ہر شخص وہاں لٹیرا ہے

افکار تازہ
عارف محمود کسانہ سویڈن
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جو کچھ ہم سیاست میں اپنی جماعت، سیاسی سرگرمیوں اور حصول اقتدار کے لیے کرتے ہیںاگر وہی کچھ اپنی ذات کے لیے کریں تو سب سے بڑے شیطان کہلائیں۔ اگر اس تجزیہ پر غور کریں تو واقعییہ باتسچ ثابت ہوتی ہے ۔ اپنے اہل سیاست پر نگاہ دوڑا لیںکہ کیا دور حاضرہ میں کوئی ایک بھی سیاست دان جھوٹ، ریاکاری، منافقت، ہوس اقتدار، الزام تراشیوں اور دوسری برائیوں سے مبرا ہے۔بدقسمتی سے اس فہرت میں وہ سب بھی شامل ہیں جو نظریاتی سیاست کے دعویٰ دار ہیں اور وہ بھی جو مذہب کے نام پر کارزار سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ کوئی خال خال مثال ان خرابیوں سے ماورا ہوسکتی ہے جو میدان سیاست میں بھی اعلیٰ اوصاف کی حامل ہو لیکن غالب اکثریت تو میکاولی سیاست کی امین ہے۔ جب وہ جزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو ان کی سیاست کا ہدف اور مطالبات اور ہوتے ہیں اور انہیں ہرطرح کا احتجاج او ر جدوجہد عین عبادت نظر آتی ہے لیکن جب انہی کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھتا ہے تو پھر سارے معیار بدل جاتے ہیں اور ہر سیاسی جدوجہد کو وہ ملک دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپنی جماعت کی قیادت کی ہر بات عطر وگلاب میں دھلی ہوئی اور سچ نظر آتی ہے جبکہ مخالف کی درست بات کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔انہیں اپنی آنکھ کاشہتیر بھی دیکھائی نہیں دیتا لیکن دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی واضع نظر آتا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما اس قدر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار کیوںہیں۔ چونکہ رہنماء ملک و قوم کی قیادت کرتے ہیں اور قوم ان کے پیچھے چلتی ہے اس لیے ان پر عام لوگوں سے کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیا ہمارے رہنماء کرادر میں اسلام کے بد ترین دشمنوں سے بھی گئے گذرے ہیں؟ بات بہت سخت ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ رسولۖ کا بدترین دشمن اور کفار مکہ کا سردارابوسفیان کا کردار بھی سچ بولنے کے حوالے سے ان سب سے کہیں بہتر تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب ہجرت حبشہ کے بعد وہاں کے بادشاہ نجاشی نے اہل دربار کے سامنے (اُس وقت کے) دشمن رسولۖ ابوسفیان سے پوچھا کہ محمدۖ کیسے انسان ہیں، کیا وہ جھوٹ بولتے ہیں، کیا امانت دار ہیں، کیا وہ عدوہ پورا کرتے ہیں؟
ابوسفیان نے بلا تعامل کہا کہ محمدۖ سچے انسان ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے، امانت دار ہیں اور وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ غور کیجیے کہ ابوسفیان مکہ سے ایک طویل فاصلہ طے کرکے حبشہ تک پہنچا تاکہ وہاں ہجرت کرکے جانے والے مسلمانوں کو اپنے قبضہ میں لے سکے۔ لیکن نجاشی کے سوال پر جھوٹ جواب نہیں دیا بلکہ سچ جواب دیا اور پھر خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔
اگر نجاشی کے دربار میںابوسفیان کی جگہ آج کا کوئی بھی سیاستدان ہوتا تو کیا جواب دیتا؟
وہ تو اپنے پاس سے مزید جھوٹ اور الزامات شامل کرلیتا ۔ ہمارے سیاست دان توکفار مکہ کے سردار ابو سفیان جتنے بھی صاحب کردار نہیں۔ ساغر صدیقی نے درست ہی کہا تھا کہ
رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں ، ہر شخص وہاں لٹیرا ہے معبدوں کے چراغ گل کردو قلب انساں میں اندھیرا ہے
لیڈر کا اور عوام کیا ، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔عام آدمی سے لیکر اوپر تک سب ہی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ کہنے کو کہا جاتا ہے کہ ہم زندہ وقوم ہیں۔ لیکن زندہ قوم کیا ایسی ہوتی ہیں کہ ہر برائی ہمارے اندر موجود ہے۔قرآن حکیم نے اقوام سابقہ اور ان کے جرائم کی فہرست بھی دی ہے جن کے باعث وہ ہلاک ہوئے اور نشان عبرت بنے۔ ان سب جرائم کی ایک فہرست مرتب کرلیں اور اپنا جائیزہ لیں، وہ تما م برائیاں اور جرائم ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہم ایک نظریہ اور ضابطہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے دعویٰ دار ہیں لیکن اُس کی معمولی سی بھی جھلک ہمارے اندر نظر نہیں آتی۔ اس کے بر عکس دنیا کی بہت سی اقوام اخلاق و کردار میں کیوںبہت بہتر ہیں۔ سویڈن کی ایک یخ بستہ رات کو جہاں ہو کا عالم تھا اور ایک شخص رات کو ٹریفک سگنل کے پاس پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کوئی بھی نہیں اور وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر سرخ بتی ہونے کے باوجود اپنی گاڑی گذار لیتا ہے لیکن گھر آتے ہی ضمیر کی خلش اُسے سونے نہیں دیتی۔ وہ اپنے جرم پر ناداں ہوکر پولیس اسٹیشن جا کر اعتراف جرم کرکے اپنے لیے سزا کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ اُس کا زندہ ضمیر اُسے مجبور کردیتا ہے۔ لیکن ہم جو زندہ قوم ہونے کے دعویٰ دار ہیں وہاں کیوں لوگوں کا ضمیر نہیں جاگتا۔ وہاں ادویات میں ملاوٹ کرنے والوں، مردہ گوشت بیچنے والوں، مصنوعی دودھ بنانے والوں ، انتڑیوں سے گھی تیار کرنے والوں، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ، جھوٹ بول کر مال فرخت کرنے والوں اور رشوت لینے والوں کے ضمیر کیوں نہیں جاگتے۔ ہمارے اساتذہ کلاس میں پڑھانے کی بجائے ٹیوشن میں زیادہ دلچسپی لیں، ڈاکٹر مریضوں کو ہسپتال کی بجائے پرائیویٹ دیکھیں، جہاں نکاح خواں بھی حکومتی متعین شدہ فیس سے زائد لیں، جہاں مذہبی رہنماء قوم کو فرقوں میں بانٹ دیں اور حرام مال شیر مادر کی حلال سمجھا جائے وہاں کیا ضمیر زندہ رہے گا۔ زندگی کو کوئی سا بھی شعبہ لے لیں یہی صورت حال نظر آئے گی۔
یہاں سویڈن میں رہتے ہوئے آئے روز ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم میں اس کردار کی جھلک کب نظر آئے گی۔ ایک دفعہ ایک خوانچہ فروش سے تین پیکٹ اسٹرابیری کے خریدے اور رقم دے کر جب جانے لگا تو اُس نے آواز دے کر کہا کہ ان میں کچھ خراب بھی ہوسکتی ہیں۔ کیا پاکستان بھر سے اس طرح ایک مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ سویڈن میں اکثر ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے آنے والوں کے لیے مہمان خانہ میں کافی اور چائے وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے اور ساتھ ہی ایک ڈبہ بھی پڑا ہوتا ہے جس میں چائے یا کافی لیکر اُس کی قیمت خود ہی ڈالنا ہوتی ہے اور اس کھلے ڈبہ میں لوگ رقم اپنی ایمانداری سے ڈالتے ہیں جبکہ ہماری مساجد میں تعمیر مسجد کے بکس کو تالے اور زنجیریں ڈالی ہوئی ہوتی ہیں۔ کیا ہماری کوئی ایک بھی ایسی مسجد یا درگاہ ہے جہاں رقم جمع کرنے والا بکس بغیر تالے کے ہو۔ ہمارے قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔ تبدیلی اور انقلاب صرف حکومتوں کے بدلنے سے ہی نہیں آتے بلکہ جب تک قلب و ذہن میں تبدیلی نہیں آتی حقیقی انقلاب نہیں آسکتا ۔ جہاں باکردار اور سچی قیادت انقلاب اور تبدیلی کے لیے ضروری ہے وہیں عوام کے فکر و نظرکو بھی بدلنا اتنا ہی ضروری ہے۔ اس اصول کو تو خالق کائنات نے انسانیت کے نام اپنے آخری پیغام میں بالکل واضع بتا دیا ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے قلب و ذہن میں اور اپنے سوچنے کے انداز میں تبدیلی نہیں لاتی،اپنی طرز فکر کو بدلتی نہیں تو خدا بھی اُس قوم کے حالات نہیں بدلتا۔ اس انقلاب اور تبدیلی میں سب کا کرادر اہم اور بنیادی نوعیت کا ہوتا ہے اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو سبپر عائد ہوتی ہے اور ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے بصورت دیگر ہم اسی دلدل میں ہی پھنسے رہے گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں