یہ ہے جمہوریت کی اصل روح

سویڈن کی ڈائری عارف محمود کسانہ سویڈن
arifkisana@gmail.com
بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے اکثر یہ مقولہ دہرایا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جسے بد ترین جمہوریت کہا جاتا ہے کیاوہ جمہوریت ہی ہے یا کچھ اور ۔ شخصی جمہوریت اور خاندانی جماعتوں کو جمہوریت کا نام دینا جمہوریت کے منہ پر ایک تماچہ ہے۔ کوئی بھی نظام ہو وہ اپنی اصل شکل میں ہونا چاہیے ، اگر کفر بھی اپنی خالص صورت میں تو وہ بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ مغربی جمہوریت کے بھی مختلف ماڈل ہیں جن میں برطانوی، فرانسیسی، سوئٹزرلینڈ اور سویڈش ماڈل اہم ہیں۔ 14ستمبر کو سویڈن میں اگلی مدت کے لیے عام انتخابات ہورہے ہیں۔ ہر چار سال بعد ستمبر کے دوسرے اتوار کو سویڈش پارلیمنٹ کی 349نشستوں، 21 ریجنل (صوبائی) اسمبلیوں اور290 لوکل کونسل کے انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں۔یہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور چار فی صد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعت پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکتی یعنی وہاں رسائی کے لیے کم از کم اٹھارہ نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ لوکل کونسلوں کے لیے کم از کم تین فی صد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ ایک دو نشستیں لے کر بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں۔ ان انتخابات میں قبل از ووٹ ڈالنے کی بھی سہولت سب کے لیے ہوتی ہے اور لوگ مقامی کونسلوں، لائبریوں اور دیگر مقامات پر دو ہفتے قبل سے جا کر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ نہ وہاں کوئی پولنگ ایجنٹ ہوتا ہے نہ دھاندلی کی شکائیت ہوتی ہے ۔وہاں نہ پولیس ہوتی ہے اور نہ ہی پولنگ بکس غائب ہونے کو خطرہ۔ یہ سلسلہ دو ہفتے جاری رہتا ہے اور جن لوگوں نے قبل از وقت ووٹ نہیں ڈالے ہوتے وہ انتخاب کے روزجو کہ اس سال 14 ستمبر ہے پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ مجھے پاکستان میں دو مرتبہ بحیثیت پری زائڈنگ آفیسر انتخابات کروانے کا بھی تجربہ ہے مگر یہاں کا موحول ہی مختلف ہوتا ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے فرشتے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ اکھٹے کھڑے اپنے اپنے امیدواروں کے بیلٹ پیپر دے رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں، میڈیا اور دیگر کو ان دنوں سویڈن آکر یہاں کی انتخابی مہم اور جمہوریت کا یہ انداز بھی دیکھنا چاہیے۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی بے چینی کی وجہ وہاں کا نظام اور عدلیہ کا کردار ہے۔ اگر وہاں نظام عدل درست ہوتا اور عدلیہ اپنا کردار ادا کرتی تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے ہیں۔ جہان عدل نہیں ہوگا وہاں جدل ہوگا اور عدالتی نظام اور عدلیہ پاکستان کے بیشتر مسائل کہ وجہ ہے۔اگر اعلیٰ عدلیہ انتخابی دھاندلیوں کی شکایات پر داد رسی کرتی اور ماڈل ٹائون کے واقعہ پر بھی اپنا کردار ادا کرتی تو آج پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران نہ ہوتا ،نہ ہی ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا اور نہ ہی عالمی سطح پر جگ ہنسائی نہ ہوتی۔جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو وہاں مروجہ جمہوری نظام کے بارے میں مصور پاکستان علامہ اقبال نے بزبان ابلیس یوں کہا تھا کہ
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
اور علامہ سے تھوڑی معذرت کے ساتھ
تو نے کیا دیکھا نہیں پاکستان کا جمہوری نظام؟ چہرہ روشن، اندرون چنگیزسے تاریک تر
پاکستان میں آغاز سے ہی بالادست طبقہ نے قبضہ گروپ کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے اور وہ چہرے بدل بدل کر چاہے فوجی آمریت ہو یا شخصی جمہوری آمریت، اقتدار میں رہے اور وسائل کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے اور عوام صرف نعرے لگاتے رہے۔اس وقت سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں اور اسے ختم کرنے والوں میں محاذ آرائی جاری ہے۔ کبھی سویڈن میں بھی یہی استحصالی نظام تھا۔ بادشاہ اور کلیسا کے گٹھ جوڑ نے عوام کا جینا محال کیا ہوا تھا۔ جاگیردار اور امراء تو مزے لیتے رہے جبکہ عوام غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر امریکہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آج بھی شمالی امریکہ میں ہزاروں سویڈش قیام پذیر ہیں۔ شہروں کے اعتبار سے سٹاک ہوم کے بعد شکاگو میں سویڈش باشندوں کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔آج بھی امریکہ میں سٹاک ہوم، لند، سویڈن، لند، مالمو، گوتھن برگ، اپسالا، مورا، کارلستاد، نورا اور بہت سے سویڈش شہروں کے نام پر شہر اور قصبے موجود ہیں۔ پھر ایک وقت آیا اور سویڈش لوگوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد شروع کی۔ بادشاہ کو آئینی کردار اور کلیسا کو ریاست سے الگ کرکے اپنے لیے مثالی جمہوریت اور ایک دنیا کی بہترین ویلفیئر سٹیٹ قائم کی۔ انہوں نے سٹیٹس کو ختم کرکے جہالت کے خلاف جدوجہد کی جس سے غربت بھی ختم ہوگئی اور خوشحالی کا دور آگیا۔ پاکستانی عوام کو بھی ایسی ہی جدوجہد کرنا ہے۔ بالادست طبقہ کے مفادات کے تحفظ اور اُن کے اقتدار کو جمہوریت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے اکثر سیاستدان جب بھی نجی محفل میں ہوتے ہیںتو یہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی جمہوریت نہیں رہی اور وہاں نظریات اور اصولوں کی سیاست نہیں ہے بلکہ مفادات اور منافقت کا نام ہی سیاست ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سارے رہنما مغربی جمہوریت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی پاکستان میں رائج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ سیاسی جماعتوںمیں رکنیت سازی ہوتی ہے، نہ اُن میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔سیاسی جماعتیں خاندانی کمرشل ادارے بن چکے ہیں۔ لوگوں کے اکثریتی مسائل کا تعلق مقامی سطح سے ہوتا ہے لیکن کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور جب بھی پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو وہ ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف جیسے فوجی آمروں نے کروائے۔ جمہوریت کا درد رکھنے والی جماعتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یورپ میں بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور وہ بھی جماعتی بنیادوں پر۔ پاکستان میں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کے لیے سیاسی جماعتوں کا رکن بننا تو دور کی بات ، اُن کے ساتھ ہمدردی بھی نہیں رکھی جاسکتی۔ وہاں ملازمین کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق کسی جماعت کے ساتھ تو نہیں جبکہ اصل جمہوریت میں جو کہ یہاں یورپ میں ہے سیاسی جماعتوں کا رکن بننے یا انتخابات میں حصہ لینے لیے سرکاری ملازمت آڑے نہیں آتی۔ سویڈن میں بہت سے سرکاری ملازمین جن میں پولیس بھی شامل ہے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور منتخب ہوکر پارلیمان میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں اور بعد میں پھر اپنے محکمہ میں واپس اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے ہیں۔ سویڈن میں انتخابات کے موقع پر جامعات میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما جاکر اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور طلبہ کے سوالوں کے جوابات دیتے ہیں۔ سب سے دلچسپ یہ کہ انتخابات سے قبل سرکاری سطح پر ملک بھر کے ہائی سکولوں میںانتخابات کروائے جاتے ہیں۔ ان انتخابات کے لیے ایک الگ الیکشن کمیشن سرکاری طور پر بنایا جاتا ہے اور ہائی سکول کے طلبہ میں سے ہی اس کمیشن کے رکن ہوتے جو انتخابی نگرانی کرتے ہیں۔سکولوں میں تمام سیاسی جماعتوں کا لٹریچر اور منشور رکھا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دن مشترکہ طور پر سکول کی اسمبلی میں اپنی اپنی جماعت کا منشور پیش کرتے ہیں جس کے بعد بچے سوالات کرتے ہیں۔ اس انتخابی عمل میں سکولوں کے اساتذہ غیر جانبدار رہتے ہیں۔ساتویں سے نویں جماعت کے طلبہ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس سال سویڈن کے سکولوں یکم ستمبر سے بارہ ستمبر تک انتخابات ہوں گے اور پھراس کے نتائج شائع کیے جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ سیاسی عمل کا حصہ ضرور ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی طلبہ نتظیموں کی طرح جلسے جلوس، وال چاکنگ، اشتہارات اور تصادم کی صورت نظر نہیں آتی۔ سکولوں میں جمہوری عمل میں طلبہ کی عملی شرکت کے باوجود تعلیم سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہتی ہیں۔
انتخابات کے موقع پر تمام جماعتوں کے سربراہوںکے درمیان ٹیلی وژن پر براہ راست مباحثہ ہوتا ہے جہاں گھنٹوں انہیں کھڑا رہ کر تند وتیز سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے جسے عوام براہ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے ایک ہی جگہ پر قائم سیاسی کیمپ دوستانہ ماحول میں اپنی اپنی جماعتوں کے حق میں مہم چلا رہے ہوتے ہیں۔1986میں سویڈش وزیر اعظم اولف پالمے کے قتل کے بعد اِنگو َر کارلسون نے سویڈن کو بحران سے نکالا اور ملکی معیشت کو ترقی کی طرف گامزن کیا۔ ملک میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہوئی اور بے روزگاری سویڈن کی تاریخ میں سب سے کم سطح پر آگئی۔ 1994کے عام انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی کامیابی کے نتیجہ میں وہ دوبارہ چارسال کے لیے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن دو سال کے بعد ہی اُن کی ٹیکسوں کے بارے میں پالیسی اور بچت اسکیموں کی بنا پر مزدور تنظیموں اور اپنی جماعت کے کچھ اراکین کی تنقید کے بعد انہوں نے کسی تحریک، محاذ آرائی اور عدم اعتماد نہ ہونے کے باوجود از خود استعفیٰ دے دیا اور باقی دو سال کے لیے اسی جماعت کے ایک رکن یوران پرشون وزیراعظم بن گئے۔ جبکہ دوسری جانب جن پر بے گناہوں کاخون ہے ، انتخابات کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات ہوں اور اُس کے نتیجہ میں ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان اور ملکی وقار کو بے شک نقصان پہنچے لیکن کرسی نہیں چھوڑیں گے یہ جمہوریت نہیں بلکہ یہ ہے جمہوریت جہاں ڈپٹی وزیراعظم مونا سیلن کو محض چند دن کے لیے سرکاری رقم کو ذاتی استعمال میں لانے پر اُس کا وزیراعظم بننے کا راستہ بند ہوجاتا ہے حالانکہ اُس نے وہ رقم واپس بھی کردی تھی۔ یہ ہے جمہوریت جہاں سسٹم اور جماعت کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ فرد کی۔ یہ ہے جمہوریت کی اصل روح اور جمہوریت کے مداحوں کو اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو اس کی اصل صورت میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر جو ہورہا ہے وہی ہوتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں