“ہم بڑے ہو گۓ”

انتخاب فوزیہ وحید
مسکراہٹ تبسم ہنسی قہقہے
سب کے سب کھو گئے
ہم بڑے ہو گۓ
ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہے
بوجھ اوروں کا بھی ہم اٹھاتے رھے
اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں۔
محفلوں میں مگر مسکراتے رھے
کتنے لوگوں سے اب مختلف ہو گۓ
ہم بڑے ہو گۓ
اور کتنی مسافت ھے باقی ابھی
زندگی کی حرارت ھے باقی ابھی
وہ جو ہم سے بڑے ھیں سلامت رہیں۔
ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی۔
جو تھپک کر سلاتے تھے خود سو گئے۔
ہم بڑے ہو گۓ
ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی
جانے کب آئ اور کیا جوانی ہوئی
دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گیا
جو حقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی۔
منزلیں مل گئیں
ہم سفر کھو گئے
ہم بڑے ہو گۓ

اپنا تبصرہ لکھیں