یمانداری اور کامیابی

یمانداری اور کامیابی

ایمانداری اور کامیابی


شازیہ عندلیب
آج ہماری قوم کے زوال کی وجوہات میںدوسری خامیوں کے علاوہ ایک بڑی خامیاں بے ایمانی بد نیتی اور قول و فعل کا تضاد بھی ہیں۔آج پوری دنیا میں پاکستانی قوم ایک بے ایمان اور بد کردار قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔اس لیے کہ ہمارے موجودہ لیڈروں میں یہ خصلتیں پائی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کبھی امریکی ہوائی اڈوں پر انکے جوتے اتار کر تلاشی لی جاتی ہے تو کبھی لندن میں ان پر جوتے کے نشانے لیے جاتے ہیں ۔اور اب تو یورپین ممالک کے امیگریشن والے ہمارے ملک کے لوگوں کو آسانی سے ویزہ ہی نہیں دیتے۔اس موضوع پر اظہار رائے کا خیال مجھے ایک آرٹیکل پڑھ کر آیا۔جو اسی موضوع پر تھا۔مضمون میں بیچارے پاکستانیوں کو بیرون ملک کے ویزے کے حصول میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر تھا مگر مضمون نویس نے نہ جانے کیوں اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ میں نے پھر بھی اسے پہچان لیا تھا ۔اس لیے کہ ایک لکھاری دوسرے لکھاری کی رمزیں پہچانتا ہے کہ اس نے یہ آرٹیکل کس زاویہ سے لکھا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل کر فرما ہیں۔اسکا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ۔مگر میں یہاں اپنے پیارے ابو جان کا ذکر ضرور کروں گی۔جن سے میں نے کامیاب زندگی کا سنہرا اصول سیکھا۔ میرے ابو ایک سیلف میڈ اور کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔اس کے علاوہ انکی پر کشش شخصیت اور خوش اخلاقی کی خداداد صلاحیت نے انہیں ہر دلعزیز بنا دیا تھا۔میرے ابو اکثر ہمیں کہا کرتے تھے Honesty is the best policy. ۔یہ اصول انہوں نے انگریزوں سے سیکھا تھا۔ا سلیے کہ ابو نے برطانوی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔زندگی کا یہ عملی وصف بھی انہی سے سیکھا۔اسی کی بدولت برطانیہ نے آدھی دنیا پر حکومت کی۔ گو کہ ہوسیع و عریض سلطنت برطانیہ کی سلطنت کا سورج غروب ہوئے برسوں بیت چکے ہیں لیکن اقوام عالم میںملک برطانیہ آج بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے۔ پاکستانی آج بھی وہاں جانا وہاں تعلیم و روزگار حاصل کرنا وہاں کی نیشنلٹی ہولڈر لڑکے لڑکیوں سے رشتے جوڑنا اور وہاں کی سیر کرنا فخر سمجھتے ہیں۔اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔یہ بات برطانوی حکام بھی خوب جان گئے ہیں اسی لیے انہوں نے پاکستانیوں کے لیے امیگریشن قوانین سخت سے سخت کر دیے ہیں۔اس بات میں شک نہیں کہ مسلمان اقوام نے بھی دنیا کے کئی بڑے علاقوں پر حکومت کی لیکن وہ سب داستان پارینہ بن چکی ہیں۔ یہ ہمارے سنہرے ماضی کے پرانے قصے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم آج کیا ہیں؟ کس ڈگر پر چل رہے ہیں؟ کس کا ساتھ دے رہے ہیں؟کئی لوگ غیر مسلموں کا حوالہ سن کر چراغ پا ہو جاتے ہیں تو پھر آپ لوگ اپنی قوم میں سے قابل تقلید لوگوں کو آگے لائیں۔صرف اعتراض ہی کرنا کافی نہیں۔
بات ہو رہی تھی میرے ابو جان کی ۔میں انکی ایمانداری اور کامیاب شخصیت کی وجہ سے ان پر فخر کرتی ہوں۔ان کی اچھی کاروباری ساکھ کی وجہ سے ہرشخصخ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا۔انہوں نے کئی لوگوں کی کاروباری رہنمائی کی جو آج اسلام آباد اور راولپنڈی میں کروڑ پتی  بزنس مین ہیں۔ لیکن ابو نے کبھی کسی سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔اگر کوئی ان سے بے ایمانی کرتااور رقم ادا نہ کرتا  تو وہ کہتے تھے کہ کوئی بات نہیں میں اگلے جہان میں لے لوں گا۔آج میں انہی لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ کیسی کسمپرسی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔مگر انہوں نے اپنی یہ روش پھر بھی نہیں چھوڑی ۔ ان لوگوں کو دیکھ کر حیرا نی ہوتی ہوں جنہوں نے بے ایمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔اس سے وقتی فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن انسان کبھی آن بان سے زندگی نہیںگزارار سکتا۔جو افراد اور قومیں بے ایمانی اور بد دیانتی کو وطیرہ بنا لیتی ہیںوہ افراد اور قومیں زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ہماری قوم کے لوگ تو مذہب کے نام پر بھی دھوکہ دہی اور فریب سے نہیں چوکتے۔یہاں ناروے میں ایسی بیشتر مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔لوگوں نے وطن تو چھوڑ دیا مگر اپنی بے ایمانی کی روش نہیں چھوڑی۔بیشتر مساجد میں براجمان لوگ مساجد کے لیے حاصل کی جانے والی چندے کی رقوم بھی خر دبرد کرنے سے باز نہیں آتے۔یعنی کہ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈائریکٹ فریب کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔قرآن حکیم میں صاف ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ایسی مساجد کو مسمار کر  دیاجائے جو ناجائز رقم سے تعمیر کی گئی ہیں یا پھر منافقین کی تحویل میں ہیں۔ایسی مساجد اور دینی ادوروں کے منتظمین ادارے کا حساب کتاب عوام کو بتانے سے کتراتے ہیں اور جواب دہی سے بچنے کے لیے خود توغائب ہو جاتے ہیں ،مگرلوگوں کو اداروں میں حاضر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ظاہر ہے وہ لوگ جو کہ اپنا حساب کتاب سب کے سامنے کھلا رکھتے ہیں ان اداروں پر کوئی شک نہیں۔اگر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو بیشتر افراد اایسے نظر آئیں گے جو ہاتھوں میں تسبیحیں رولتے نیکی و پارسائی کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔جبکہ اپنے روزمرہ کے لین دین میں اول درجہ کے بد دیانت ہیں۔ان کے دلوں کو ٹٹولیں تو ان میں حسد بغض کے الائو بھڑکتے نظر آئیں گے۔ایک نہ ایک روز انہیں اسی آگ میں جلنا ہے اگر انہوں نے اپنی یہ روش نہ چھوڑی تو۔یہ لوگ دین اسلام کے لیے  اور قوم کے لیے سراسر نقصان کا باعث ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں ایذا پہنچا کر فساد برپا کیا جائے ۔یہ لوگ تو خود آگ کے گڑہوں میں کودنے کی تیاری کر رہے ہیںانکا علاج یہ ہے کہ انکا بائیکاٹ کر کے انکی سرگرمیوں کو پھولنے پھلنے سے روکا جائے۔یہاں ایمانداری کے چند اقوال اور  مثالیں پیش خدمت ہیں جن سے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رہنمائی لے کر کامیاب زندگی گزاری جا سکتی ہے۔سب سے پہلے دیانتداری کے بارے میں مشہور افراد کے اقوال ملاحظہ کریں۔

دیانت دار انسان دنیا میں خدا کی بہترین تتخلیق ہے۔
پوپ
دیانت آدمی خواہ کس قدر غریب کیوں نہ ہو اس کے باوجود وہ انسانوں کے درمیان ایک سلطان کا درجہ رکھتا ہے۔
پرنس
میں پریذیڈنٹ بننے کے بجائے ایک دیانت دار انسان بننا پسند کروں گا۔
ہنری کلے
دیانت داری اور سچائی کے بارے میں شیخ عبدلقادر جیلانی  کا واقعہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔یہ آپ نے پہلے بھی سنا ہو گا لیکن اچھی بات جتنی بار سنی جائے اسکا فائدہ ہوتا ہے جیسے کسی مشہور پراڈکٹ کی تشہیر کا فائدہ ۔یہاں تک کہ وہ بات آپکو ذہن نشین ہو کر کردار کا حصہ بن جائے۔کہتے ہیں کہ حضرت عبدلقادر کو سفر پر روانہ کرتے وقت ماں نے انہیں چالیس دینار سفر خرچ کی مد میں دیے۔چلتے وقت ماں نے نصیحت کی ۔جائو بیٹا خدا حافظ ہو سکتا ہے ہم ماں بیٹا کی ملاقات نہ ہو سکے لہٰذا مجھ سے وعدہ کرو کہ زندگی بھر جھوٹ نہیں بولو گے۔عبدالقادر جیلانی نے ماں سے وعدہ کیا اور سفر پر روانہ ہو گئے۔چند دن سفر کے بعدڈاکوئوں نے قافلہ پر حملہ کیا۔ایک ڈاکو نے شیخ عبدالقادر سے پوچھا بتا تیرے پاس کیا ہے؟
شیخ عبدالقادر نے جواب دیا۔چالیس دینار جو میری قباء میں سلے ہوئے ہیں۔یہ جواب سن کر ڈاکو ہنس پڑا۔
اس پر دوسر ے ڈاکو نے کڑک کر پوچھا ۔سچ سچ بتا تیرے پاس کیا ہے؟
شیخ عبدالقادر نے پھر وہی جواب دہرایا۔مگرڈاکوئوں نے اس بات پر یقین نہ کیا۔کیونکہ جواب بڑی سادگی اور صفائی سے دیا گیا تھا۔داکووں نے انہیں پکرا اور اپنے سرادار کے پاس لے گئے۔سردار نے پوچھا۔
اے لڑکے اگر تو اپنی جان کی امان چہتا ہے تو سچ سچ بتا دے تیرے پاس کیا ہے ورنہ جھوٹ بولو گے تو سزا پائو گے۔
حضرت شیخ عبدالقادر نے جواب دیا میں نے تمہارے دو ساتھیوں کو بتا دیا ہے کہ میری قباء میں چالیس دینار سلے ہوئے ہیںمگر انہیں میری بات پر یقین ہی نہیں آتا۔سردار نے جواب دیا کہ اس کی قبا کو ادھیڑ دو۔
اور جب ادھیڑی گئی تو اس میں سے چالیس دینار نکلے۔ڈاکو نے کہا اے لڑکے تو نے سچ کیوں بولا۔؟
عبدا لقادر جیلانی نے جواب دیا میں نے چلتے وقت اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔اس لیے ماں سے کیے گئے وعدے کو توڑنا میرے لیے گناہ سے کم نہیں۔
ڈاکووں کا سردار اس جواب سے کانپ گیا۔اس نے سوچا یہ لڑکا اپنی ماں سے اتناڈرتا ہے اور جھوٹ کے قریب بھی نہیں  پھٹکتا اور ایک میں ہوں کہ اپنے خدا کے احکام کی برسوں سے خلاف ورزی کرتا آیا ہوںاور ذرا بھی ڈر نہیں محسوس کرتا ہوں۔پھر ڈاکو نے شیخ عبد ا لقادر کا ہا تھ
ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اور اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی چاہی  اور آئندہ کیلیے راہ راست پر چلنے کی قسم کھائی۔ڈاکو کی تقلید میں اس کے ساتھیوں نے بھی توبہ کر لی اور ڈاکہ زنی کے پیشے سے تائب ہو گئے۔
جارج واشنگٹن امریکہ کے صدر بننے سے پہلے مائونٹ ورنن میں میدے کے سوداگر تھے  ان کے مال کی ہر بوری پر جارج واشنگٹن لکھا ہوتا تھا ان لفظوں کو دیکھ کر بندر گاہوں پر مال کی پڑتال نہیں کی جاتی تھی کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ جن بوریوں پر جارج واشنگٹن کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں وہ پورے وزن اور معیاری وزن اور معیاری سامان کی ہیں۔جارج واشنگٹن کا نام دیانت اور سچائی کی علامت تھی۔
اس کے مقابلے میں آج بندر گاہوں پر جو مال پاکستان سے آتا ہے بیرون ملک اسکا بھی موازنہ کریں۔ایک مرتبہ کسی عرب ملک میں ایک تقریب میںایک پی آئی کے آفیسر کی بیگم نے پاکستانی باسبتی چاول وں کی ڈش بنائی۔اس تقریب میں بڑی بڑی کمپنیوں کے آفیسرز شریک تھے۔انہیں ان چاولوں کی خوشبو اور زائقہ اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے پاکستان سے یہ چاول امپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔چنانچہ ان چاولوں سے بھرا ہوا ایک مال بردار بحری جہاز ا س عرب ملک کی جانب روانہ ہوا ۔مگر وائے قسمت کہ جب ان بوریوں کو کھولا گیا تو ان میں سے اوپر ٹھیک چاول تھے جبکہ نیچے گھٹیا کوالٹی کے چاول تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ پورا بحری جہاز واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔پھر وہ چاول پاکستان کے ہفتہ وار بازاروں،گلیوں اور ٹھیلوں میں پھیری والوں نے گھوم گھوم کر بیچے۔یہ بد دیانتی کی بد ترین مثال ہے۔اس سے جو مالی نقصان تو ہوا سو ہواتجارتی ساکھ کس قدر خر اب ہوئی۔اور بدنامی مفت کی۔
اسی طرح یہاں ناروے میںایک شخص نے  کسی نیک آدمی سے مل کر حصہ داری پر کام شروع کیا۔ایک تجارتی فرم بنائی گئی۔چونکہ حصہ دار بہت نیک نمازی اور پر ہیز گار تھے۔ لہٰذاس پر بہت اعتبار کیا گیا کہ یہ کسی قسم کا دھوکہ نہیں کرے گا۔مگر جب اس نمازی شخص کا حصہ دار اپنی فرم کے لیے اس کے ساتھ مال لینے گیا تو دوکاندار نے نمازی پر ہیز گار شخص کو دیکھ کر انکی فرم کے ساتھ لین دین سے ہی انکار کر دیا۔یہ ہے ہماری قوم اور اس کے دوغلے لوگ۔
کاروبار میں صاف گوئی اور عام زندگی میں دیانت داری آپ کی بہترین ساتھی ہیں۔یہ ایسے با اعتماد اور وفادار ساتھی ہیں جو آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیتے بلکہ قد قدم پر آپ کی حفاظت کرتے ہیں۔ایک دن کا ذکر ہے کہ کوئی ہندوستانی لندن میں جوتوں کی دوکان کے اندر گیا۔ایک جوتا اسے پسند آ گیا۔اس نے دوکاندار سے قیمت پوچھی تو دوکاندار نے جواب دیا کہ جوتے کے اوپر قیمت کی سلپ چسپاں ہے۔مگر پھر بھی ہندوستانی گاہک نے کہا کچھ کم کیجیے۔اس پر دوکاندار نے تعجب سے پوچھا حضور آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ہندوستانی نے جواب دیا انڈیا سے یہ سن کر دوکاندار نے کہا کیا انڈیا میں دوکاندار جھوٹ بھی بولتے ہیں؟یہ سن کر ہندوستانی شرمندہ ہو کر چلا گیا۔
کاروباری دیانت اور فرض شناسی کی ایک اور مثال ملاحظہ کریں۔روزنامہ نیو یارک ٹائمز کو دس لاکھ روپیہ صرف اس لیے پیش کیا گیا کہ وہ ٹمانی دغا بازیوں کے متعلق خاموشی اختیار کرے اور اپنے اخبار میں اس معاملے کے متعلق کچھ نہ لکھے بلکہ دیگر باتوں سے اخباری کالم پر کرے۔اس پیشلش کو سن کر نیویارک ٹائمز کے مالک جارج جونز نے جواب دیا،میں سمجھتا ہوں شیطان اس سے بڑھ کر میری قیمت نہیں لگائے گا۔،اس کے بعد اخبار کو خریدنے کی کوشش کی گئی مگر جونز نے اخبار فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔جونز نے اپنے عملے کو ہدائیت دی کہ آپ کے پاس ٹمانی دغا بازوں کے متعلق جتنا مواد ہے سب شائع کر دیں۔اور جب یہ تمام روداد شائع ہو گئی تو ان سیاسی راشی سر غنوں کو جلا وطن کر دیا گیا۔
اس مثال سے اپنے آج کے ملکی سیاسی حالات کا موازنہ کریں تو پتہ چلے کہ ہم کس ڈگر پہ جا رہے ہیں۔آپ اپنے آپکو ٹٹولیں کہ آپ پر جو ذمہ داریاں ہیں آپ ان سے کس حد تک انصاف سے نبر آزما ہیں۔اگر آپ میں اوپر بیان کی گئی خامیاںموجود ہیں تو انہیں دور کریں۔معاشرے میں موجود نیک اور ایماندار لوگوں کو ڈھونڈیں انہیںآگے لائیں۔ایماندار لوگوںکی سوانح عمریاں پڑہیں۔اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کریں اور پھرہاتھ بڑھا کر کامیابی کا ہاتھ تھام لیں۔اس لیے کہ اگر آپ زندگی میں کامیاب و کامران ہونے کے خواہشمند ہیںاور اس کے ساتھ عزت و تکریم کے بھی آرزو مند ہیںتو دیانت داری اور سچائی کو اپنائیں۔
ہم میں سے شائید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو مکمل طور پر عادل اور راست گو ہو۔اس لیے کہ ہمارا ذہن اور ہمارے جذبات چیزوں کی شکلیں بدل دیتے ہیںاور انہیں کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔خواہ ہم ایسا کرنا چاہیں یا نہ چاہیں۔اگر آپ یاد کریں تو آپ کو ایسے لمحے یاد آئیں گے جب خوف،حسد،خود پسندی بے جا بد ظنی اور تعصب نے آپ کو ایسی باتیں کہنے پر مجبور کرد یاجو حقیقت میں درست اور دیانتدارانہ نہیں تھیں۔
آج آپ خود سے ملاقات کریں۔کسی پر سکون سی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ٹھنڈے دل سے سوچیں اور خود سے پوچھیں کہ آپ اپنے آپ کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ کس حد تک ایماندار ہیں۔اسکا اندازہ ان سوالات کے جوابات سے لگائیں۔
١۔فرض کریں آپ سے کوئی غلطی ہو گئی۔لیکن اس غلطی کاالزام کسی اور پر لگایا جا رہا ہے  آپ پر نہیں۔کیا آپ اس بات کا اقرار کرنے کے لیے تیار ہیں کہ غلطی آپ کی ہے ذید کی نہیں؟
٢۔فرض کریں آپ کا کسی جھگڑا ہو گیا ہے اور آپ اس پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں ۔کیا آپ میں اتنی ہمت ہے کہ یہ تسلیم کر لیں کہ آپ اس پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں۔
٣کیاآپ دسروں کے وہ رازظاہر کر دیتے ہیں جو انہوںنے آپ پر بھروسہ کر کے آپ کو بتائے تھے؟
٤۔کیا آپ چھپ کر سن گن لینے،تاک جھانک کرنے اور جاسوسی کرنے کی کواہش کو پختگی سے روکتے ہیں؟
٥۔کیا آپ اس وقت بھی جب کوئی نگرانی نہیں کر رہا محنت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں؟
٦۔فرض کریں آپکا کسی دوست سے دل بھر گیا ہے کیا آپ میں ہمت ہے کہ آپ یہ بات اس سے صاف لفظوں میں کہہ  دیںاور اس سے قطع تعلق کر لیں؟
٧۔فرض کریں آپکا کاروباری پارٹنر ایک سیدھا سادہ آدمی ہے ۔آپ اسے آسانی سے بیوقوف بنا سکتے ہیں تو ایسی سورت میں بھی آپ ایسا فائدہ اٹھانے سے باز رہیں گے؟
٨۔فرض کریں کسی کام کو  سر ا نجام دینے میں آپ کے ساتھ کئی اور لوگوں نے بھی ساتھ دیا تو کیا آپ  کوشش کریں گے جتنی تعریف و توصیف کے آپ مستحق ہیں آپ کو اتنی ہی تعریف ملے؟
٩۔کیا دوسروں کے ساتھ ملکر کام کرتے وقت آپ اس کام کو اس طریقے سے سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے آپ نے وہ کام اکیلے ہی کرنا ہے؟
٠١۔کسی کام کو اس کے پس منظر میں رہ کر کرنے کی کہانیاںیا کسی بزمی مہم کو سر کرنے کے قصے یا اپنے گنوں کی داستانیںجو آپ بیان کرتے ہیںکیا وہ بالکل سچی ہوتی ہیں؟
ان سوالات کے جوابات ہاں یا نہیں میں دیںہر ہاں کا ایک نمبر لگائیںفرض کریں ایک ہاں کا نمبر ایک ہے۔اگر آپ کو پانچ یا دس نمبر ملے تو آپ انتہائی ایماندار ہیں۔
اگر آپ کو چار اور آٹھ کے درمیان نمبر ملے ہیں تو آپ معمولی درجے کے ایماندار ہیں۔لیکن نفی میں جوابات کمزوریوں کی علامت ہیںاور اسکی اصلاح کی ضرورت ہے۔چار سے کم نمبر یہ بتاتے ہیں کہ ان نمبروں کو حاصل کرنے والا خود غرض اور بزدل ہے اور دنیا میں کامیاب اور نیک زندگی بسر کرنے کے لیے اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں