ تھیں کسی قسم کی خوشبو یا بدبو برداشت نہیں کر پاتی تھیں۔
ایک روز وہ لوگ کسی کے ساتھ پکنک پر چلے گئے اور شام سے پہلے واپسی متوقع نہیں تھی۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور بستروں پر اسپرے کر دیا۔ اس قدر کھٹمل تھے کہ نیچے فرش سیاہ ہو گیا۔ اس کی بدقسمتی کہ وہ لوگ جلدی واپس آ گئے۔ اس کے کمرے کے دروازے بند تھے لیکن بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی اور بھابھی کو زبردست سانس کا دورہ پڑا۔ اس پر مجرمانہ احساس اتنا طاری رہا کہ وہ ان سے کچھ ہمدردی بھی نہ کر سکی اور کرتی بھی کیسے؟ ان سب کی کاٹ کھانے والی نظروں کی اس میں کہاں تاب تھی۔
ابا کے پلنگ پر کٹھملوں کا راج دیکھ کر اس نے کہا ’’اب آپ کے پلنگ پر دوائی ڈالنی چاہیے یہ تو آپ کو بری طرح کاٹتے ہونگے”
نہ معلوم وہ واقعی ان کو نہیں کاٹتے تھے یا وہ بہت یہ صابر و شاکر تھے کہنے لگے ’’نہیں بھئی ہمیں کچھ نہیں کہتے اپنا ایک طرف رہتے ہیں‘‘ لیکن اس نے ان کمرے میں اس وقت دوائی ڈالی جب بھائی جان ، بھابھی کو لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے راولپنڈی اور مری نتھیا گلی گئے تھے۔ ابا کے لیے بازار سے کپڑے لے آئی، کڑتے اور پاجامے سیئے ۔ وہ سفید کرتا اور پاجامہ ہی پہنتے تھے۔ کچھ کرتوں پر ہلکی سی کڑھائی کر دی گلے اور آستین پر ۔ابا اس پر آشوب دور میں اس کے واحد ہمدرد اور بہی خواہ اور محبت کرنے والے تھے۔ ان سے اس کا تعلق بھی پرانا تھا انہوں نے ہی اسے پسند کرکے جواد سے رشتہ کیا تھا۔
ایک مرتبہ جب جواد کا رویہ کچھ تلخ اور Ignoring ہو گیا تھا تو ابا نے انہیں سختی سے ڈانٹا تھا اور اپنے رویے کا جائزہ لینے کے لیے کہا تھا۔ شام کے وقت اب برآمدے میں آ کر بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے ان کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ منو کو پڑھانا انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ وہ ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سنتی اور ان سے Discuss کرتی تھی۔ خبریں سننا اور اس پر تبصرہ کرنا پرانا شوق تھا۔ اپنا ریڈیو اور ٹی وی جو خبریں ہمیں دیتا تھا اس کے لحاظ سے سب اچھا تھا۔ حالانکہ حالات بہت دگرگومں تھے۔ وہ بی بی سی سن کر بہت پریشان ہو جاتی اور اس بناء پر انہوں نے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ رات کو تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے ابا کی آہ وزاری کرنے سے اس کی آنکھ اکثر کھل جاتی کیا پھوٹ پھوٹ کر گڑگڑا کر وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے تھے اور یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
اسے کوئی کام ہو ، ضرورت ہو ، وہ ابا سے کہتی تھی وہی لے کر اسے با زار جاتے ، خریداری کرواتے ، جان پہچان والوں سے ملوانے لے جاتے تھے۔ جواد عید گزارنے کراچی آئے تو ان کا خیال تھا کہ مرینہ اور چھوٹے ہاشم کو لے جائیں گے۔ بڑے دونوں وہیں رہیں گے اور ابا وغیرہ خیال رکھیں گے۔ وہ بھی کتنے بڑے تھے ایک سات سال ایک پانچ سال کا تھا اب اور مرینہ نے اس تجویز کو بالکل رد کر دیا۔ ’’اتنے چھوٹے بچوں کا خیال کون رکھ سکتا ہے؟ اور بھابھی تو اس قدر بیمار رہتی ہیں ۔ ان سے تو اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داری نہیں سنبھالی جاتی۔”
وہ آئے تھے جانے ہی کے ارادہ سے تھے۔ بتا رہے تھے کہ اتنے اہم پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ خلیل صاحب نے کہا ہے کہ ایک ہفتے میں واپس آ جائیں۔ دیگر بہت سے دوست احباب جن کی فیملیز مغربی پاکستان میں تھیں رک گئے۔ حالات بگڑنے کی خبریں آ رہی تھیں۔ خبروں میں آیا کہ جیسور کی طرف انڈیا نے بڑا حملہ کیا ہے اور کافی علاقہ قبضے میں لے لیا ہے ۔جس ملک کے اپنے ہی عوام بغاوت پر آمادہ ہو جائیں بلکہ اس قدر وسیع پیمانے پر اس کو بچانا مشکل نظر آ رہا تھا ۔مکتی باہنی (آزادی کی فوج) بنگالی نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت تھی اس میں بہت سے فوجی بھی شامل ہو گئے تھے۔سب سے بڑھ کر فوج کا بنگالی حصہ ،طالب علم تنظیمیں ، مزدور اور ہر پیشہ کے لوگ تھے جو اب پاکستان سے آزاد ملک بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے۔ ہندوستان تو ان کا سرپرست اور کرتا دھرتا تھا ہی دیگر پاکستان دشمن ممالک بھی ان کے حامی اور Supporter تھے۔ پھر ان لوگوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی بہت ہدردی پا لی تھی۔ مغربی پاکستان کی فوج کا حال وہاں ایسا ہی تھا جیسے کہ وہ غیر ملک میں ہوں۔ زبان ، کلچر ، سرزمین سب تو غیر ہی تھی۔ ایک چیز مذہب یا دین جو کہ ان میں مشترک تھا وہ اس وقت بہت بڑے غلاف کے اندر بند ہو چکا تھا۔ اس وقت لسانیت ، علاقائیت او رفسطائیت کا راج تھا۔
تقسیم ہند کے واقعات تو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوئے تھے لیکن آپ بنگالی ، بہاری اور پنجابی کے درمیان تھے تمام اردو بولنے والے بہاری کہلاتے تھے اور مغربی پاکستان کے تمام رہائشی پنجابی کہلاتے تھے۔ صرف نو سال پہلے جب وہ یہاں پہلی مرتبہ شادی کے بعد آئی تھی تو اسے یہ سرزمین اور یہاں کے باسی بہت بھائے۔ ہرا بھرا سرسبز ملک اور سیدھے سادھے لوگ ، دکھاوا اور بناؤٹ سے بے نیاز ، دکھاوا اور بناؤٹ تو مغربی پاکستانیوں میں تھا جو پنجابی کہلاتے تھے یا اردو بولنے والوں میں جو بہاری کہلاتے تھے۔
ہو گئی تھی جواد کہتے تھے ’’بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو جاتا ہے میں بھی جب تک یہ نکالیں گے نہیں یہاں سے جانے والا نہیں ہوں‘‘ جواد کی باقی فیملی پاکستان کراچی اور راولپنڈی آ کر آباد ہو گئے تھے لیکن وہ آنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر ہر طرح کا آرام ، ہر چیز کی فراوانی ، بہترین ملازمت بلکہ پھر تو کمپنی کے ڈائریکٹر ہو گئے تھے۔ عمدہ مکان ، سہولیات ، نوکر چاکر ، دو کاریں ، ڈرائیور وہ سب کچھ تھا جس کی ایک آدمی تمنا کر سکتا ہے۔
وہ کہتی تھی کہ یہ بھی ہمارا ملک ہے اور پھر ہم یہاں خوش ہیں۔ اللہ نے ان کو اولادوں سے نوازا۔تین بیٹے ، ایک بیٹی عطا کی۔ بیٹی کا پیدائش کے وقت ہی انتقال ہوا۔ یہ دونوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس مٹی میں ان کا ایک جگر گوشہ بھی دفن تھا۔
وہ جب یہاں آئی تھی تو اس نے پہلے کبھی ساڑھی نہیں پہنی تھی۔ جواد نے اسے کئی ساڑھیاں لا کر دیں اسے ساڑھی بہت پسند تھی ، بس پھر تو ساڑھی ہی اس کا لباس بن گیا۔ رات کو پیٹی کوٹ اور بلاؤز میں سو جاتی دن میں ساڑھی لپیٹ لیتی۔ کاٹن کی ابرق اور کلف لگی ساڑھیاں خوب چمک دیتیں۔ کانجی ورم ، کتھان بنارسی ، پیور سلک ، شفون ، جارجٹ غرضیکہ اس کے پاس ساڑھیوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔ لمبا قد ، دبلا پتلا سراپا ساڑھی اس پر خوب جچتی۔
جب بیگم باز نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ “ارے تم تو پوری بنگالن بن گئی ہو”
یہ اس کے ابا کے ایک عزیز دوست کی بیگم تھیں۔ بریگیڈیئر باز ملٹری Intelligence میں تھے بلکہ مشرقی پاکستان اگرتلہ سازش کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ تھے۔ کچھ یہاں کے پانی کا کمال تھا کہ اس کے بال خوب گھنے اور لمبے ہو گئے تھے اس کا وہ جوڑا لپیٹ لیتی تھی۔ وہ جب چھوٹی تھی تو اس کی امی کو اس کے بال لمبے کرنے کا بہت شوق تھا وہ اسے ایک تیل لگاتی تھیں جس کا نام زلف بنگال تھا۔
اور حقیقاً زلف بنگال ، اسم بامسمیٰ تھا یہاں پر بال کاٹنے کا فیشن ہی نہیں تھا ہر عورت کے لمبے گھنے سیاہ بال ہوتے اور اس کے جوڑے بنے ہوتے تھے کٹے ہوئے بال یہاں بہت بڑا فیشن جانا جاتا تھا۔ بنگالی خواتین مغربی پاکستان کی بال کٹی ہوئی خواتین کو بہت موڈ Mod سمجھتی تھیں ، ہر جگہ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے یہاں کی ثقافت پرہندوانہ رنگ غالب تھا ماتھے پر بندیا ، ساڑھی ، چھوئے بلاؤز کمر تک ، پیٹ دکھائی دینا کوئی عجب نہ سمجھا جاتا۔ شروع میں تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ بہت سی دیندار خواتین کے بھی پیٹ کھلے ہوتے ہیں اور بازو چھوٹے ہوتے ہیں۔ نماز کے وقت ساڑھی کو کھول کر لپیٹ دیا جاتا ، غریب عورتیں اور نوکرانیاں نو بلاؤز پہنتی ہی نہیں تھیں اس کے خانساماں کی بیوی خدیجہ جب کچن میں بغیر بلاؤز کے ساڑھی لپیٹ کر آتی تو اسے بہت خفت اور شرم محسوس ہوتی۔ خدیجہ کو اس نے اپنے بلاؤز دیے کہ پہن کر آئے۔ کچن میں آتے وقت خدیجہ الٹا سیدھا بلاؤز پہن کر آتی تھی وہ لوگ پیٹی کوٹ بھی نہیں پہنتی تھیں بس ساڑھے کو گرہ لگا کر باندھ لیتیں۔ خدیجہ کو ایک روز تیز بخار تھا تو وہ اسے دیکھنے کوارٹر گئی وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور بلاؤز پہننے لگی۔ ’’بیگم صاحب بہت گرمی ہے‘‘ اس نے بنگلہ میں کہا ۔
یہاں کی زندگی میں ایک غنائیت تھی ، ناچنا گانا ، یہاں کے بنگالی کلچر کا ایک حصہ تھا ۔ جواد کا خاندان پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان آ کر آباد ہوا تھا ان کے والد یعنی ابنا ریلوے میں تھے۔ وہ لوگ تو پھر مغربی پاکستان آ گئے۔ لیکن جواد یہیں تھے۔ سید پور سے میٹرک کرنے کے بعد ڈھاکہ آگئے ۔ یہیں پر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور ملازمت شروع کی۔ مرینہ نے زیادہ تر نوکروں کے ساتھ بول کر اچھی خاصی بنگالی سیکھ لی تھی۔
مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال کے مسلمان لیڈروں کا تقسیم ہند میں بہت اہم رول تھا۔ مولوی فضل حق، مولوی تمیز الدین خان ، نواب خواجہ ناظم الدین (جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے) خواجہ شہاب الدین اور گورنر جنرل (جو وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر فائز رہے۔ مسلم لیگ کے صف اول کے رہنماؤں میں تھے۔
ان کی کوششوں سے مشرقی بنگال ہندوؤں کے تسلط سے آزاد ہوا اور خودمختار پاکستان کا دوسرا حصہ بنا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ مساویانہ سلوک ہرگز نہیں ہو رہا ہے۔ وسائل اور اقتدار کی تقسیم انتہائی غیرمنصفانہ ہے۔ جب قائداعظم آئے اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا کہ اردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہو گی تو اس کو بنگالیوں نے ہرگز تسلیم نہ کیا کیونکہ پورا مشرقی پاکستان بنگالی بولتا تھا جب کہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی زبان نہیں تھی صرف اردو دان طبقے کی زبان تھی۔
اس کے والد اکثر افسوس کرتے تھے کہ کاش قائداعظم اور ان کے ساتھی عربی کو قومی زبان بنا دیتے تو سب اس پر متحد ہو جاتے۔
اس اعلان کے فوراً بعد بنگالی طلباء نے بہت بڑا جلوس نکالا اور کہا کہ اردو کے ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان بنایا جائے۔ اس جلوس میں شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے اور وہاں کے مجسٹریٹ کے آرڈر سے گولی چلی اور کئی طلباء مارے گئے۔ یہی وہ دن تھا جب نفرت اور عداوت کا پہلا بیج متحد ہ پاکستان کے خلاف بویا گیا۔ جہاں پر یہ واقعہ ہوا تھا وہاں شہید مینار بنایا گیا۔ ہر سال اس روز کو بڑھ چڑھ کر منایا جاتا تھا بلکہ لوگ ننگے پاؤں جلوس کی شکل میں جاتے اس کو وہ پربھات پھیری یا پیری ، کہتے تھے۔ خوب خوب تقریریں ہوتیں تھیں۔ نفرت او عداوت کو ہوا اور جلا ملتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ احساس عام ہوتا گیا کہ ایک اور خطے اور زبان کے بولنے والے لوگ یہاں کے سیاہ و سپید پر حاکم ہیں اور خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی رویہ اردو بولنے والوں یعنی بہاریوں کے ساتھ بھی شروع ہوا۔ اس طرح کی باتیں کھلے عام ہونے لگیں کہ انہوں نے ہمارے ملک کو لوٹا ہے اور ان کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارے ملک سے حاصل شدہ ہے یہاں کے وسائل کا ہے۔ اسلام آباد نیا نیا بن رہا تھا اس کی چمکیلی سڑکوں کا بڑا تذکرہ رہتا تھا پھر اس بات کو بہت اچھالا گیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ پٹ سن (Jute) مشرقی پاکستان کا Cash Corp تھا ۔ کپاس کی طرح اور ملک کا ایک بڑا زرمبادلہ اس سے حاصل ہوتا تھا۔
سیاستدانوں نے ان نفرتوں کو خوب ہوا دی۔ متحدہ پاکستان کے حامی بھی تھے لیکن اکثریت زہر اگلنے لگی۔
1968ء کے آخر میں جب ایوب خان کی حکومت Decade of Development دس سالہ ترقی کا جشن منا رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میںآئے دن ہنگامے زور پکڑ گئے۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے اور آئے دن کرفیو لگ جاتا۔ ایوب خان کی حکومت نے کچھ کوششیں کی تھیں۔ بنگالیوں کو قریب کرنے کی لیکن کچھ فائدہ نظر نہیں آتا تھا۔ مثلاً مشرقی پاکستان کو پوربو پاکستان اور مغربی پاکستان کو پچھم پاکستان کہا جانے لگا۔ ملک کے ان دونوں حصوں کے درمیان بھارت کا دو ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ اگر تلہ اور اس تین سال کے عرصے میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی۔
شیخ مجیب الرحمن کے اگر تلہ سازش کیس میں گرفتاری پر خوب مظاہرے ہوئے۔ مقامی باشندوں نے اسے کیس کو جھوٹا قرار دیا نعرے لگتے تھے ’’میتا کیس‘‘ یعنی جھوٹا کیس ، اگر وہ کیس سچ بھی تھا تو بھی اس میں صرف صوبے کا نام بنگلہ دیش رکھا گیا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ نہیں تھا۔ عوام کے مطالبے کو مانتے ہوئے ایوب خان کو شیخ مجیب کو رہا کو رہا کرنا پڑا اور آب وہ عوامی لیگ کے ایک بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کا طوطی بولنے لگا۔ وہ جو کبھی ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا اب ایوب خان کی مخالفت میں ڈٹ گیا۔ اب حکومت کے خلاف خوب خوب مظاہرے ہوئے۔ حسب معمولی مہنگائی ، کرپشن اور دیگر الزامات عائد ہوئے۔ آخرکار عوام کے دباؤ میں آ کر 1969 میں ایوب خان مستعفی ہوئے اور اقتدار کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ بلکہ مارشل لاء لگ گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی پاکستان کا ون یونٹ ختم کیا اور چار صوبے بحال ہوئے کیونکہ یہ ایک شدید مطالبہ تھا کہ ون یونٹ ختم کیا جائے۔ مشرقی پاکستان کی حیثیت پانچویں صوبہ کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور مغربی پاکستان میں پی پی پی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ انتہائی مقبول عوامی پارٹیوں کی صورت میں ابھریں۔ یحییٰ خان نے 1970ء میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا۔
ان کا پرانا خانساماں اسماعیل جس کو اب جواد نے اپنا سائٹ سپروائزر بنا لیا تھا ملنے آیا تو سلام کرنے کے بعد فرش پر بیٹھ گیا اور زار وقطار رونے لگا۔ ’’بیگم صاحب اجمل (بنگالی میں ازمل) کے ساتھ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے۔ شیخ مجیب (مزیب) کے ساتھ رہتا ہے اپن کو تو اب پہچانتا ہی نہیں ہے۔ بیگم صاحب ہم نے اس کو ماں باپ بن کر پالا۔ خود خراب پہنا اچھا اس کو دیا۔ خود بھوکا رہا اس کا پیٹ بھرا کتنی محنت سے اس کو پڑھایا آپ تو سب جانتا ہے)‘‘ وہ اسے سوائے تسلی دینے کے کیا کہتی۔ یہ حقیقت تھی کہ جواد کے پرانے سوٹ جو کبھی تنگ اور کبھی ڈھیلے ہو جاتے تھے ، جوتے ، کپڑے تمام اسماعیل لے جاتا تھا۔ وہ کہتا تھا ، ’’بیگم صاحب ازمل یونیورسٹی جاتا ہے اس کا اور صاب کا ناپ ایک ہے‘‘ اجمل نے مغربی پاکستان کے خلاف ایک زہر اگلنے والی کتاب بھی لکھی تھی جو کہ کافی مقبول ہو گئی تھی اس کی شادی بھی شیخ مجیب کے گھر سے ہوئی تھی اور اسماعیل ایک عام تماشائی تھا۔
الیکشن ہوئے اور شفاف ہوئے مغربی پاکستان سے پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ جیت گئی۔ عوامی لیگ کی نشستیں پیپلزپارٹی سے زیادہ تھیں۔ ملک کے آئین کی رو سے شیخ مجیب کو حکومت دے دینی چاہیے تھی اور ملک کا وزیراعظم مان لینا چاہیے تھا لیکن بھٹو اور یحییٰ اس پر تیار نہیں تھے ان کی منطق بھی نرالی تھی کہ اگرچہ مجیب کی اکثریت ہے لیکن مشرقی پاکستان میں بھٹو کی اور مغربی پاکستان میں مجیب کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے اس کو وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک عجیب سیاسی گورکھ دھندہ شروع ہو گیا تھا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شیخ مجیب اور اس کی پارٹی کو ملک کا سیاہ وسپید دینے کی شدید مخالفت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے” ادھر تم ادھر ہم “کا نعرہ لگایا۔ جو حقیقًا ایک ملک نہیں بلکہ دو ملکوں کی بات تھی۔
مرینہ کو یہ سب کچھ بہت برا لگ رہا تھا لیکن معاملہ بگاڑ کی طرف جا رہا تھا انہیں دنوں وہ اپنے چوتھے بچے سے حمل میں تھی اور طبیعت بھی مضمل رہتی تھی۔ بچی کی پیدائش کے وقت لیڈی ڈاکٹر (جو ایک فلپینی نسل کی امریکن ڈاکٹر تھی اور اس کا تیسرا بیٹا بھی اس کے ہاتھوں پیدا ہوا تھا) گانے گا رہی تھی اور اپنے مددگار عملے سے کہ رہی تھی۔ She is a very easy Patient اس کی ڈلیوری بہت آسان ہوتی ہے۔ سب کچھ نارمل جا رہا تھا اسے محسوس ہوا کہ بچے کی پیدائش کا لمحہ آ گیا ہے لیکن اسے یوں لگا جیسے اس کی جان نکل رہی ہے اور وہ چیخیں مارنے لگی۔ حالانکہ وہ ہمیشہ بہت صبر اور برداشت والی تھی۔ اسے اندازہ ہوا کہ بچے کی پوزیشن الٹی ہے ، باقی جسم تو پیدا ہو گیا لیکن سر ، اس کے بچوں کے سر ہمیشہ بڑے تھے۔ ڈاکٹر تیزی سے مختلف کوششیں کرتی رہی بچی پیدا ہوئی لیکن دم گھٹ گیا تھا رونے کی آواز نہ آئی تو وہ سمجھ گئی کہ کیا ہوا ہے اس کی اپنی حالت بھی بہت خراب تھی بالکل سٹریک ہوگئی تھی جواد بہت سمجھاتے اپنا اور بچوں کا واسطہ دیے لیکن اسے لگتا جیسے کہ وہ اندر سے بالکل خالی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کس بات کی سزا دی تھی شاید یہ کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے نماز باقاعدگی سے نہیں پڑھ رہی تھی۔ اللہ کی ذات ، تقدیر ، اس کے حکم اور فیصلوں پر اس کا ایمان مزید مستحکم ہو گیا۔
بھٹو اپنے تمام قریبی عملے اور ساتھیوں سمیت خلیل صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا۔ شیخ مجیب سے مذاکرات چل رہے تھے لیکن کوئی مثبت حل نہیں نکل رہا تھا۔ جواد بھی اکثر ملنے چلے جاتے تھے۔ خلیل صاحب ان کی کمپنی کے چیئرمین تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے وہاں کافی آسائشیں میسر تھیں۔ کچھ ہم پیالہ و ہم نوالہ والی کیفیت تھی۔
جواد کہتے تھے کہ مصطفیٰ کھر اور حفیظ پیرزادہ تو بھٹو کے آگے بالکل ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں پھر وہاں پر حسنہ بیگم اور بلو بیگم بھی تھیں۔
اب وہ سوچتی ہے کہ بھٹو اور یحییٰ خان کا ٹولہ ہی اس ملک کی علیحدگی اور تقسیم کا اصل ذمہ دار ہے۔ انارکی و انتشار کی اس کیفیت کا علیحدگی پسند عناصر خوب خوب فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بھارت ان کی زبردست پشت پناہی کر رہا تھا بلکہ اس سارے قصے کو خوب ہوا دے رہا تھا۔
اس ساری صورتحال میں عوامی لیگ نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ Non Cooperation, Non Alliance کہ نہ کوئی دفتر یا کام جائے گا اور نہ ہی کوئی دفتری کام ہو گا۔
پچھلے دو چار سالوں میں بنگلہ لسانی تحریک نے کافی جڑ پکڑ لی تھی ، اردو کے تمام سائن بورڈ کی جگہ بنگالی سائن بورڈ آ گئے تھے بلکہ انگریزی کے بھی خال خال دکھائی دیتے تھے۔یہی سوچ کر اسے بنگلہ زبان پڑھنے لکھنے کا فیصلہ کیا اور پڑوس کی مسز وہاب کے پاس بنگلہ سیکھنے جاتی تھی۔ وہ اس سے اردو سیکھتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر اردو دان تھے۔ اس کے گھر کے ملازموں کے تیور بھی بدلنے لگے۔ صفائی والی حلیمہ کی ماں کہنے لگی۔ ’’بیگم صاحب آپ سب لوگ چلا جائے گا اس دیش سے، یہ سب ہمارا ہو جائے گا۔‘‘ اور واقعی ایسا ہوا۔ اس کے سارے ملنے والے جان پہچان والے آئے دن خاموشی سے کراچی اور لاہور جانے لگے۔
ہندوستان سے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ چل رہے تھے۔ کشمیری رہنماؤں یا دہشتگرد کہا جائے مقبول بٹ وغیرہ ایک بھارتی طیارہ گنگا ، اغواء کرکے لاہور لائے اور انہوں نے اسے ایئرپورٹ پر بم سے اڑا دیا۔ بھٹو ان کو شاباش دینے ایئرپورٹ پہنچا اور خوب تعریف کی۔ بھارت نے اس حرکت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے حدود پر سے پاکستان کی پروازیں معطل کر دیں۔ بھارت کے اوپر سے کراچی اور لاہور سے ڈھاکہ کی تقریباً اڑھائی گھنٹے کی پرواز تھی جب کہ اب کولمبو (سری لنکا) کے ذریعے پروازیں جا رہی تھیں تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے کا وقت لگتا تھا کولمبو میں جہاز اتر جاتا تھا ری فیولنگ ہوتی تھی۔
مارچ کا مہینا تھا۔ انہوں نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ چلے جاتے ہیں۔ کام کاج تو یونہی بند تھا۔ پورے خطے پر ایک جمود کی کیفیت طاری تھی ، یہی سوچ کر روانہ ہوئے تھے کہ حالات بہتر ہوتے ہی واپس آ جائیں گے لیکن اللہ جانتا تھا کہ دوبارہ آنا اس کے اور بچوں کی قسمت میں نہیں تھا۔ گھر کی چند لائٹیں تک جلی ہوئی چھوڑ آئے تھے۔ 21 مارچ 1971ء کو یہ لوگ کراچی پہنچے۔ دوستوں کی دو اور فیملیاں بھی ہمراہ تھیں۔ مسز کیانی پان کا ایک بڑا ٹوکرا لے آئی تھیں۔ پان ان دنوں کمیاب اور مہنگے تھے۔
23 مارچ کو یوم جمہوریہ پاکستان تھا۔ مشرقی پاکستان میں اس روز کھل کر بنگلہ دیش کے جھنڈے لہرائے گئے اور خودمختار بنگلہ دیش کے ترانے گائے گئے۔
25 مارچ کو جنرل ٹکا خان نے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کیا۔ مجیب الرحمان اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
اس دن بھٹو، ان کے ساتھی اور دیگر مغربی پاکستانی سیاستدان واپس آئے تو بھٹو نے کہا ”Thanks God Pakistan has been Saved” لیکن پاکستان کے اسی دن دو ٹکڑے ہو چکے تھے۔
فوج نے زبردستی دفتر کھلوائے ، کاروبار ، کام شروع کروایا اور آرمی آپریشن شروع ہوا۔ عدم تشدد کا سلسلہ خونریزی میں تبدیل ہوا۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹنے لگا۔ تقسیم ہند کے قتل اور خونریزی ، ہندو مسلم اور سکھ فسادات کو لوگ بھول گئے۔ اب قتل و غارتگری تھی بنگالی ، بہاری اور پنجابی کی، کتنے جاننے والوں کو مار دیا گیا۔
ان کے پڑوس میں باسط صاحب کا فی بڑا خاندان میمن سنگھ میں رہتا تھا وہ لوگ ایک شادی کے سلسلے میں وہاں گئے تھے ان کا ایک بیٹا پاکستان آرمی میں میجر تھا۔ اندرون ملک تو پورے پورے خاندان ہلاک کر دیے گئے۔ اور یہی ان کے خاندان کے ساتھ ہوا۔ بیٹا جب آیا تو اسٹین گن لے کر نکلا اور راستے میں جو بھی بنگالی ملا اس کوشوٹ کرتا گیا۔ بڑی مشکل سے قابو میں آیا۔ مکتی باہنی والے پاکستان کے فوجیوں کو پکڑ کر نسیں کاٹ کر درخت پر لٹکا دیتے اور مرنے کے لیے تڑپتا چھوڑ دیتے تھے۔ یہی انجام اشمس اور البدر کے کارکنان کا کرتے تھے۔ یہ بنگالی طلباء تھے جو متحدہ پاکستان کے حامی تھی زیادہ تر اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن تھے یا جماعت اسلامی سے تعلق تھا۔ فوج بھی باغیوں کو مارنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی بلکہ خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات کی بازگشت بھی سنائی دیتی۔ جو دونوں طرف سے ہو رہی تھی۔ بظاہر ڈھاکہ اور چاٹگام کنٹرول میں لگ رہے تھے۔ جواد ان کو بلانے کا وعدہ کرکے چلا گیا اور جب دوبارہ آ کر گیا تو یہ کہ کر گیا کہ میری جیب میں ٹکٹ ہے جب بھی گڑ بڑ ہوئی اگلی فلائیٹ لے کر آ جاؤں گا‘ وہ جانتی تھی کہ ایسا ہرگز نہ ہو سکے گا اور وہی ہوا ۔اس کے جانے کے تین دن بعد ہی بھارت نے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جنرل نیازی پاکستانی فوج کے کمانڈر تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں دونوں حصوں کے درمیان کمرشل پروازیں قطعاً معطل ہو گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مغربی پاکستان کے فوجی وہاں تھے ان کے لیے وہ سرزمین ایک دیارغیر سے کم نہیں تھی۔ (رائل بنگال ٹائیگرز)فوج کا بنگالی حصہ بغاوت کرکے الگ ہو چکا تھا۔ وہ گوریلا جنگ یعنی مکتی باہنی کے کمانڈر بن چکے تھے اور اب بھارت کے شانہ بشانہ پاکستانی فوج سے لڑ رہے تھے۔
ان کے گھر میں صف ماتم بچھ گئی تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ جواد جاتے وقت ایک پستول خرید کر لے گئے تھے کہ اگر ضرورت پڑی تو استعمال کروں گا لیکن اس تمام صورت حال میں ان کی لاہور سے تعلق رکھنے والی دو رشتہ دار لڑکیاں جو وہاں اس کالرشپ یا انٹرونگ اس کالر شپ (Interwing ) پر پڑھ رہی تھیں واپس ڈھاکہ چلی گئی تھیں اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس تھیں (یہ ایک الگ داستان ہے) کیونکہ یہ ان کے لوکل گارڈین تھے اور وہاں ان کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ان حالات میں جب کہ مرد اپنے خاندانوں کے پاس مغربی پاکستان آ چکے تھے ان لڑکیوں کا واپس جانا انتہائی حیرت انگیز تھا۔
اپنا ریڈیو اور ٹی وی تو پاکستانیوں کے دفاع اور بے جگری سے لڑنے کی کہانیاں سنا رہا تھا جب کہ بی بی سی کی خبریں بالکل الٹ ہوتیں اور یہی وہ وقت تھا کہ ابا نے اسے بی بی سی سننے سے منع کر دیا۔ ارے جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 1965 ء میں بھی بی بی سی نے کہا تھا کہ ہندوستان نے لاہور کر قبضہ کر لیا ہے۔ مت سنا کرو ایسی خبریں سوائے پریشانی کے کچھ نہیں ، لکین وہ چپکے چپکے سنتی تھی ، پھر خبر آئی کہ چھاتہ بردار ڈھاکہ اور اس کے مضافات میں اتر رہے ہیں۔
ایک دن پہلے ہی جنرل نیازی نے کہا ’’ہمارا دفاع مضبوط ہے بھارتی ٹینک میرے سینے پر گزر کر ڈھاکے میں داخل ہو گا‘‘ اور اگلے ہی دن پلٹن میدان میں وہ بھارتی جنرل ارورہ سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے۔
اس سے چند روز پہلے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو رہی تھیں۔ بھٹو کو نمائندہ پاکستان کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا، اس وقت بھی کنفیڈریشن کا معاملہ پیش کیا گیا۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا۔ بھٹو نے بڑی جذباتی تقریر کی (تقریریں کرنا اس کو خوب آتا تھا) اور پولینڈ کی پیش کردہ بڑی معقول تجویز کو اس نے پھاڑ کر پھینک دیا۔
پاکستانی ٹی وی اور ریڈیو اب بھی سب اچھاہے کی رٹ لگائے ہوئے تھا جب مرینہ نے بی بی سی سے ہتھیار ڈالنے کی خبر سنی تو بے تحاشہ اس کے منہ سے شدت غم سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ابا اور باقی سب لوگ گھبرا کر نکل آئے۔ جواد کی کوئی خبر جانے کے بعد نہیں آتی تھی اور اب ایک بہت ہی موہوم سی امید تھی کہ وہ بخیریت ہوں گے۔
ملک کا دوسرا حصہ بخوبی الگ ہو کر ایک اور آزاد ملک بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ بھارت ان کا نجات دہندہ تھا۔ پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ مواصلات کے تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ ایسے وقت میں انٹرنیشنل ریڈکراس اور جنیوا کنونشن کے تحت پاکستانی فوجیوں اور ویلین کی بخفاظت واپسی کا فارمولہ طے پایا۔ ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں اور سویلین کو بھارت لے جا کر کیمپوں میں محصور کرنا تھا۔ پاکستانی فوج کو ایک زبردست شکست ، ہزیمت اور پسپائی ہو چکی تھی۔ مجیب الرحمن کو آزادکرکے شان و شوکت سے بنگلہ دیش کا پہلا وزیراعظم بنایا گیا جب کہ بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے صدر بنے۔
یہ وقت ایک انتہائی بے یقینی ، غم ، افسوس اور بددلی کا تھا، ملک کا تو جو حشر ہونا تھا ہو چکا لیکن اسے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ کیا جواد واپس آ جائینگے ۔ اس کا شوہر اور اس کے بچوں کا باپ واپس آ جائے گا اور اس کا گھر پھر سے بس جائے گا ، بس ایک موہوم سی امید اور دعائیں تھیں۔ فوجی اور سویلین ہزاروں کی تعداد میں بھارت لے جائے گئے ارو یہ POW یعنی Prisnors of War یا جنگی قیدی کہلائے۔اڑھائی ماہ کے بعد جواد کی خیریت کی اطلاع انٹرنیشنل ریڈکراس کے ذریعے سے آئی کہ وہ محفوظ اور بخیر ہیں اور ایک دوست کے ساتھ محمد پور میں رہتے ہیں۔
یہ خبر ایک مژدہ جانفزا تھی ، اندھیری تاریک رات میں روشنی کی ایک کرن تھی کہ اس کے جواد صحیح سلامت ہیں۔ ریڈکراس کے ذریعے پیغام آنے جانے میں ایک سے دو مہینے لگ جاتے تھے اور پیغام بھی زیادہ سے زیادہ پچاس لفظ پر محیط تھا۔ پھر جب کچھ بنگلہ دیش کا ڈاک کا نظام بہتر ہوا تو جواد نے اپنے بھائی کو لندن ان کے نام خط بھیجا جو کہ اسکے بھاء ینوید نے کراچی ارسال کیا۔ اس خط میں پتے میں اس نے اپنے نام کے ساتھ ، خوندوکار ، لکھا تھا جو کہ ایک بنگالی ذات ، اور یہ محض ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ جوابی پتا اپنے دوست شیرازی کا دیا تھا جو کہ پرانے ڈھاکہ میں رہتے تھے۔ ڈھاکہ فال کے بعد جب کہ ہر طرف قتل و غارتگری ہو رہی تھی شیرازی ان کو اپنے گھر لے گئے اورکئی روز تک اپنے ہاں رکھا بلکہ پناہ دی۔ شیرازی کے آباواجداد تو شیراز (ایران) سے آئے تھے پھر ڈھاکہ میں بنگالیوں بلکہ ڈھاکہ کے پرانے باشندے جنکو ڈھکیہ کہتے تھے ان میں انہوں نے شادی بیاہ کی ۔ ان کے ہاں بنگلہ اور اردو دونوں بولی جاتی تھیں اور وہاں کے لوگوں میں کافی عزت تھی۔
جواد نے اپنی ٹویوٹا کرولا 17 ہزار میں بیچ دی تھی۔ اس سے اپنا بھی گزر بسر کر رہے تھے اور اپنے دوست احباب کی بھی مدد کر رہے تھے اس لوٹ مار کے عالم میں یہ گاڑی بیچنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
ا ب ان کے خطوط اسی طریقے سے آنے لگے۔ اس میں تقریباً تین سے چار ہفتے لگ جاتے تھے لیکن یہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔
اسی دوران ابا کے گھر پنڈی میں خالی ہو گیا تھا اور وہ مکان کی مرمت وغیرہ کی نیت سے پنڈی جانے کی تیاری کرنے لگے۔ جواد اپنے خطوط میں اپنی بے بسی مجبوریوں اور کسم پرسی کی داستان سناتے۔ اس سرزمین پہ جو کہ ان کی اپنی تھی جہاں سے انہیں عشق تھا وہ آج ایک قیدی اور بے یارومددگار کی زندگی گزار رہے تھے۔ جہاں قدم قدم پر خطرہ اور خوف تھا اور جو اب ایک ظلم کی بستی تھی پھر معلوم ہوا کہ کچھ لوگ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعے بھارت پہنچ گےء اور پھر بھارت سے نیپال اور بنکاک کے ذریعے پاکستان آئے، ظاہر ہے جواد بھی نکلنے کی کوشش میں تھے لیکن کب ؟ وہ جب خط بھیجتی تو بچوں سے بھی چند جملے ضرور لکھواتی وہ اپنے معلوم جذبات کا اظہار کرتے۔
ابا پنڈی جانے لگے تو اسے معلوم تھاکہ حالات اس کے لیے اور صبر آزما ہو جائیں گے۔ اس کو اس کی بھی گھبراہٹ تھی کہ وہ اکیلے کیسے رہیں گے بھابھی کہنے لگیں ’’وہ تو ہمیشہ جاتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔” ان کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے کہ رہی ہوں کہ خواہ مخواہ کی محبت جتا رہی ہو۔
جون کا مہینا تھا۔ ابا کو گئے ہوئے 3 ہفتے ہو چکے تھے۔ وہ مکان میں رنگ و روغن اور دیگر کام کروا رہے تھے۔ ایک شام اچانک ٹیلی گرام آیا کہ ان کی طبیعت کافی خراب ہے فوراً آ جاؤ ، یہ نقوی صاحب کی طرف سے تھا۔ سب لوگ بے حد پریشان ہوئے۔ نند صاحبہ کے ہاں دعوت تھی وہ بھی فارغ ہو کر آئیں۔ ابا کے جانے سے پہلے ان کی اور ابا کی خوب جھڑپ ہوئی تھی۔ ابا نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ اب میں پنڈی سے نہیں آؤں گا ۔ بھائی جان اگلی فلائیٹ سے روانہ ہوئے لیکن ابا جان کو جان لیوا اسٹروک ہوا تھا پہنچنے سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور جا چکے تھے بہت عظیم سانحہ تھا اس کو ایسا لگا کہ اس کا بزرگ ، اس کا سرپرست اس کا غمگسار چلا گیا ۔ وہ تو ان کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہی تھی ۔ اس کی نند تو شدت غم سے دیوانی سی ہو گئی شاید پچھتاوا بھی ہو۔ابا کو وہیں دفنایا گیا ، اماں اور شاہد (ان کا چھوٹا بیٹا) بھی وہیں دفن تھے۔
پہلے تو سوچا گیا کہ جواد کو بے خبر رکھا جائے لیکن پھر اطلاع کر دی گئی اس کسمپرسی کے عالم میں ان پر بھی قیامت گزر گئی۔ شیرازی کا چھوٹا بھائی منو بڑی باقاعدگی سے آتا تھا وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کو وہاں سے کوئی خبر ملتی تو دینے چلا آتا۔ اور وہ اپنا دکھ درد بھی بانٹ دیتے۔ ابا کے جانے اور انتقال کے بعد حالات اور بھی صبرآزما ہو گئے تھے۔ وہ تو اللہ کا شکر تھا کہ جواد کی کمپنی کا کراچی آفس اسے کچھ رقم دے دیتا وہ اسے کچھ کیش دے گئے تھے ورنہ پھر بالکل ہی خالی ہاتھ ہوتی جس سے بچوں کی فیس وغیرہ کی ادائیگی ہو رہی تھی۔ جیٹھ کے دو لڑکوں سے وہ کافی خالف سی رہتی تھی۔ وہ ہر وقت بچوں کو چھت پر لے جا کر کھیلنا چاہتے تھے۔ ابا کے انتقال کے ڈیڑھ ماہ کے بعد اچانک بھابھی کی طبیعت بگڑ گئی ان کو بقائی ہسپتال لے جایا گیا انہیں دمے کا بہت شدید دورہ پڑا تھا۔ رات کو اس کی آنکھ کھلی تو اصغر کے رونے کی آواز آ رہی تھی کہنے لگا ’’اماں جی بھی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں‘‘ یکے بعد دیگرے دو غموں نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دکھ درد اور پریشانیاں بھول گئی۔
پھر ایک دن اچانک بیگ صاحب آ گئے وہ ان کو دیکھ کر ششدر رہ گئی کیونکہ وہ بھی ڈھاکے میں محصور تھے۔وہ ہندوستان ، نیپال اور بنکاک کے راستے پہنچے تھے ، بجائے اس کے کہ وہ اس کا دکھ درد بانٹتے وہ اس کی تکلیف اور پریشانیوں میں اضافہ کر گئے ان کی ایک بات بار بار اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ’’مجھے تو نہیں لگتا کہ جواد وہاں سے نکلنے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں ارے ان کی تو خوب عیش ہے۔‘‘ ان کا اشارہ ان کی دو عزیز لڑکیوں کی طرف تھا جو وہاں تھیں۔
اس نے صرف اتنا کہا ’’میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے اور اللہ بہتر کرے گا”
جواد کے جتنے خطوط آئے تھے اس میں سوائے دعاؤں ، وظیفوں، اوراد اور پریشانی کے کچھ نہ ہوتا ، وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں کتنا عیش کر سکتے ہیں ؟ پھر رفتہ رفتہ مختلف جاننے والوں کے بارے میں خبریں آ نے لگیں۔ فلانا آ گیا ہے ، جواد کے ایک اور قریبی دوست آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ نکلنے کی کوششوں میں ہیں اکیلے ہوتے تو کبھی کے آ چکے ہوتے دراصل ان لڑکیوں کی وجہ سے ان پر بھاری ذمہ داری آ گئی ہے اور ان کو بحفاظت نکالنا چاہتے ہیں۔‘‘
اچانک ایک روز ہ مژدہ جانفرا آیا کہ جواد ہندوستان میں بہار پہنچ گئے ہیں اور ڈاکٹر حمیدی کے ہاں ہیں۔ دلالوں اور اسمگلروں کے ذریعہ لانچوں سے ان کو دریا پار انڈیا پہنچا دیا جاتا۔ انڈیا پہنچ کر وہ آزاد اور محفوظ ہو جاتے تھے۔ قدرت کی کیا ستم ظریفی تھی یا خوشی تھی کہ برداشت سے باہر تھی لیکن جب تک یہاں پہنچ نہ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس قدر خوف اور خدشات تھے ان کو رقم کی اشد ضرورت تھی تاکہ آنے کے لیے ٹکٹ خرید سکیں۔ چھوٹے بھائی نے لندن سے فوراً رقم ٹرانسفر کی، انڈیا سے بارڈر کراس کرکے نیپال پہنچے کٹھمنڈو سے بنکاک اور پھر کراچی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک روئے جا رہی تھی۔ دور کہیں مرغوں کی بانگیں آنے لگیں ، لگ رہا تھا اندھیری رات کٹ جانے کو ہے لیکن اس کی ہچکیاں بند ہی نہیں ہو رہی تھیں ، آنسو تھے کہ بہے جا رہے تھے لگ رہا تھا ۔ضبط اور برداشت کا بند آج بری طرح ٹوٹ چکا ہے ، آنسو بھی کتنی بڑی نعمت ہیں اور رحمت ہے رب کی ، انسانی دل و دماغ کو ہلکا اور آسودہ کر دیتے ہیں وگرنہ انسان غموں سے اندر ہی اندر گھٹ جائے۔ یہ آنسو بہنا اس وقت اور آسان ہو جاتے ہیں جب کوئی ڈھارس ملتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ شروع ہو گئی۔ ابھی کراچی کی حبس ناک گرمی شروع نہیں ہوتی تھی۔
پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی ، جواد کے بے حس جسم میں پہلی مرتبہ حرکت ہوئی اس نے اس کی طرف کروٹ لی ، اپنے قریب کیا ہلکے سے پیار کرکے بس اتنا کہا ’’دیکھو اب میں آ گیا ہوں‘‘ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اسے لگا جیسے کہ اس کے سارے دکھ درد ختم ہو گئے ہیں ایک نئی صبح طلوع ہونے کو تھی ، مسجدوں سے فجر کی اذانیں بلند ہونے لگیں۔
حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الفلاح ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔ حی علی الصلوٰۃ ۔۔۔اللہ اکبر
۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ الصلوٰۃ خیر من النوم۔

اپنا تبصرہ لکھیں