منزلوں کی کہکشاں اک سفر اک داستاں

منزلوں کی کہکشاں اک سفر اک داستاں

تبصرہ پروفیسر نسیم ریاض

منزلوں کی کہکشاں مصنفہ کے شوق سفر کی داستاں ہے۔  مصنفہ نگر نگر گھوم نگ گ پھر کر مختلف تجربات و مشاہدات کا قیمتی اثاثہ جمع کر کے قارئین کی نذر کر رہی ہیں۔وہ کئی شہروں میں کچھ دیر پڑائو ڈال کر کچھ دیر وہاں کا جائزہ لیتی ہیں۔اپنے سفرنامے کے لیے مواد جمع ک کے آگے چل پڑتی ہیں۔یہ سفرنامہ نہ  صرف پاکستان کے شہروں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ بلکہ دنیا کے کئی اہم  شہروں کی بھر پور جھلک بھی دکھاتا ہے۔قارئین کے دل میں سیر و سیاحت کے شوق کو ابھارتا ہے۔مختلف علاقوں کا محل وقوع ان کے قدرتی وسائل، ذرائع معاش ، تعلیمی سہولتیں اور تفریحی مقامات ان شہروں میں رہنے والوں کی بود و باش اور طرز زندگی پر گہرا اثرڈالتے ہیں۔یہ وہ عناصر ہیں جو زندگی کا رخ متعین کرنے میں اہم  کردار ادا کرتے ہیں۔شہروں کی یہ کہانیاں ہمیں شہروں کی روشنیوں رنگینیوں ،تتلیوں اور جگنووں کے حوالے سے زندگی کی رونقوں اور رعنائیوں سے راشناس کراتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں رہنے والوں کے منفی و مثبت رویوں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔مصنفہ معاشرتی مسائل کا ذکر بھی کرتی ہیں۔وہ عوام الناس میں پائی جانے والی اوہام پرستی کی اصلاح کی بھی خواہشمند ہیں۔انداز بیان میں شگفتگی اور طنز و مزاح کا عنصر بھی موجود ہے۔جو قاری کو مختلف شہروں کی سیر کرنے پر بھی ابھارتا ہے۔ مسلمانوں کے دینی مراکز مکہ  معظمہ اور مدینہ منورہ کی ہوائوں اور فضائوں کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی امنگ پیدا کرنے کے لیے وہ اپنے حج کے سفر کا ذکر کرتی ہیں۔ بعض اوقات حج پر جانے والوں کو ٹکٹ او رویزے کا بندوبست کرنے والے منتظمین کی بد انتظامی سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے  ایسی مشکلات کو لطیف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اپنی دلی کیفیات اور روحانی سرور و سرشاری کے عالم کو خوبصورت انداز سے بیان کر کے دوسروں کے دل  میں بھی اس سفر مقدس کے شوق کی جوت  جگانے کی کوشش کی گئی ہے۔مکہ مظمہ میںخانہ خدا کے دیدار سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے تو مدینہ النبی میں روضہ محبوب الٰہی کے جلووں سے ایمان تروتازہ ہوتا ہے۔وہ مختصراً آغاز اسلام کے بارے میں بتاتی ہیں۔اور یہ کہ دین اسلام کی روشنی مکہ معظمہ سے نکل کر گلستان حیات کو منور کر گئی۔ لیکن وہ نہائیت تاسف سے اس حقیقت کا ذکر کرتی ہیں کہ آج ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے شمع اسلام کی لو مدھم پڑ رہی ہے، اور یہ طوفانی ہوائوںکی زد میں ہے۔وہ درد مندی سے سوال کرتی ہیں کہاں گئی ہمارے دلوں میں جگمگاتی شمع ایمان؟ کہاں ہے ہماری غیرت ملی؟وہ انتشار سے نالاں ہیں اور مسلمانوں کو اسلام کے پلیٹ فارم پر متحد دیکھنا چاہتی ہیں۔مصنفہ کو راولپنڈی اور اسلام آباد سے خاص نسبت ہے۔ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت انہی شہروں میں ہوئی۔راولپنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہر ہیں۔قاری کو ان شہروں کا مختصر تقابلی جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔یہاں کی آب و ہوا خوشگوار ہے۔راولپنڈی ایک پرانا شہر ہے۔ نالہ لئی اسکا مشہور نالہ ہے  جو پورے شہر کا حیوانی اور انسانی فضلہ سمیٹ کر بہتا ہے، راولپنڈی میں داخل ہونے الوں کا ستقبال کرتا ہے۔راولپنڈی کے گلی کوچوںمیں رواں دواں زندگی کے مناظر، زمینی حقائق کا عکس سفر نامے میں جیتے جاگتے کرداروں کا بیان  قاری کو راولپنڈی کی روزمرہ زندگی کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع مہیاء کرتا ہے۔اندرون شہر صفائی کا نظام نہائیت ناقص ہے۔ مصنفہ زیورات کی سجی سجائی دوکانوں کے دروازوں  کے نیچے بہتے متعفن نالیوں میں بہپتے کالے پانیوں  کو نظر انداز نہیں کر سکتی جہاں مکھیوں اور مچھروں کی کثرت ہے۔ان کے خیال میں دوکانوں کی آرائش پر پیسہ بہایا جاتا ہے  مگر آس پاس کی صفائی پر دھیان نہیں دیا جاتا۔قاری شاپنگ سنٹر میں مٹر گشت کے دوران محسوس کرتا ہے کہ راولپنڈی میں بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز پر چیزیں مہنگی ملتی ہیں۔ لیکن اکثر شام کے وقت یہاں پر لوگوں کی آمدو رفت اور سج دھج سے شامیں رنگین ضرور ہو جاتی ہیں۔مصنفہ اسلام آباد کو اپنا محبوب شہر گردانتی ہیں۔ یہ نیا شہر ہے ۔ پاکستان کا دارلخلافہ ہے۔اس کی عمارات جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔یہ قدرتی حسن و جمال سے ما  لا مال ہے۔سڑک  کے کنارے خوشنماء اور خوشبودار پھولوں کی کیاریاں فضائوں کو عطر بیز کیے دیتی ہیں۔مصنفہ شام کے وقت ہمیں شکر پڑیاں لے جاتی ہیں۔یہاں سے نظارہ کرنے والوں کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسلام آباد کی وادی میں ستاروں کی بارات پوری شان و شوکت سے جلوہ افروز ہو۔ پڑھنے والے آج کے اسلام آباد اور آج سے تیس سال پہلے والے اسلام آباد میں بہت فرق محسوس کرتے ہیں۔ان کے دل میں اک کسک سی اٹھتی ہے کہ وہ شہر جو امن و سلامتی کا گہوارہ تھا، آج شہر تمناء سے شہر آشوب کیسے بن گیا؟؟ کیا ناعاقبت اندیش سیاستدان اس کے زمہ دار ہیں یا ہم بین الاقوامی حالات اور سازشوں کا شکار ہیں۔مصنفہ مختصراً حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ارباب بست و کشود مادی وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو سارے مسلئلے آپ ہی حل ہو جائیںگے۔مصنفہ کا تعلق اگرچہ پاکستان سے ہے لیکن مستقلاً ناروے میں مقیم ہیں اس لیے اپنے ساتھ ساتھ قارئین کو دنیا کے انتہائی شمالی علاقے کی سیر پر لے جاتی ہیں ۔سردیوں میں اوسلو کی ٹھٹھرتی اور طویل راتوں میں شہر کہر اور دھند میں لپٹا رہتا ہے تاہم سمندر میں ڈوبی روشنیاں دھند کی وجہ سے جگنو بن کر چمکتی ہیں۔موسم سرماء میں انتہائی شمالی علاقوں میں کئی رنگوں کی انوکھی روشنیاں آسمان سے منعکس ہو کر بہت خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہیں ۔ گرمیوں کے دن اتنے طویل ہوتے ہیں کہ رات سکڑ کر دو ڈھائی گھنٹے کی رہ جاتی ہے۔ کبھی کبھی سارا دن سورج چمکتا ہے  ۔مقامی لوگ سورج کی حرارت سے لطف اندوز ہونے کے لیے سن باتھ لینے کے شوقین ہیں۔علاوہ ازیں سفرنامے میں ناروے کے طرز حکومت، رہن سہن اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ منزلوں کی کہکشاں مختلف علاقوں کے موسموں ، مناظر بود و باش پر روشنی ڈالنے کے علاوہ زندگی کی بہت سی حقیقتوں کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ یہ سیر و سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے مشعل راہ ہے۔

وعلیکم السلام                                                                                     پروفیسر نسیم ریاض                                                                                      اوسلو

اپنا تبصرہ لکھیں