گلگت بلتستان کس کے شمالی علاقے

افکار تازہ
OLYMPUS DIGITAL CAMERA
OLYMPUS DIGITAL CAMERA

عارف محمود کسانہ
گلگت بلتستان ، ریاست جموں کشمیرکا آئینی، قانونی حصہ اور اس کے شمالی علاقے ہیں ۔ کشمیر کے مسلمان حکمران سلطان شہاب الدین ( 1360-1387 ء) نے یہ علاقے جموں کشمیر کی سلطنت میں شامل کیے جوتقسیم ہندوستان کے وقت بھی ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھے۔ ریاست جموں کشمیر کے کل رقبہ ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل میں گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباََ اٹھائیس ہزار مربع میل شامل ہے جسے سروے آف پاکستان اور اقوامِ متحدہ نے آج تک تسلیم کیا ہوا ہے۔ 1937 اور 1941 کے ریاست جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں گلگت بلتستان سے پانچ ارکان شامل ہوتے تھے اور یہ سلسلہ 1947تک جاری رہا۔ برطانوی ہند کے دور میں جب شمال کی جانب سے روس کے ا س علاقے پر چڑھائی کے خطرے کے پیشِ نظر برطانوی ہند کی حکومت نے کشمیر کے حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ سے معائدہ گلگت کے تحت یہ علاقہ 1935میں سا ٹھ سال کے عرصہ تک اپنی تحویل میں لے لیئے مگر معائدہ کی رو سے یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ رہیں گے اور سرکاری عمارتوں پر ریاست کا پرچم لہرایا جائے گا نیز کان کنی کے اختیارات بھی مہاراجہ کشمیر کے پاس ہونگے۔وہاں کے سول ملازمین ریاست جموں کشمیر کے ماتحت تھے اور اب بھی بہت سے لوگ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر میں موجود ہیں جو خود یا ان کے والدین گلگت بلتستان میں ریاست جموں کشمیر کے ملازمین تھے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو یکم اگست 1947کو یہ علاقے واپس مہاراجہ کشمیر کو لو ٹا دیئے ۔ مہاراجہ جموں کشمیر نے بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں حریت پسندوں نے ڈوگرہ فوج کو شکست د یکر اْسے گرفتار کر لیا جسے بعد میں قائد اعظم کے سیکریرٹری کے ایچ خورشید (بعد میں صدر آزادکشمیر)کے ساتھ تبادلہ میں رہا کیا گیا۔ 1947ء میں قائم ہونے والی آزادکشمیر حکومت اپنے مسائل اور وسائل کی وجہ سے ان علاقوں کا انتظام خود نہیں سنبھال سکتی تھی اس لیے28 اپریل 1949میں میں وزارتِ امورِ کشمیر حکومت پاکستان، حکومت آزاد کشمیر اور مسلم کانفرس کے درمیان معائدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان عارضی طور پر انتظام کی غرض سے حکومتِ پاکستان کے حوالے کیا ۔ اس معائدہ پر حکومت پاکستان کے وزیر مشتاق گورمانی، آزادحکومت ریاست جموں کشمیر کے صدر سردار ابرہیم خان اور یاست کی سیاسی جماعت آ ل جموں کشمیر مسلم کانفرس کے صدر چوہدری غلام عباس نے دستخط کیئے۔ اس معائدہ کے بعد حکومتِ پاکستان نے محمد عالم خان کو اس علاقے کا پولیٹیکل ایجنٹ بنا کر یہاں بھیج دیا۔
پاکستان کے 1956، 1962اور 1973کے آئین میں کہیں بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ نہیں تسلیم کیا گیا۔ موجود 1973کے آئین کی دفعہ ایک کی ذیلی شق دو میں پاکستان کن علاقوں پرمشتمل ہے اس کی تفصیل دی گئی ہے اور اُن میں گلگت بلتستان شامل نہیں ہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی یہی تسلیم گیا ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان ، ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور یہ بھی پوری ریاست کی طرح ابھی تک متنازعہ ہے جس کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے اس لیے اس کا حتمی فیصلہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی ہوگا اور کسی ایک جماعت، فرد یا کچھ لوگوں کے جانب سے از خود کئے گئے کسی بھی فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کا اختیار حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے بخشی غلام محمد کے دور میں جب 15 فروری 1954 ء کو بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور پھر 26جنوری 1957ء کو مقبوضہ کشمیر کے آئین میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جس پر پنڈت نہرو نے 29مارچ 1956ء میں لوک سبھا میں کہا کہ کشمیر اب آئینی طور پر بھارت سے الحاق کر کے اس کا حصہ بن گیا ہے اور اب رائے شماری کی باتیں فضول ہیں۔جو لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کا 16 نومبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگیا تھا انہیں مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے الحاق بھی تسلیم کرلینا چاہیے ۔ گلگت بلتستان کے الحاق کہ نہ کوئی دستاویز ہے اور ہی یہ کوئی قانونی طور پر کسی اسمبلی نے کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے بھارت کے الحاق کو مسترد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے 24جنوری 1957کو قرارداد نمبر 122منظو ر کی جس میں اپنی سابقہ قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوے واضع کیا کہ ریاست کے کسی بھی حصہ کو اپنے طور پر مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے۔ اس قرارداد کا اطلاق ریاست جموں کشمیر کے تمام علاقوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہی اقوام متحدہ کی قرارد اد یں ہیں جن کی بنیاد پروہ پوری دنیا میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو چیلینج کرتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جو حد متاکہ یا کنٹرول لائن پر موجود ہیں ان کے گلگت اور سکردو میں موجود دفاتر بھی اسی حقیقت کا نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں۔ 1954ء تک گلگت بلتستان کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے ۔ آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ نے 1992میں اپنے ایک فیصلہ میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا جس کی بعد میں آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے توثیق کی تھی۔
گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا آئینی اور قانونی حصہ ہے اور یہ اس کے شمالی علاقے ہیں۔ تاریخی، آئینی اور قانونی حقائق کو اگر کوئی مسخ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ 16 نومبر 1947 ء کو ان علاقوں نے اپنی آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کرلیا تھا ور اب وہ پاکستان کا حصہ ہیں تو کیا وہ ان سوالات کا جوابات دیں گے کہ
1کیا قانون آزادی ہند کے تحت کچھ لوگ اپنے طور پر الحاق کرنے کے مجاز تھے۔ کیا برصغیر میں کسی اور ریاست کے لوگوں نے اس طرح الحاق کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا کیا موقف تھا۔
2 اگر کوئی ایسا الحاق ہوا تھا تو حکومت پاکستان کی جانب سے اسے قبول کرنے کا گورنر جنرل کی جانب سے حکم نامہ، کوئی گزٹ نوٹیفیکیشن، کوئی سرکاری حکم یا کوئی اخباری بیان تک موجود کیوں نہیں۔
3 اگر یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں تو پھر وہیاں کے لوگ کیوں 1954 تک مظفر آباد سے حقوق شہریت حاصل کرتے رہے ہیں
4 اگر ان علاقوں کا نومبر 1947میں ہی پاکستان سے الحاق ہوگیا تھا تو حکومت پاکستان کو حکومت آزادجموں کشمیر سے کیوں اپریل 1949میں معائدہ کراچی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
حکومت پاکستان یا وزارت خارجہ نے کبھی بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار نہیں دیا . گلگت بلتستان میں جون 2015 میں ہونے والے ا نتخابات پر بھارت کی جانب سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ترجمان وزارت خارجہ قاضی خلیل اللہ نے اپنے بیان میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ نہیں قرار نہیں دیا بلکہ انہیں ریات جموں کشمیر کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار داوں کی روشنی میں ان کے حتمی مستقبل کا فیصلہ کرنے پر زور دیا ہے۔ اگرصوبہ سندھ کے کچھ علاقہ پنجاب میں شامل نہیں کیا جاسکتا نہ پنجاب کا کوئی علاقہ کے پی کے میں شامل کر سکتے ہیں تو پھر گلگت بلتستان کو کیوں ریاست جموں کشمیر سے الگ کرکے پاکستان کے شمالی علاقے قرار دیا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کو کیوں غلط بتایا جاتا ہے۔ ہمیں حق اور سچ بات کرنی چاہیے کیوں قرآن حکیم ہمیں یہی حکم دیتا ہے۔ پوری ریاست جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان پاکستان کادفاعی یونٹ اور زیر انتظام علاقے ہیں۔پاکستان کےّ آئین کی دفعہ 257 کے تحت جب کشمیری عوام کو موقع ملے گا اور وہ اپنی خواہش کا اظہار کریں تو پھر قانون سازی کرکے جیسے چاہیں انتظامی صورت طے کرلیں۔ گلگت بلتستان کو جموں کشمیرسے الگ کرنے کی کوششیں کشمیری عوام مے ذہنوں میں خدشات جنم دیں گی۔ مقبوضہ کشمیر سے حریت قیادت جن میں سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر وعظ عمر فاروق اور دیگر رہنماء انہوں نے بھی حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔
گلگت بلتستان کے عوام کو جمہوری حقوق اور اختیار ضرور ملنا چاہیے ۔ صدر ریاست آزاد جموں کشمیر سردار محمد یعقوب خان نے بہت معقول تجویز دی ہے کہ اِن علاقوں کو آزادکشمیر کے ساتھ ملا کرایک بڑا انتظامی یونٹ بنانا چاہیے اور صدارت یا وزارت عظمیٰ میں ایک عہدہ گلگت بلتستان کا دیا جانا چاہیے۔ سرادر یعقوب نے اپنے دور صدارت میں دونوں خطوں کو قریب لانے کی کو کوششیں کی ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔آزادکشمیر کے باقی سیاستدان بھی اگر ان جیسا طرز عمل رکھتے تو آج گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کو یہ کہنا پڑتا کہ ساٹھ سال تک آزادکشمیر کے کسی رہنماء نے نہ یہاں کا کوئی دورہ کیا اور نہ ہی ہمارا حال پوچھا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں عملی طور پر گلگت بلتستان کے خطہ سے عرصہ دراز سے لا تعلق ہو چکی ہیں۔ اِن جماعتوں نے وہاں اپنی نہ تو تنظیم سازی کی ہے اور نہ آزاد کشمیر کے کسی سیاسی رہنما نے وہاں کا دورہ کیا ہے۔ غیر ریاستی سیاسی جماعتیں منافقت کا شکار ہیں، ان کی آزادکشمیر کی شاخوں کا موقف اور ہے اور گلگت بلتستان کی شاخوں کا کچھ اور جبکہ جن کی یہ شاخیں ہیں انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ آزاد کشمیر کے اکثر سیاسی رہنما یورپ اوبرطانیہ کا دورہ کرتے رہتے ہیں مگرریاست جموں کشمیر کے شمالی علاقوں کی طرف رخ نہیں کرتے۔ آج اگر وہاں کے باشندے الگ تھلگ ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی آزاد کشمیر کے سیاستدان ہیں۔

2 تبصرے ”گلگت بلتستان کس کے شمالی علاقے

اپنا تبصرہ لکھیں