یورپ کی مسلم کمیونٹی چیلنج اور جواب

 

یورپ کی مسلم کمیونٹی  چیلنج اور جواب

حافظ محمد ادریس

یورپ روایتی اور تاریخی طور پر اسلام کا حریف رہا ہے۔ صلیبی جنگوں کی تاریخ طویل بھی ہے اور صلیبیوں و مسلمانوں دونوں کے لیے سبق آموز بھی۔ اسپین کے ساحلوں پہ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان فوجوں کے اترنے اور اس پورے علاقے کو فتح کرلینے میں بھی ایک سبق پنہاں ہے۔ پھر چھ سات سو سال کی حکومت اور اس عرصے میں مثالی علمی و سائنسی پیش رفت، جامعات کے قیام، لائبریریوں اور علمی مراکز کی بہار، سائنسی علوم و فنون اور علوم کی تمام شاخوں میں اعلی درجے کے ارتقا کے بعد مسلمانوں کا زوال اور سقوطِ غرناطہ و قرطبہ بھی قانونِ طبعی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کے اس المناک زوال اور بدترین شکست کے اندر بھی کئی تہہ در تہہ سبق و عبرت کے ابواب مضمر ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی شکست بیرونی جارح دشمنوں کی قوت سے زیادہ اندرونی سازشوں اور منافق عناصر کی کارستانیوں کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہے۔اسپین کے زوال کے ساتھ ایک دوسرا پہلو اور تاریخی حقیقت بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ جس سال اسپین سے اسلام کے اثرات کھرچ کھرچ کر مٹائے جارہے تھے، عین اسی سال اور انھی ایام میں دوسری جانب یورپ کے شمال سے تاریخ کا ایک اور باب بھی حیرت انگیز طور پر خود کو منوا رہا تھا۔ عثمانی ترکوں نے یورپ کو اپنی سطوت و قوت سے شکست و ریخت سے دوچار کررکھا تھا، سارا مشرقی یورپ ان کی خلافت کا حصہ بن چکا تھا اور وہ یورپ کے دل ویانا کا 1492 میں محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ مسلمان تو اسپین کو بھول گئے مگر یورپ نے آج تک ویانا کے اس محاصرے کی تلخ یادوں کو فراموش نہیں کیا۔ آج ترکی پھر عروج کی منزلیں طے کررہا ہے اور یورپ میں کئی عناصر اسے اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ مغربی تھنک ٹینکس کے لیے آج یہ موضوع انتہائی اہمیت اور توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ترکی میں عثمانی خلافت کا زوال بھی ایک بڑا المیہ تھا۔ اس کے لیے مغرب نے اپنا سارا زور صرف کیا۔ براہِ راست حملے بھی ہوئے، مگر سازشوں کے جال پھیلا کر ترک خلافت کو کھوکھلا کیا گیا۔ ترکی یورپ کا مردِ بیمار بنادیا گیا۔ پھر اس کے حصے بخرے ہوئے۔ ہر ٹکڑا مغربی ایجنٹوں کے زیرِ حکومت دے دیا گیا۔ مرکزیت ختم ہوکر رہ گئی اور یورپ نے اپنے پروردہ لیڈر مصطفی کمال پاشا کو استعمال کرکے خلافت کا مکمل خاتمہ کردیا۔ ہرچند کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں خلافت برائے نام رہ گئی تھی مگر اس کی وجہ سے مسلمانوں کی مرکزیت کا تصور زندہ تھا۔ خلافت کا خاتمہ ہوا تو مغرب نے سکھ کا سانس لیا۔ اسرائیل کے قیام میں خلیفہ ترکی نے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود رکاوٹ ڈال دی تھی۔ مصطفی کمال کے مسلط کیے جانے کے بعد ساری رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ عالمِ عرب میں بھی یورپ نے اپنی ڈھب کے حکمران مسلط کردیے اور کمال پاشا (جسے اتاترک بنادیا گیا) جیسے فری میسن کے ذریعے ان کا سارا حلیہ بدل دیا گیا۔ کہاں ترک اسلام کا دفاع کرنے کی شہرت رکھتے تھے اور کہاں ترکی کو سیکولر ریاست بناکر دین اور اسلام کا نام تک لینا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ مقامِ عبرت تھا، یہ زوال کی آخری حد تھی۔آج ترکی میں یقینا فضا بدل چکی ہے۔ اگرچہ سیکولر دستور کو تو ابھی تک ختم نہیں کیا جاسکا، مگر اس سیکولر ترکی نے اپنا دامن اسلام پسندوں یعنی یورپی اصطلاح میںIslamists کے لیے فراخ دلی سے کھول دیا ہے۔ ایک ہی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تیسری مرتبہ برسراقتدار آگئی ہے اور صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم رجب طیب ایردوان دونوں کا تعلق اسی پارٹی سے ہے۔ ملک کی معیشت زیرو سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اور یہ انقلاب محض دس سال کی قلیل مدت میں برپا ہوگیا ہے۔ ترکی کی شوکتِ رفتہ واپس آرہی ہے۔ جو کام سیکولر قوتیں پون صدی میں نہ کرسکیں وہ اسلام پسندوں نے دس سال میں کردکھایا ہے۔ یہ اسلام کا معجزہ ہے۔ یورپ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔یورپ میں اسلام دشمن عناصر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ زمین ان کے پائوں کے نیچے سے کھسکتی جارہی ہے۔ وہ پاگل پن کا اظہار کرتے ہوئے کبھی اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں، کبھی قرآن کی بے حرمتی کا ارتکاب کرتے ہیں، اور کبھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے اور توہین آمیز فلمیں بنا کر اپنے خبث ِباطن کو طشت ازبام کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بوکھلاہٹ میں جو کچھ بھی کررہے ہیں، وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کی ہر خبیث حرکت سے خود ان کے اپنے ممالک میں ایک سویا ہوا طبقہ بیدار ہوجاتا ہے اور اس وحشیانہ حرکت کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ یورپ کا بے خبر انسان اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کا مطالعہ کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ کئی طبقات کے دلوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے اور یوں شر سے خیر برآمد ہونے کی سبیل نکل آتی ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فلم بننے پر برازیل میں جو ہزاروں لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ان میں مسلمان بہت کم تھے، باقی سب عیسائی اور دیگر غیرمسلم کمیونٹیز کے لوگ تھے۔ یورپ کے تمام ممالک میں بھی اس موقع پر غیر مسلموں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِِ یک جہتی کے بھرپور مظاہرے کیے۔ناروے کی ملکہ نے اسلامک کلچرل سینٹر میں اسلامی لباس پہن کر مسجد میں حاضری دی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے انتہائی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ سوئیڈن کے شہر فسک سوترا (Fisksautra) میں عیسائی پادریوں نے اپنے گرجا گھر کے وسیع و عریض قطعہ اراضی میں سے ایک حصہ وہاں کی مسلم سوسائٹی کے نام برضا و رغبت منتقل کردیا اور کہا کہ یہاں آپ لوگ مسجد یعنی اللہ کا گھر (Guds Hus) اپنے خرچے اور اپنے نام سے تعمیر کریں۔ ایک وقت وہ تھا کہ مسلمان گرجا گھروں کی عمارات خریدکر مساجد میں تبدیل کرتے تھے، آج الحمدللہ دشمنانِ اسلام اور انتہاپسند عناصر کی حرکتوں سے اظہارِ نفرت کرتے ہوئے بعض گرجا گھروں کی انتظامیہ اور ان کے اربابِ حل و عقد برضا و رغبت اور بلاقیمت اپنے پلاٹ خانہ خدا کی تعمیر کے لیے وقف کررہے ہیں۔ ہمارا اپنا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں ہی میں سے یہاں کے بعض عناصر نے ان مسلمان شخصیات اور اداروں کے خلاف مہم شروع کردی ہے جو ایسے قطعات پر مساجد تعمیر کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ جب ایک زمین مسلمانوں کے نام منتقل ہوجائے اور رضاکارانہ طور پر کوئی ہدیہ دے دے، پھر مسلمان اسے وقف قرار دے دیں تو اس پر کوئی بھی اسلامی ادارہ اور مسجد بنائی جاسکتی ہے۔یورپ کی عام آبادی کا ذہن کلین سلیٹ کی طرح ہے۔ ان کے کلچر اور معاشرت میں جو اخلاقی عیوب اور برائیاں پائی جاتی ہیں، معاشرے نے ان کو برائی نہیں سمجھا، مثلا شراب، جوا، آزادانہ اختلاطِ مرد و زن، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں، مگر ان بے چاروں کو اس کا نہ احساس ہے، نہ ان کی تعلیم و اقدار میں ان کو آج برا گردانا جاتا ہے۔ جب یہ لوگ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے اخلاقی پہلوئوں سے متعارف ہوتے ہیں تو ان اقدار کی خرابیاں جو بہرحال ہر شخص کسی نہ کسی حد تک محسوس کرتا ہے، اجاگر ہوکر ان کے سامنے آجاتی ہیں اور وہ اسلام کی طرف مائل بھی ہوتے ہیں اور ان برائیوں کو ترک کرنے پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ عام یورپی لوگ آج نہیں تو کل ضرور اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔ اِس وقت بھی ہر مسجد میں اس ملک کی مقامی آبادی میںسے کچھ نہ کچھ مسلمان خواتین و حضرات نمازوں میں، بالخصوص جمعہ کی نمازوں میں نظر آتے ہیں، کہیں کم، کہیں زیادہ۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی نوجوان (بالعموم بچیاں) اسلام قبول نہ کرتا ہو۔ 21 اکتوبر کو اسلامک کلچرل سینٹر ناروے میں مسلم نوجوانوں (بچوں اور بچیوں) کے لیے ایک لیکچر پروگرام تھا جس میں کئی نارویجین مسلم لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ اس موقع پر بھی ایک نارویجین لڑکی نے اسلام قبول کیا۔ اللہ تعالی اس بچی کو ثابت قدمی عطا فرمائے اور ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔یورپ کے ہر ملک میں عموما وہ سیاسی پارٹیاں برسراقتدار ہیں جو غیرملکی باشندوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرتی ہیں، مگر ہر یورپی ملک میں سیاسی میدان میں ان پارٹیوں کا وجود بھی پایا جاتا ہے جو انتہائی شدت پسند اور غیر ملکیوں کو مکمل طور پر اپنے ممالک سے نکال باہر پھینکنے کا منشور رکھتی ہیں۔ ان میں سے بعض عناصر تو وہ بھی ہیں جو غیرملکیوں کے قتل عام کا بھی پرچار کرتے ہیں، اور اگر کوئی مقامی پارٹی اس سے اختلاف کرے تو اس پر مسلح حملہ کرنے کو حب الوطنی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس کی بدترین مثال پچھلے سال موسم گرما میں ناروے میں سامنے آئی۔ یہاں حکمران لیبر پارٹی میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ ان میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے باشندے کونسلرز، میئرز اور ایم پیز (M.Ps) بھی ہیں۔ ایک انتہاپسند گروپ سے تعلق رکھنے والے نارویجین نوجوان برائیویک نے اوسلو کے قریب ایک پرسکون و پرامن جزیرے میں منعقدہ لیبر پارٹی (یوتھ ونگ) کی کانفرنس پر حملہ کیا۔ اس کے پاس ایک نہیں کئی لوڈڈ بندوقیں تھیں۔ اس نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔ آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ سب لوگ محتاط ہوجائیں، کوئی دہشت گرد کارروائی ہونے والی ہے۔ لوگ سمجھے کہ پولیس آفیسر انھیں محتاط رہنے کی تلقین کررہا ہے۔ وہ سب ایک جگہ سمٹ گئے۔ اب اس نے نشانے باندھ باندھ کر ان لوگوں کو قتل کیا۔ بھگدڑ مچی تو بے چارے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے جان بچانے کے لیے پناہ تلاش کرنا چاہی مگر کوئی پناہ نہ تھی۔ کئی سمندر میں چھلانگ لگا گئے۔اس خونیں اور ہولناک سانحہ میں 72 نوجوان قتل ہوئے، اور جب سب میگزین خالی ہوگئے تو اس دہشت گرد نے اعلان کیا کہ وہ ناروے کو ان تمام عناصر سے پاک کرنا چاہتا ہے جو اس میں غیرملکیوں کو لاکر مسلط کررہے ہیں۔ اس نوجوان کا کیس عدالت میں سال بھر چلا۔ بے شمار شہادتیں، اس کا اپنا اعترافِ جرم اور اس جرم کی شناعت سب کے سامنے تھی۔ وہ ہر پیشی پر نیا سوٹ زیب تن کرکے آتا اور سماعت کے دوران مسکراتا رہتا۔ اس کی تصویریں بنتیں تو وہ انگلیوں سے وکٹری کے نشانات بناتا۔ اس نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ اسے اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں، اسے موقع ملا تو وہ اپنے مشن کے لیے کام جاری رکھے گا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج لوگ جس حقیقت کو نہیں مان رہے، ایک وقت آئے گا کہ سبھی بڑے چھوٹے اس کے موقف کے حامی ہوں گے۔ عدالت نے اس دہشت گرد کو 72 بے گناہ افراد قتل کرنے کے باوجود 22 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اس میں سے ایک سال گزر چکا ہے۔ دن رات شمار ہوتے ہیں۔ یوں یہ سزا صرف 11 سال ہوگی۔ اب یہ سزا دس سال رہ گئی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ایک جان کی قیمت ڈیڑھ ماہ سزائے قید بنتی ہے۔ یہ ہے مغربی تہذیب کا کمال۔ چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر!ناروے کے باشعور لوگ، دانش ور اور سیاستدان کھلے عام اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے ملک کی تعمیر و ترقی میں غیر ملکیوں، بالخصوص پاکستانیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ یہ بات بلاشبہ درست ہے، کیوں کہ پاکستان سے جانے والوں نے ہر میدان میں ملک کی ترقی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ ایک بہت بڑی رقم بطور ٹیکس بھی سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ دہشت گردی کے نتیجے میں قتل ہونے والے نوجوانوں کے خاندان انتہائی غمزدہ ہیں۔ اب لوگوں کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ان کے ملکوں سے سزائے موت کے قوانین کا خاتمہ انسانیت کے لیے کس قدر تباہ کن ہے۔ مغرب کی پوری کوشش بلکہ دبائو ہے کہ مسلم ممالک میں بھی قانونِ قصاص کو ختم کرا دیا جائے۔ قرآن نے قصاص کو انسانی زندگی کی ضمانت اور اس کے تحفظ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات مغربی آبادیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیں گے کہ وہ مجرموں سے ہمدردی پر مبنی قوانین کی حقیقی تصویر کو پہچانیں اور مظلوموں کی دادرسی کے لیے کوئی اقدام کریں۔ اسی سے اسلام کی طرف بھی لوگوں کی توجہ مرکوز ہوگی۔ قتل ہونے والے نوجوانوں میں بھاری اکثریت مقامی سفید فام نارویجین نوجوانوں کی تھی، مگر چند ایک صومالی اور ایرانی نوجوان بھی اس دہشت گردی کا شکار ہوئے۔یوں یورپ میں مثبت و منفی ہر طرح کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے چیلنج بھی بڑے بڑے ہیں اور مواقع بھی بے شمار۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں قربِ قیامت سے قبل رونما ہونے والے واقعات میں سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا بھی تذکرہ ہے۔ یہ سورج عملا مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے گا، مگر اسی حدیث سے استنباط کرتے ہوئے علامہ یوسف قرضاوی نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ اس سچی پیشن گوئی میں تو کوئی شک ہی نہیں، مگر اس میں ضمنا یہ بشارت بھی پنہاں ہے کہ قیامت سے قبل مغربی دنیا نورِ اسلام سے منور ہوجائے گی اور ہر جانب اسلام کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔ اگرچہ آج ان کی یہ تعبیر بعید از امکان محسوس ہوتی ہے مگر جو لوگ پرامید رہا کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ ناممکن نہیں۔ یورپ پکا ہوا پھل ہے، اسے اسلام ہی کی گود میں گرنا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اہلِ اسلام نام کے مسلمان سے کام کے مسلمان بن جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں