’’ہم سے کیا بھول ہوئی جو یہ سزا ہم کا ملی‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(عید الاضحی اسپیشل)۔۔۔۔۔آصف پلاسٹک والا

زمانۂ قدیم سے ہی اسلام کے عقیدوں کو پامال کرنے کی کوشش ہوئی تو اللہ نے عذاب الٰہی نازل کیا ہے تواریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس کی تازہ مثال آج کل شہر ممبئی اور مہاراشٹر کے اکثریتی مسلم علاقوں میں دیکھی جارہی ہیں۔ عیدالاضحی کو چند روز باقی ہیں مگر قربانی کے لیے عوام میں بے چینی و ذہنی پریشانیاں پائی جارہی ہے۔ حکومت مہاراشٹر نے منظم طریقے سے اقتدار میں آتے ہی بیل کے ذبیحہ اور اس کے گوشت کی خرید و فروخت پر سخت پابندی لگادی جس کا انہوں نے ایک فرقے سے وعدہ کرکے ووٹ حاصل کرکے اکثریت سے کامیاب ہوگئے تھے۔
گزشتہ حکومت نے قربانی کے لیے ہمیں جو عارضی سہولیات دی تھیں اس کا ہم نے ناجائز فائدہ اٹھایا آج ہمیں اپنے مذاہب کے تہوار منانے کے لیے ارباب اقتدار کو عاجزانہ مطالبے کا مکتوب دینا پڑھ رہا ہے جب کہ بھارت کے دستور ہند آرٹیکل 25کے تحت ملک کے شہری کو اپنے تہوار آزادی کے ساتھ منانے کا حق ہے۔
آج ہم اپنے تہوار کو منانے کے لیے کیوں پریشان ہیں! آج ہم قربانی کے تعلق سے ذہنی تشویش میں کیوں مبتلا ہیں اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں آیئے غور کریں۔
مسلم علاقوں میں عیدالاضحی کے ایک مہینہ قبل سے بیل بکرا بازار لگنا شروع ہوجاتے تھے۔ پردہ نشین خواتین ، بچوں، اسکول جانے والے طالب علموں، بزرگ خواتین و حضرات کوئی فکر نہ کرتے ہوئے جانوروں کو بھوکے پیاسی راستوں پر باندھ دیئے جاتے تھے اگر کوئی شکایت کرتا تو وہ فحش کلمات سن کر خاموش ہوجاتا تھا۔ ان جانوروں کے فضلات کی بدبو، صاف صفائی پر دھیان نہیں دیا جاتا تھا۔ عیدالاضحی سے قبل علاقے میں گندگی فضلے کی بدبو اور مکھی مچھروں میں اضافے پر ہونے والی پریشانیاں ناقابل بیان تھیں۔ پھر جانوروں کو کسی بھی دکاندار یا کاروباری حضرات کو تکلیف دے کر باندھ دینا اور کہنا کہ بھائی سال میں ایک بار ہی ایسا ہوتا ہے!
اسلام میں کسی بھی معاملات میں بڑھائی، شان و شوکت، تصنح، اونچ نیچ وغیرہ حرام قرار دیا گیا ہے مگر قربانی کے دنوں میں خوش حال گھرانے کے افراد یا فلاں پیٹھ کا جانور، دیکھنے کے لیے اس کے قریب جاکر جانور اور اس کے مالک کی تعریف میں قصیدے پڑھنا عام بات ہوچکی تھی اس دوڑ میں ہر خاص و عام افراد آگے نکلنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا جانوروں کی قیمت پر واہ واہی کی جاتی تھی۔
پھر عیدالاضحی کے دن کا منظر آنکھوں کے سامنے ہے جسے بھولا نہیں جاسکتا ہے۔ مسلم علاقوں میں جو جہاں جگہ پارہا ہے وہاں قربانی کررہا ہے۔ کھلی جگہ، سڑک پر، تنگ گلیوں میں جہاں سے لوگوں کا آنا جانا ہوتا رہتا ہے قربانی کے جانوروں کو عام راستوں پر ہی ذبیحہ کردیا جاتا تھا ہر طرف خون ہی خون نظر آتا تھا۔ جانور ذبیح ہونے کے بعد صاف صفائی نہیں کی جاتی تھی اکثریت افراد اپنے چار ٹکڑوں اور بوٹی بنانے اور گوشت تقسیم کرنے میں مصروف ہوجاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں کے آلائش (آنت و فضلات) کو راستے پر پھینک دیا جاتا تھا۔ اس کو میونسپل کے رکھے ہوئے خصوصی کچرے کے ڈبے میں نہ پھینکتے ہوئے بلڈنگوں کے بیچ میں ہاؤس گلیوں میں پھینک دیا جاتا تھا جہاں دوچار دن بعد ان آلائش (آنت اور فضلات اور ہڈیوں) میں سے اس قدر بدبو آتی تھی کہ الفاظ میں بیاں نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کے وقت دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ موٹر سائیکل، اسکوٹر پر جانوروں کے سر، پیر وغیرہ کھلا رکھ کر یہاں سے وہاں تقسیم کرتے ہوئے دل آزاری کرنا، خون آلود کپڑوں میں، لوکل ٹرین میں گوشت تقسیم کرتے ہوئے غیر مسلم علاقوں میں جانا۔ ہمارے علاقوں میں عیدالاضحی کے بعد میونسپل صفائی عملہ کو گالیاں دینا کہ تم لوگ صفائی برابر نہیں کرتے ہو (حالانکہ وہ غیر مسلم ہوتے ہیں ان کے مذہب کے مطابق بیل وغیرہ کا گوشت حرام ہوتا ہے)۔ مگر ہم گندگی کرتے تھے اور صفائی کا الزام ان صفائی ملازمین پر لگاتے تھے۔ ’’خیر باتیں تو اور بھی ہیں اگر ہم لکھیں گے تو کئی صفحات بھی کم پڑھیں گے۔‘‘ خیر……
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے نوجوان صرف عیدالاضحی کے موقعہ پر زیادتیاں کرتے ہیں بلکہ ہم عید میلاد النبی کے موقعہ پر دانشوران، علماء کرام کے لاکھ منع کرنے کے باوجود DJکا استعمال کرتے ہیں، بے جا اخراجات کرتے ہیں، غیر ضروری تیز آواز سے دل آزاری کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوان گنپتی کے جلوس میں رقص کرتے ہیں، نوراتری میں ڈانڈیا کھیلتے ہیں، نئے سال جوش و خروش سے مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
قدرت کا قانون ہے کہ ظلم جب حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے ، عذاب الٰہی کسی بھی صورت میں آجاتا ہے۔ پھر ہم ذہنی اور جسمانی کوفت میں پریشان رہتے ہیں۔ آج ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ’’ہم سے کیا بھول ہوئی جو یہ سزا ہم کا ملی۔‘‘
دُعا ہے کہ اللہ ہمیں حضور اکرمؐ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اے اللہ ! ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطاء فرما۔ آمین
آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، آگری پاڑہ، ممبئی11-
موبائل: 9323793996

اپنا تبصرہ لکھیں