ہاکر اور چوہا

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
محمد پرویز میرے دوست ہیں معروف کاروباری شخصیت ہیں۔اسلام آباد میں ایک ایڈورٹائزینگ ایجینسی کے مالک بھی ہیں۔ ایبٹ آباد سے ایک اخبار نکالتے ہیں میرے کالم ان کے اخبار میں چھپتے ہیں ان کی مہربانی ہے اچھی جگہ دیتے ہیں۔چلئیے یہ بات بعد میں کریں گے پہلے ایک دل چسپ واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ہم گزشتہ دو ماہ سے بڑے پریشان تھے ہمارے گھر کے لان میں ایک چوہا روز آ کر مٹی نکال دیتا تھا اچھا خاصا لان ڈب کھڑبہ ہو گیا تھا۔ہم روز اسے دیکھتے اس نے پچھلی باڑ سے حملہ شروع کیا اور اور آگے مکان کی بنیادوں کی طرف بڑھنا شروع کر دیا آئے روز مجلس مشاورت بیٹھتی اور سوچا جاتا کہ یہ بے حس مخلوق ہمارے چھوٹے سے باغ کا بیڑہ غرق کر رہی ہے اس کا کیا علاج کیا جائے میں روزنیچے جاتا اور مایوس لوٹ آتا۔فینائیل کی گولی سے کام چلایا اور وہ کسی اور جگہ سے سر نکال لیتا ۔یہ تو چوہا کیا مرد مومن کی طرح یہاں ڈوبتا تھا اور کسی اور جگہ سے سر نکال لیتا تھا۔فینائل کی گولی کے بعد چوہے مار گولی ڈالی گئی اس سے بھی کام نہیں چلا۔وہ پھر بائیں ہاتھ کی کسی کھڈ سے سر نکالتا ایک روز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ لان کے سینٹر سے مٹی اس طرح پھینک رہا تھا جیسے اس نے کوئی چھوٹا سا شاول لگا رکھا ہو۔میرے بیٹے کو لان کی زیادہ فکر رہتی ہے اسے کسی نے بتایا کہ ٹماٹر پر زہر لگاؤ مر جائے گا ہمارا ٹماٹر بھی گیا اور وہ پھر بھی کسی جگہ سے نمودار ہو کر رات کو نقصان کر گیا۔ہمارے ہمسایوں نے اس دکھ بھری گھڑی میں ہمیں مشورہ دیا کہ امرود پر کچھ لگا کر کڑکی لگا دی جائے ۔ وہ صاحب اس سے بھی گزر گئے میں نے کہا امرود کیا ہم پوری فروٹ چاٹ کھلا دیں گے لیکن چوہے نے نے اپنے کام سے پرہیز نہیں کی ۔ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ۵۰۲ کے عظیم لان کو چوہے کی نظر ہوتے دیکھ کر پریشان ہوئے اور ہاتھ مل کر رہ گئے۔ہوا یہ کہ مجھے نلہ میں میرے بھتیجے نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے بڑے لیڈر گاؤں تشریف لا رہے ہیں لہذہ آپ کا آنا ضروری ہے میں وہاں پہنچ گیا رات کو ہمارے ایک اسی سالہ بزرگ کزن ہیں میں نے یہ معاملہ ان کے سامنے رکھا۔انہوں نے کہا میں نے تو ایک بار بارہ بور کی بندوق سے اس کا کام تمام کیا تھا آپ تو ایسا نہیں کر سکتے ۔آپ ایک کام کریں جب واپس ہری پور جائیں تو پیلیس ہوٹل کے سامنے ایک زرعی ادویات کی دوکان ہے وہاں سے انڈیا کی گیس گولی ملتی ہے وہ لے کر اس کی کھڈ میں رکھ کر اس کے اوپر کچھ چیز رکھ کر مٹی ڈال دیں ۔یہ گولی گیس میں تبدیل ہو کر چوہے کو مار دے گی۔
یہ ایک مشکل مرحلہ تھا چوہا پاکستانی تھا اور گولی انڈین دل نہیں مان رہا تھا کہ بھائی میر افضل کے مشورے کو مانوں اور اس پاکستانی چوہے کو دشمن کی گولی سے مار دوں۔میں کچھ دیر کے لیئے ٹی ٹی پی کا فرد بن گیا سوچا وہ بھی تو مسجدوں اور بازاروں اسکولوں میں انڈین ایجینٹ بن کر انڈیا سے اسلحہ لے کر مسلمانوں کو مار دیتے ہیں ۔تم ایک چوہے کو کیوں نہیں مار دیتے۔تھوڑی ہی دیر میں سوچا جو پاک سر زمین کو کھود کر خراب کر رہا ہے اسے مارنا ضروری ہے۔ اور دل میں خیال آیا ہو سکتا ہے یہ ننگ وطن کوئی ٹی ٹی پی کا ہی ایجینٹ ہو جو ایک محب وطن کے گھر کو تباہ کر رہا ہے ۔ہم نے پیلیس ہوٹل ہری پور کو ڈھونڈا میں اس پیلیس کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کس کا پیلیس ہے چلیں کوئی گل نئیں اور اس کے بعد ستر روپے میں وہ گولیاں خریدیں تا کہ اس وطن دشمن چوہے کو دشمن کی ہی گولی سے اڑا کر بھسم کر دیں۔وہی ہوا جس رات یہ گولی ڈالی گولی اندر تئے چوہا جالندھر ہوا۔
چلئے اب سنئے اخبارات کا قصہ چوہے سے تو جان چھٹ گئی مگر پرویز اور دیگر دو تین اخبارات جن میں میرے کالم چھپتے ہیں یہ اخبارات مجھے ایڈیٹرز اور مالکان کی جانب سے مفت ملتے ہیں میں ان کا شکر گزار ہوں ویسے میں اپنے کالموں کی اجرت نہیں لیتا۔اس لحاظ سے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔مگر میرے ساتھ گزشتہ تین سال سے ظلم ہو رہا ہے کہ ہاکر مجھے بعض اوقات اخبار دیتا ہی نہیں اور بعض مرتبہ بڑے اخبار کی جگہ کوئی ردی نما اخبار دے جاتا ہے کسی دن خبریں کی جگہ کو حق نامی اخبار ہے جو شائد اشتہارات
کے لئے چھاپا جاتا ہے وہ عنائت کر دیتا ہے۔کبھی کو ئی لیڈر نامی اخبار دے جا تا ہے اور کبھی دن دیہاڑے دن دے جاتا ہے مگر میری آنکھوں میں دھول جونک کر۔نہ میں اسے دیکھ سکا نہ میرے نوکر۔میں نے بڑی کوشش کی کے اس بندے کو پکڑ کر کہوں کے یار خدا را مجھے میرے اخبارات دے جایا کرو۔ یہ کچرا نہ دیا کرو۔لیکن آج تین سال ہونے کو ہیں میں نے آج تک وہ ہاکر نہیں دیکھا۔اگر مجھے ملے تو اس ظالم سے اس ظلم کی وجہ پوچھوں۔ایک بار وائیس آف امریکہ نے پانامہ کے بارے میں پوچھا کہ ان لیکس کے بعد پاکستان میں طوفان مچ گیا ہو گا تو مجھے یہ ہاکر یاد آیا جو اپنے دائرہ ء اختیار میں سب سے بڑا پانامہ لیکس کا مالک ہے۔ریڑھی والے سے درجن کیلے لیں تو وہ دس ہوتے ہیں اور ان میں گلے سڑے ہوتےء ہیں قصاب سے نوکر کے ہاتھ گوشت منگوائے تو بلی کے کام آنے والا گوشت دے گا۔میں آج پرویز صاحب سے گلہ کر رہا تھا کہ آپکا اخبار کیوں نہیں مل رہا تو ان کا بھی گلہ یہ تھا کہ پنڈی کے ہاکر غائب کر جاتے ہیں۔ٹکا خان صاحب سے یاد اللہ ہے کیا ان سے گولی لے کر ان ہاکر صاحبان کی کسی کھڈ میں رکھ دوں میری مراد ہے اپنے دروازے کے سامنے تا کہ اس میں پھنس جائیں اور میں ان سے بات کر سکوں۔سچ پوچھیں ہم اپنی اپنی جگہ سارے ہی ہاکر ہیں کوئی کام ایمانداری سے کرنا بے ایمانی سمجھتے ہیں۔مجھے اللہ نے چوہے سے بچا دیا ہے کوئی دن ہو گا اس ہاکر سے بھی بچ جاؤں گا(میرا ایڈریس مکان نمبر ۵۰۲ گلی نمبر ۱۷ سیکٹر نمبر ۳ ایئر پورٹ سوسائٹی ہے ۔ہاکر صاحب اگر چوہا نہیں بچا تو بچے تم بھی قابو تو ضرور آؤ گے)

اپنا تبصرہ لکھیں