ہمارے ووٹ کا حقدار کون

تحریر: عمیر ڈار
غالباً2004 کی بات ہے میری بارسلونا سپین میں پہلی اداس عید تھی یورپ میں آئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا جس کی بدولت سوچ بھی کسی حد تک روایتی تھی۔ پاکستان کے متوسط طبقے کے قدامت پسندانہ معاشرتی اقدار اور کلاس ازم رگ رگ میں بستی تھی۔ مگر اس عید کے بعد پیش آنے والے واقعے نے میرے دماغی ڈھانچے کو زور کا جھٹکا دیا۔ قصہ یہ ہے کہ نماز عید شروع ہونے سے پہلے سانولی رنگت اور اونچے قد کے مالک، داڑھی والے ایک صاحب کافی ایکٹیو نظر آرہے تھے ، وہ باری باری مقامی اٹھارٹیز کو بلاتے ، انکا تعارف کرواتے، ان کو گفتگو کا موقع دیتے اور پھر ان کی گفتگو کا اردو میں خلاصہ پریشان رمبلہ کے سپورٹس ہال میں موجود سیکڑوں مسلمانوں، بالخصوص پاکستانیوں کے سامنے پیش کرتے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ موصوف کا نام محمد اقبال چوہدری ہے اور وہ منھاج القرآن سپین کے صدر ہیں۔ نماز عید ختم ہوئی تو ہال میں موجود چادریں اٹھانے کی باری آئی۔ ہم نے بھی پاکستان سے سیکھی ہوئی اچھی عادت کے باعث انتظامیہ کے ساتھ مل چادریں اکٹھی کرنی شروع کر دی، مگر میری حیرت کی انتہا نا رہی  جب تنظیم کے صدر ، جناب اقبال صاحب ہم سب سے زیادہ لگن اور تیزی کے ساتھ دریاں اٹھانے میں مصروف نظر آئے، مجھے انکے انداز میں کوئی جھجک یا شرم دور دور تک نظر نا آئی حالانکہ نام کے ساتھ چوہدری بڑا واضح تھا۔ عموما پاکستان میں اس طرح کے کام نوجوانوں اور بچوں سے کروائے جاتے ہیں اور صدور حضرات دور کھڑے ہو کر صرف ہدایات دیتے یا رعب جھاڑتے نظر آتے ہیں، یہاں پر تو منظر ہی الٹ تھا۔
اقبال صاحب کی عاجزانہ ، لطیف اور پرمٹھاس طبیعت، قائدانہ صلاحیتوں اور بالخصوص تمام مقامی زبانوں پر عبور نے فوراً مجھے  انکا گرویدہ بنا لیا ، ان دنوں میں ہی میں اپنے لڑکپن کے دوست نوید احمد اندلسی کے ساتھ مل کر ہڑتالوں، احتجاجوں اور ریلیوں میں شرکت کرنا ہمارا معمول تھا، عراق جنگ کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی تاریخی ریلی اور فلسطین کے حق میں احتجاج اور ہر اہم موضوع پر بارسلونا میں موجود دنیا کے مختلف ممالک کے قونصل خانوں کے سامنے احتجاج کچھ یادگار لمحے تھے۔ نوید احمد اندلسی صاحب جو ہر لحاظ سے ہم سے سینئر تھے اور ہیں اس دور میں ذہنی ،فکری و روحانی ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوئے منھاج القرآن کے کافی قریب آ چکے تھے ، سو ہم بھی انکے پیچھے پیچھے ہو چلے۔منہاج یوتھ لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال صاحب کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اقبال صاحب یوتھ کو بڑی اہمیت دیتے تھے ، وہ تب بھی ہم کو یہی کہتے تھے کہ آپ مستقبل ہیں ، اپنی تیاری کریں اور ساتھ نصیحت کرتے کہ ہم نے ہر پلیٹ فارم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کرنی ہے۔
ان باتوں کو کیے ہوئے 10 سال کا عرصہ گذر چکا ہے، اقبال صاحب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت ان 10 سالوں میں ہم نے سیکڑوں کی تعداد میں میٹنگز میں حصہ لیا، سیمینارز میں نمائندگی کی اور مقامی میڈیا پر پاکستان اور اسلام کا اپنی بساط کے لحاظ سے دفاع کیا۔ مگر اب تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، سپین کی تاریخ میں میں پہلی باراور سب سے پہلے کسی پاکستانی نژاد شہری کو سپین کی قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے لسٹ  کے اوپر والے نمبروں پر امیدوار نامزد کیا گیا۔ بلاشبہ محمد اقبال چوہدری صاحب کی نامزدگی ہم سب پاکستانیوں کے لیے فخر اور عزت کی بات ہے۔

اقبال صاحب کو سپین کی مین سٹریم سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے نامزد کیا گیا ہے، میں اپنے سیاسی خیالات اور نقطہ نظر کی وجہ سے سوشلسٹوں کے ناقدین میں گردانا جاتا ہوں اور کبھی کبھار کھل کر انکی پالیسیوں پر اختلاف بھی کرتاچلا آیا ہوں، اب بھی پارٹی اور ٹائمنگ کے لحاظ سے مجھے تحفظات ہیں کیونکہ اقبال صاحب کی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر مجھے لگتا ہے کہ نامزدگی کی لسٹ میں نمبر اور بھی اوپر ہو سکتا تھا جہاں جیتنے کے مواقع زیادہ ہو مگر ان تمام ڈائنامکس اور تحفظات کے باوجود میں مصلحت پسندی کو سامنے رکھ دل کو تسلی دیتا ہو کہ دوسروں کی بنسبت یہ کافی بہتر ہیں۔

بہرحال تحفظات اپنی جگہ، اس وقت میں بلا کسی تعصب اور ایمانداری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس وقت ہماری کمیونٹی میں کوئی انسان نامزدگی اور نمائندگی کا حقدار ہیں تو وہ اقبال صاحب ہی ہیں کیونکہ یورپ کی چوتھی بڑی معیشت ، آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑے ملک اور سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل مُلک سپین کی قومی اسمبلی میں نامزد ہونے والے شخص میں مندرجہ ذیل خوبیاں ہونی چاہیے۔

سب سے پہلے اور سب سے اہم تجربہ ، مقامی سیاست پر دسترس ہے ، اسمبلی میں موجود کمیٹیوں، کمیشنز اور ریاستی امور کو سمجھنے کے لیے یہ شرط انتہائی لازمی ہے۔ بارسلونا، بادالونا اور گردونواح میں ہر مقامی ایڈمنسٹریشن سے مشکل سے مشکل معاملے کو حل کرنے کے لیے اقبال صاحب کو وسیع تجربہ حاصل ہے،  اس کے بعد دوسری خوبی جو کہ پہلی سے بھی کسی لحاظ سے کم نہیں وہ دونوں مقامی زبانوں پر عبور ہے بالخصوص کاتالان زبان فیصلہ کن ہے۔ میرے خیال میں اس پر کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے بھی محمد اقبال چوہدری ممتاز ہیں کہ وہ نا صرف مقامی بلکہ اہم عالمی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ تیسری خوبی سیاست کو بطور خدمت و عبادت سمجھنا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے دن کے 18 سے 20 گھنٹے عوام الناس کی خدمت میں کون  حاضر رہا یہ ہم سب پوری طرح جانتے ہیں۔

چوتھی خوبی قائدانہ اور خدا کی عطا کردہ صلاحیتیں ہیں جو کہ ایک اچھے سیاستدان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ کمیونٹی کے تمام بڑے چھوٹے معاملات میں اقبال صاحب نے فرنٹ سے لیڈ کیا اور سب سے بڑھ کر انکے پاس مذاکرات کرنے اور اس کا مثبت نتیجہ نکالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ذات کرسماٹک اور فرسٹ امپریشن بھی کافی مثبت ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ پہلا قومی الیکشن ہے جس میں پاکستانی حصہ لے رہے ہیں اور آپ کے انتحابی رویے یہ طے کریں گے کہ ہم نے سپین میں کس پروفائل کو ترجیح دینی ہے؟ ہم نے میرٹ کو سامنے رکھنے ہے یا کسی اور چیز کو؟ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے نمائندگی کا حق پڑھے لکھے، مقامی زبانوں اور سیاست پر عبور رکھنے والے کو دینا ہے یا پھر پاکستان کی سب چلے گا کی پالیسی یہاں پر بھی لاگو رکھنی ہے؟ اور سب سے اہم ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ خدمت گار اور سیاست کو عبادت سمجھنے والے لوگوں کو سامنے لانے کی روایت ڈالنی ہے یا پھر اخباروں کی سرخیوں میں رہنے والے افراد کو ترجیج دینی ہے؟
ووٹ آپکا فیصلہ آپکاا

اپنا تبصرہ لکھیں