یوں شمعیں دسمبر میں جلاتے نہیں ہیں

یوں شمعیں  دسمبر میں جلاتے نہیں ہیں 

دیکھو روٹھ کر بچے جاتے نہیں ہیں

 
 
جب تو پیدا ہوا گھر سارا مسحور تھا 
تیرا ہنسنا زمانے میں مشہور تھا 
 
کتنے سپنے تیرے بستے میں قید تھے 
خوشیاں تھیں چہار سو غم تو ناپید تھے 
 
کر گیا بے نور ماں کے صبح و شام کو 
رلا گیا اک گھڑی میں خاص و عام کو 
 
اک چادر میں اسے کیوں اٹھا کر چلے 
کوئی کمبل ہی ڈالو کیوں تڑپا کر چلے 
 
گودیں اجڑی ہوئی ماؤں کی قبریں بنیں 
آہ  دل سے جو نکلی زمیں ہلنے لگی 
 
کھیل جس نے یہ کھیلا ہے ثمر پائے گا 
کل کائنات ہے اس کی اب کدھر جائے گا 
 
{عمران جونانی}
اپنا تبصرہ لکھیں