ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔۔۔

ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔۔۔

ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔۔

 

غزالہ عزیز

سنیئے  ارے سنیئے تو
کہاں گئے؟؟
ابھی تو یہیں بیٹھے اخبار کا مطالعہ کررہے تھے۔
بس معلوم ہوجائے کہ مجھے کوئی اہم بات کرنا ہے فورا اِدھر ادھر سٹک لیں گے۔ دیکھو اب واپس کب آتے ہیں! کب سے کہہ رہی ہوں کم از کم دس دن پہلے تو جانور گھر پر آجانا چاہیے ذرا رشتے دار، محلے دار، پاس پڑوس والے دیکھ تو لیں ایسا بھی کیا بس اِدھر جانور لائے ادھر اسے قصاب کے حوالے کردیا نہ کسی نے دیکھا نہ سنا، بس گیا وہ چھری تلے
اِس دفعہ تو سوچ رکھا ہے کہ بیل لینا ہے سفید اور سیاہ چتکبرا، اور سینگ ہونے چاہئیں بڑے بڑے ارے وہ کیا کہتے ہیں چاند بیل کیا بات ہوتی ہے ان کی برسوں لوگ یاد رکھتے ہیں فلاں کے گھر بیل آیا تھا، یہ بڑے بڑے سینگ والا اور ہاں وہ جو چار گلیاں پار کرکے رئیس جہاں رہتی ہیں انہوں نے تو اپنے چاند بیل کے سینگ اپنے گھر کی اوپر والی منزل کے سامنے عین داخلی دروازے کے اوپر ٹھکوا لیے تھے کہتی تھیں پھر جب اس سے بڑے سینگوں والا بیل آئے گا تو اس کے سینگ بھی اس کے برابر لگیں گے ہونہہ پھر سینگوں والا گھر ہی کہلانے لگا تھا چنانچہ نام پڑا تو خود ہی چڑ کر اتار پھینکے سینگ۔ خیر ہم کو تو نہ ایسا کوئی شوق ہے اور نہ ہی دکھاوا پسند ہے البتہ اچھے جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا شوق تو ہر کوئی اپنے دل میں رکھتا ہی ہے۔
بقرہ عید پر ڈرائنگ روم میں درمیان والی میز پر وہ بڑی سی البم سجی ہوتی ہے۔ ہر آیا گیا شوق سے دیکھتا ہے۔ اگر نہ بھی دیکھے تو ہم خود اس کو دکھاتے ہیں۔ کیسے کیسے جانوروں کے ساتھ ہماری تصویر اس میں موجود ہے۔ سرخ سفید سیاہ چتکبرا البتہ نہیں تھا، لہذا سوچا ہے کہ اِس دفعہ بیل ہونا چاہیے سیاہ اور سفید چتکبرا، جس کے ساتھ ہم کھڑے ہوں گے۔ لہذا یہی سوچ کر اِس دفعہ ہم نے سوٹ بھی سفید بنایا ہے جس پر سیاہ کام کیا ہے اور آستین اور دامن میں سیاہ جامہ وار کی پٹی لگی ہے۔ کیسی زبردست میچنگ ہوگئی نا بس ہمارے ذہن کی داد دیں، کیسے زبردست آئیڈیاز آتے ہیں، سارا محلہ حیران ہوتا ہے۔ خاندان والوں پر الگ دھاک بیٹھی رہتی ہے۔ جانور دیکھ دیکھ کر پڑوسنیں جلتی ہیں دبی زبان میں حیثیت کا تذکرہ کرتی ہیں لیکن آج کل معاملہ سارا ایسا ہی ہے جو نظر آتا ہے وہ نہیں ہوتا، اور جو نہیں ہوتا وہ نظر آتا ہے
لیجیے دروازے سے میاں صاحب داخل ہورہے ہیں۔ ہاتھ میں بیل کی رسی ہے۔ عین وہ رنگ ہے جو ہم نے سوچا تھا۔ سفید اور سیاہ چتکبرا ضرور انہوں نے ہمارے دل کی بات جان لی۔ ہاں ان ہی کے ساتھ تو جاکر عید کا جوڑا لائے تھے جانتے ہیں کتنا شوق ہے میچنگ کا یہ دس دن کی سیوا بھی آسان تو نہیں ہوتی روز کا کھانا بیل تو بیل ہوتا ہے نا صفائی بدبو جمعدار کا خرچہ لیکن اس خرچے میں جس حساب سے ناموری ملتی ہے وہ بھی تو دیکھیے سارا سال تذکرہ رہتا ہے کچھ منہ پھٹ گوشت نہ بھیجنے کا شکوہ کرتے تو ہیں لیکن آسان حل ہے۔ عید کے دن صبح نماز کے بعد میاں صاحب بیل کی رسی تھام کر چچا، ماموں یا بھائی بہن کے گھر قربانی کرانے کا کہہ کر نکل جاتے ہیں اور مالک کو پہنچا آتے ہیں۔ بعد میں ہم سب بھی ملنے ملانے نکل جاتے ہیں۔ یوں دن ختم بات ختم بس ایسا ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں