ہند پاک دوستی کے نام ایک چاند نواب

Suhail
سہیل انجم
اگر آپ نے اندس ٹی وی پاکستان کے چاند نواب کی وہ کلپ نہیں دیکھی ہے جن کا رول سلمان خان کی فلم بجرنگی بھائی جان میں نواز الدین صدیقی نے کیا ہے تو آپ نے کچھ نہیں دیکھا اور اگر آپ صحافی ہیں تو آپ نے واقعی کچھ بھی نہیں دیکھا۔ آپ کو ہمارا مشورہ ہے کہ آپ یو ٹیوب پر اس کلپ کو ضرور دیکھیں۔ صرف صحافی ہی نہیں بلکہ تمام اہل ذوق دیکھیں تاکہ ان کو جہاں ایک طرف اس کا احساس ہو کہ صحافی کن حالات میں کام کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور ان کو کیا کیا دشواریاں جھیلنی پڑتی ہیں وہیں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو سکے کہ بعض اوقات چیزیں کس طرح تفریح کا سامان بن جاتی ہیں اور کس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی شخص مذاق کا موضوع بن جاتا ہے یا کس طرح غیر متوقع طریقے سے کوئی شخص مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ پاکستان کے چاند نواب اندس ٹی وی کے رپورٹر تھے۔ وہ عید کی رپورٹنگ کرنے کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر گئے اور ایک فٹ اوور بریج پر کھڑے ہو کر کسی ٹرین کے گزرنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب برابر والی پٹری سے ایک ٹرین گزرنے لگی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی رپورٹنگ شروع کی کہ ”کراچی سے لوگ اپنوں میں عید منانے کے لیے اندرون ملک جا رہے ہیں“۔ لیکن انھوں نے جس انداز میں یہ ٹیک دیا اس کو دیکھ کر بے تحاشہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ انھوں نے کئی بار ٹیک دیے اور ہر بار کوئی نہ کوئی مسافر سامنے سے گزر گیا۔ درمیان ہی میں وہ لوگوں کو منع کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بھائی ادھر سے چلے جاو ¿ ورنہ ٹرین نکل جائے گی۔ در اصل وہ مسافروں کو ان کی ٹرین کے چھوٹنے کے بارے میں نہیں بتا رہے ہوتے بلکہ اس ٹرین کے نکل جانے کے بارے میں بتا رہے ہوتے ہیں جو برابر والی پٹری سے گزر رہی ہے اور جو کیمرے میں نیچے نظر آرہی ہے۔ کیونکہ اگر وہ نکل گئی تو ان کی رپورٹنگ ادھوری رہ جائے گی۔ ایک بار تو وہ جھنجھلا جاتے ہیں اور ایک مسافر کو کہتے ہیں کہ تو بڑا بے غیرت ہے ادھر سے نکل جا، نا۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ لفظ ”اندرون ملک“ ان کی زبان سے ٹھیک طرح ادا نہیں ہوتا اور وہ ”اندروررون“ ملک کہتے ہیں۔ ان کے دوستوں نے جب اس کلپ کو دیکھا تو انھیں بڑی ہنسی آئی۔ پھر کیا تھا انھوں نے چاند نواب کو چھیڑنے کے لیے اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ انھیں کیا خبر تھی کہ ان کی یہ شرارت چاند نواب کے لیے مقبولیت کا پروانہ بن کر آئے گی۔ اگر خبر ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہ کرتے۔ بہر حال فلم بجرنگی بھائی کے فلم ساز کبیر خان نے بھی اس شرارت آمیز کلپ کو دیکھا تو وہ بھی بہت محظوظ ہوئے لہٰذا انھوں نے اس فلم میں ان کا ایک رول ڈال دیا جسے نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ وہی نوازالدین صدیقی جو کے فلم پیپلی لائیو اور گینگس آف واسے پور کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ جن لوگوں نے اس فلم کو دیکھا ہے وہ اس کی تعریف تو کرتے ہی ہیں وہ نواز الدین کی بھی تعریف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے رول سے ناظرین کو خوب گدگدایا ہے۔ 
جب اصلی چاند نواب کا کلپ وائرل ہوا تو اسے پوری دنیا کے لوگوں نے دیکھا۔ جس کی وجہ سے چاند نواب اس فلم کے بننے سے پہلے ہی کافی مشہور ہو چکے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے لوگ ان کو گھیر لیتے۔ یہاں تک کہ غیر ممالک میں بھی ان کے چاہنے والے پیدا ہو گئے اور ان کے فینس کی تعداد کافی بڑھ گئی۔ لیکن اب جبکہ یہ فلم منظر عام پر آئی ہے تو ان کی مقبولیت میں مزید چار چاند لگ گئے ہیں۔ مختلف نیوز چینلوں کے اینکر اور رپورٹر ان کے انٹرویوز کر رہے ہیں اور ان کے خیالات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت چاند نواب اندس نیوز چینل میں کراچی میں بیورو چیف ہیں۔ ہندوستان کے بھی کئی چینلوں نے ان کے انٹرویو کیے ہیں۔ چونکہ یہ فلم پاکستان میں بھی ریلیز ہوئی ہے اس لیے جہاں سلمان خان کے رول کی تعریف ہو رہی ہے وہیں چاند نواب کے رول کی بھی تعریف ہو رہی ہے اور اس طرح وہ موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔
انھوں نے نیوز چینلوں سے بات کرتے ہوئے اس شرارت آمیز کلپ کی وجہ سے ان کو حاصل ہونے والی شہرت کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اندرون ملک یا بیرون ملک جہاں بھی جاتے ہیں لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس فلم کی وجہ سے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تو وہ پاکستان کے ہر گھر کے ایک فرد بن گئے ہیں۔ عام لوگوں کو تو چھوڑیے فلم کے ہیرو سلمان خان خود ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ خبروں کے مطابق انھوں نے چاند نواب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس سلسلے میں تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ چند ہفتوں کے بعد وہ پاکستان جائیں اور چاند نواب سے ملیں یا ان ملاقات کا کوئی اور بند و بست کیا جائے۔ بہر حال اس وقت چاند نواب مقبولیت کے چاند پر ہیں۔ اس بات سے قطع نظر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ بات بار بار ثابت بھی ہوئی ہے کہ ادیبوں، فنکاروں اور صحافیوں کی مدد سے دونوں ملکوں میں دوستی اور بھائی چارہ پروان چڑھاہے۔ پہلے بھی اس کے ثبوت ملے ہیں اور اب ایک بار پھر اس کا ثبوت مل رہا ہے۔ صحافیوں نے پہلے بھی دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے اور اب بھی دے دہے ہیں۔ چاند نواب نے کہا ہے کہ اس فلم سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے میں مدد ملے گی اور دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ بہت پہلے ہندوستان کے شاعر علی سردار جعفری اور پاکستان کے شاعر احمد فراز نے باہمی دوستی کے حوالے سے بہت پیاری نظمیں کہی تھیں جن کے کچھ بند پیش ہیں:
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
ہاتھ میں ہاتھ لیے سارا جہاں ساتھ لیے
تحفہ درد لیے پیار کی سوغات لیے
ریگزاروں سے عداوت کے گزر جائیں گے
خوں کے دریاو ¿ں سے ہم پار اتر جائیں گے
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
(علی سردار جعفری)
تمھارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لیے
اگر تمھاری انا کا ہی ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
(احمد فراز)
اپنا تبصرہ لکھیں