یکجہتی کشمیرکے تقاضے

یکجہتی کشمیرکے تقاضے
راجہ محمد عتیق افسر

کشمیر دنیا میں حسن کا استعارہ ہے ۔ ارض کشمیر کو رب ذولجلال نے وہ حسن عطا کیا ہے کہ دیکھنے والی آنکھ اسے بے مثال کہے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جس سے کشمیر کو تشبیہ دی جائے یہی وجہ ہے کہ کشمیر کو اگر تشبیہ دی جاتی ہے تو جنت سے دی جاتی ہے ۔اس جنت ارضی پہ ایک ملت آباد ہے اس ملت کو بھی اقوام دنیا پہ قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ۔ملت اسلامیہ کشمیر کو اس ترکیب کا حصہ بنانے کے لئے حضرت بلبل شاہ ؒ ، سید علی ہمدانی ؒ اور دیگر بزرگان دین نے اپنی زندگیاں وقف کیں ۔ اہل کشمیر نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق خود کو ملت اسلامیہ کا حصہ بنایا ۔ کشمیر کی مسلم اکثریت کا تعلق کشمیر سے ہی ہے ۔ کشمیر میں مسلم اکثریت مسلمانوں کی کسی دوسرے علاقے سے کشمیر کی جانب نقل مکانی یا کسی فاتح کی جانب سے مقامی آبادی کے قتل عام کا شاخسانہ نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اہل کشمیر خود کو امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہیں اور اپنا ماضی حال اور مستقبل امت مسلمہ سے وابستہ کرتے ہیں ۔

“کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ـ” بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے اس تاریخی جملے کی بازگشت ہر وقت سنائی دیتی ہے اور اس وقت تو مزید بڑھ جاتی ہے جب کشمیر کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہو۔ بانی پاکستان کے نزدیک کشمیر کی پاکستان کے لیے اہمیت مسلم تھی اسی لیے وہ قوم کو اس راز سے آگاہ کر گئے ۔ پاکستان کے نام سے لے کر اسکے جغرافیہ ، سیاست ،دفاع، معاشرت اور معیشت غرض کسی بھی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ۔یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا جزو لاینفعک ہے ۔کشمیر کا جغرافیہ اور عین قلب ایشیا میں وقوع پزیر ہونا اس کی اہمیت کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔کشمیر وہ خطہ ارض ہے جس کی سرحدیں دنیا کی چار جوہری طاقتوں کے ساتھ ملتی ہیں ۔ موجودہ دور میں پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے ۔ چین ، منگولیا ، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کی ترقی کی شاہراہ کشمیر سے ہی گزرتی ہے ۔ کشمیر کے برگ و گل سے ٹپکنے والا قطرہ شبنم بھی جب جوئے آب اور دریائے تندو تیز کا روپ دھارتا ہے تو پاکستان کی زرعی زمینیوں کو لہلہاتی فصلیں اگانے کے قابل بنا تا ہے یعنی پاکستان کی زرخیز زمینوں کو سیراب کرنے والے سدابہار دریاؤں کا منبع کشمیر ہی ہے۔ گویاکشمیر کی آبادی ہی نہیں بلکہ کوہ ودمن اور حیوانات و جمادات بھی پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔اگر مادہ پرست دور میں مادیت کی آنکھ سے بھی جائزہ لیا جائے تو کشمیر کا تعلق پاکستان سے ہی بنتا دکھائی دیتاہے۔اس پہ مستزاد یہ کہ اگر تاریخ کا مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ خطہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا ۔ بلکہ براہ راست خلافت اسلامیہ سے منسلک رہا ہے ۔ کشمیر کے دفاع پر مامور افواج ترکی یا مشرقی ترکستان سے منگوائی جاتی تھیں۔پھر اک شب تاریک آئی اور یہ خطہ ارض بھی غیر مسلموں کے قبضے میں چلا گیا اور ظلم و بربریت کا ایک باب رقم ہوا۔پھر مایوسی کی شب تاریک میں اک آواز ابھری جس نے مسلمانان ہند کو جگا دیا اسی آواز نے کشمیر کے مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا کہ:”نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ” جب کشمیری مسلمانوں نے اس صدا پہ لبیک کہا تووہاں سے پاکستان اور کشمیری عوام کی یکجہتی کا آغاز ہوا۔کشمیر کے فرزندان توحید نے 13 جولائی 1931 کو ایک انوکھی اذاں دے ڈالی ایک آذان کو مکمل کرتے ہوئے 22 کشمیری نوجوان ڈوگرہ فوج کی بربریت کا شکار ہو گئے ۔ علامہ اقبال نے اس واقعے کے ردعمل کے طور پر 14 اگست 1947 کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا اور برصغیر کے تمام مسلمانوں نے یوم یکجہتی کشمیر منایا۔یوں علامہ نے پاکستان کی صورت جس مسجد کا خواب دیکھا تھا کشمیری عوام نے اس کے لیے اپنے خوں میں نہا کر اذاں دے ڈالی ۔
زمانہ طالبعلمی سے ہی نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ زیر مطالعہ رہی ہے جسکا مفہوم ہے کہ ” امت مسلمہ کی مثال ایک جسد واحد کی طرح ہے کہ جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اسکی تکلیف کو محسوس کرتا ہے”۔دنیا جہاں کے مسلمان ایک لڑی میں پرو دیے گئے ہیں انہیں یکجا کر دیا گیا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی گوشتے میں کوئی مسلمان تکلیف میں ہو گا تو دیگر تمام مسلمان اسکی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں گے اور اس درد کا درماں کریں گے ۔ جب تک مسلم امت اتحاد و یگانگت کا مظہر بنی رہی وہ قوت کی علامت بنی رہی مشرق سے لے کر مغرب تک ایک دوسرے کے درد کو محسوس کیا جاتا رہا۔ اور جب ذاتی ، علاقائی ، لسانی اور معاشی مفادات کے پردے دلوں پہ پڑے تو یہ امت بھی پارہ پارہ ہو گئی اور ہم اغیار کی کھینچی ہوئی لکیروں پہ فقیری کرنے لگے ۔امت کے اتحاد کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے امت کے ہمدردوں نے کوششیں کیں اور بیداری ملت کی تحریکیں اٹھائیں ان بیدار مغز افراد میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی آواز سب سے نمایاں ہے جو پکارتے ہیں کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

اقبال نے امت مسلمہ کے درد کی دوا کے طور پہ نظریہ پاکستان پیش کیا۔ اسکا مقصد یہ تھا کہ امت مسلمہ کے لیے ایسی ریاست قائم کی جائے جو انہیں فکری، علمی، سیاسی انحطاط سے نکال کر دوبارہ عروج پہ لے جائے اور تمام امت کو یکجا کر سکے ۔علامہ کا خواب انکی زندگی میں تو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا البتہ قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان ایک آزاد و کودمختار ریاست کے طور پہ دنیا کے نقشے پہ ابھرا۔ قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والے عناصر کی زبان پہ ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ ۔مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے بعد یہ واحد ریاست تھی جو کلمہ طیبہ کے نام پہ بنائی گئی ۔ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریت نے بھی پاکستان جیسے شجر سایہ دار کی چھاؤں میں اپنا مستقبل محفوظ جانا مگر اس وقت کی طاغوتی قوتوں کو کشمیر یوں کی پاکستان سے یکجہتی ہضم نہ ہوئی ۔انہوں نے ایک سازش کے تحت بھارت کو کشمیر تک جانے کا راستہ دیا بعد ازاں ہندوستان نے مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پہ کشمیر پہ چڑھائی کر دی ۔ اس یلغار کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا تھا ۔ کشمیر پاکستان اور اس وقت تک انگریز تسلط سے بچی رہنے والی ریاست مشرقی ترکستان (موجودہ سنکیانک) کے درمیان واقع ہے بھارتی جارحیت کا مقصد اس رابطے کو توڑنا تھا ۔دوسرا مقصد پاکستان کی سرزمین کو سیراب کرنے والے دریاؤں کو بھارتی قبضے میں دے کر پاکستان کی اقتصادی شہرگ کو کاٹنا تھا ۔ کشمیری عوام نے اس سازش کو بھانپ لیا اور مسلح بغاوت کے ذریعے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی ۔ کشمیری عوام کی مسلح جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کے طور پہ ریاست سوات کے مسلح لشکراور پنجاب کے سکاؤٹس کشمیر پہنچے۔ بھارت یہ مسئلہ اقوام متحدہ لے گیا اور اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور ساتھ ہی کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کی قرارداد بھی منظور کر ا لی۔ اب سات دھائیوں کی مدت بیت گئی مگر استصواب رائے کے کوئی آثار نہیں ۔

صورتحال یہ ہے کہ کشمیر کے بڑے حصے پہ بھارتی افواج کا ناجائز قبضہ ہے انسانی خون کی ارزانی اور حقوق کی پامالی ہے ۔ ریاست کی مسلم اکثریت نے اس ناجائز قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسکے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ وہ مسلسل زبان، قلم اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے اقوام عالم کو اپنی ظرف متوجہ کرتے رہے مگر شنوائی نہ ہوئی ۔ 1989 میں تحریک آزادی کشمیر نے ایک موڑ لیا اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ آج کل سیکولر طبقہ اسے مذہبی انتہا پسندی کی پیداوار قرار دے رہا ہے مگر حقیقت امر یہ ہے کہ اس مسلح جدوجہد میں قوم پرست تنظیمیں ، سیکولر تنظیمیں اور مذہبی تنٹظیمیں جوش اور جذبے کے تحت میدان عمل میں کودی تھیں ۔ مگر جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے محرک کی ضرورت ہوتی ہے وہ مذہبی جماعتوں میں نظریے اور نصب العین کی صورت موجود ہوتا ہے جبکہ سیکولر طبقہ اس سے خالی ہوتا ہے لہذا سیکولر طبقہ جلد ہی ہمت ہار گیا جبکہ مذہبی جماعتوں نے جہاد جاری رکھا۔ اس عسکری جدوجہد کے دوران کشمیریوں کی بڑی تعداد نے آزاد کشمیر اور پاکستان کا رخ کیا ۔ حکومتوں کی عدم توجہ کے باوجود پاکستانی عوام نے کشمیری عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔ مجاہدین کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا ۔ خواتین نے اپنا زیور اور بعض افراد نے اپنے لخت جگر پیش کیے ۔ میں ایسے افراد کو ذاتی طور پہ جانتا ہوں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو جہاد کشمیر کے لیے بھیج دیا اور وہ وہاں جا کر شہید ہوئے۔ہر طرف نعرے لکھے نظر آتے تھے ۔پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لاالہ الااﷲ، آزادی کی قیمت کیا۔۔۔لاالہ الااﷲ ، کشمیریوں سے رشتہ کیا ۔۔۔لاالہ الااﷲ، گویا تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کشمیری عوام اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔۵ فروری یوم یکجہتی کشمیر، کشمیری عوام کی پاکستان کے ساتھ دلی وابستگی اور قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے منایاجاتا ہے ۔
جہاں تک تعلق ہے پاکستانی عوام کا ان کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ، مگر ہمارے حکمرانوں کا سیاسی قبلہ درست نہیں جسکی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک زیر التوا ہے ۔ ہمارے سروں پہ ایسے حکمران مسلط ہیں جو امت کا درد رکھتے ہی نہیں ۔ سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے تو خون شہیداں پہ مٹی ڈال دی ۔بھارت کو لائن آف کنٹرول پہ باڑ لغانے کی اجازت دے دی۔ آرپار آنے جانے والے راستے مسدود ہونے کی وجہ سے تحریک آزادی کشمیر کو بہت نقصان پہنچا۔اور “سب سے پہلے پاکستان ” کا نعرہ لگا کر خود کو امت مسلمہ سے کاٹ دیا۔ اس طرح کے اقدامات سے یکجہتی کی فضا آلودہ اور مکدر ہو کر رہ گئی ہے۔ ۵ فروری کو یوم یکجہتی منانا بھی ایک رسم ہی بن کر رہ گئی ہے ۔ دوسری جانب میڈیا میں بھی اس مسئلے کو صرف ایک سرحدی تنازعہ کے طور پہ پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ پاکستان کی تکمیل اور بقا کی جنگ ہے ۔ آج پاکستانی قوم اندھیروں میں ڈوب رہی ہے اور بھارت پاکستانی دریاؤں پہ ڈیم بنا کر ہمارا پانی بھی بند کر رہا ہے ۔ ہماری زراعت خطرہ سے دوچار ہے اور ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔

اس صورت حال میں ہمارا فرض ہے کہ مسئلہ کشمیر کو امت مسلمہ کے مسئلے کے طور پہ اجاگر کرائیں ۔ امت مسلمہ کو باور کرائیں کہ کشمیر سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ تمام امت مسلمہ کا مسئلہ ہے ۔ تمام مسلم ممالک کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا ہمنوا بنایا جائے اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت عالمی برادری پہ دباؤ ڈال کر اسے حل کیا جائے ۔ اس سلسلے میں بھرپور سفارتی کاوشوں کی ضرورت ہے کشمیری عوام کی جدوجہد کی سفارتی اور اخلاقی حمایت خوب ڈٹ کر کی جائے اور خود کو تحریک آزادی کشمیر کا پشتیبان ثابت کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں میں اس مسئلے کی اصل روح اجاگر کریں تاکہ ہماری نوجوان نسلاس مسئلے سے آگاہ ہو اور اسکے حل کے لیے سنجیدہ ہو۔ میڈیا کی ذمہ داری تو موجودہ دور میں دوچند ہو گئی ہے مگر ہمارا میڈیا بدقسمتی سے بھارت یاترا اور امن کی آشا کے گن گا رہا ہے ۔ اور یہاں تک آزاد ہو گیا ہے کہ پاکستان کی اسلامی اساس کو بھی سوالیہ نشان بنا ڈالا ہے ۔ خدارا پیمرا اہلکار اسکا نوٹس لیں اور میڈیا کو لگام دی جائے اور ضابطہ اخلاق کا پابند کیا جائے۔میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے کو پاکستانی پس منظر میں اجاگر کریں ۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم 20 کروڑ سے زیادہ زندہ نفوس ہیں اگر ہم ایک ایک خط ہی اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو بھیج دیں تو شاید کروڑوں خطوط کی تاب وہ شاید ہی لا سکیں ۔اگر ہم بحیثیت قوم غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اس مسئلے کے حل کی کوشش کریں تو وہ وقت دور نہیں جب ہم کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرا دیں ۔ ان شا ء اﷲ کشمیر یوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور کشمیر پہ آزادی کا سورج ضرور طلوع ہو گا۔
آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اسقدر ترنم آفریں ہوگی باد بہار
نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان ِچمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی

یکجہتی کشمیرکے تقاضے“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں